- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

توحید، حقوق العباد، اقامہ نماز اور زکات کی ادائیگی عبادات میں سب سے زیادہ اہم ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں دین کی اصلی عبادات (توحید، حقوق العباد، اقامہ نماز اور زکات کی ادائیگی) کا تذکرہ کرتے ہوئے ان امور پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت واضح کردی۔
مولانا عبدالحمید نے سولہ ستمبر دوہزار بائیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے سورت البقرہ کی آیت 83 سے اپنے بیان کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں سعادت و کامیابی کے اصول یاددہانی کرتے ہوئے دین کے اصلی نکات بیان فرمائے ہیں۔
انہوں نے توحید کو انسان کے اپنے رب سے کیے گئے معاہدے میں سب سے اہم مسئلہ یاد کرتے ہوئے کہا: سب عبادات سے بڑھ کر توحید کا مقام ہے جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے الگ کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بے مثال ہے۔ رب العالمین کی صفات اتنی بڑی ہیں کہ کوئی شخص ان میں اللہ سے شریک نہیں ہوسکتا۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: اپنے عقائد کے بارے میں حساس رہیں؛ بعض اوقات بندہ گمان کرتاہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتاہے، حالانکہ اس کے کاموں میں شرک کا شائبہ موجود ہے اور یہ خداپرستی سے متضاد ہے، مصیبت یہ ہے کہ اسے خود بھی پتہ نہیں کہ وہ شرک سے آلودہ ہوچکاہے۔
انہوں نے کہا: ریاکاری اور دکھاوے کے لیے عبادت شریک کی ایک قسم ہے جس سے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں۔ نیک کام صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر کیا کریں۔ دینداری کی قوت اسی میں ہے کہ نیک کام اللہ ہی کی خاطر ہوں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: توحید کے بعد بندوں کے حقوق خاص کر والدین کے حقوق کا نمبر ہے۔ افسوس ہے کہ آج کے مسلمان توحید اور والدین کے حقوق کے بارے میں ضروری حساسیت کو نہیں دکھاتے ہیں۔ اس حوالے سے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ان کے حق سے بڑھ کر احسان کرنا چاہیے۔ ان کی خدمت کریں اور ان کے سامنے تواضع سے پیش آئیں۔
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: رشتے داروں خاص کر وہ جو بیمار ہیں، ان کی خدمت کریں۔ والدین کی خدمت اور صلہ رحم سے اللہ کی رضامندی اور جنت ملے گی۔ غریبوں اور نادار لوگوں کو یاد کریں اور بقدرِ استطاعت ان کی خدمت کریں۔ جب انہیں علاج کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں مدد کریں۔ حکام، ذمہ داران، علمائے کرام اور عام لوگ بیماروں سے غافل نہ رہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: وہ غریب مسافر جس کے پاس کھانے کو پیسے نہیں، سفر کے لیے ٹکٹ نہیں اور رہنے کو کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا پیسہ نہیں، اسے ایک ایسے شہر میں پریشان نہیں ہونا چاہیے جس میں دس لاکھ مسلمان رہتے ہیں ۔ یہ مہمان نوازی اور اسلامی اخلاق سے بہت دور ہے کہ ایسا مسافر پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے پریشان رہے۔ ایسے غریبوں کی مدد ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

لوگوں اور قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا اسلامی اور انسانی اخلاق سے متضاد ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: یہ اسلامی اور انسانی اخلاق سے بہت دور ہے کہ کوئی شخص لوگوں اور قبائل و خاندانوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑائے، الزام تراشی کرے اور گالم گلوچ سے کام لے۔ قومیتوں اور قبائل کو لڑانا اور اکسانا جن میں اسلامی بھائی چارہ قائم ہے اور وہ آپس میں رشتے دار ہیں، انتہائی غلط اقدام ہے۔ سوشل میڈیا میں بھائی چارہ، اتحاد اور محبت و دیانت کی فضا غالب ہونی چاہیے۔ تفرقہ سے دین و دنیا کو نقصان پہنچتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: سب اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں ان کے کسی عمل یا بات سے اختلاف، تنازع اور فرقہ واریت پیدا نہ ہوجائے۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا بدترین کام ہے جس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
خطاب کے اس حصے کے آخر میں خطیب اہل سنت نے نماز اور زکات پر زور دیتے ہوئے کہا: اگر ہم قحط سے دوچار ہیں اور کروڑوں روپے منافع کے بعد اب انہیں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ زکات نہ دینا ہے۔
نماز کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کی آخری وصیت نماز کے بارے میں تھی اور وصال سے پہلے جس عمل کی جانب ان کی نظر مبارک پڑی، وہ فجر کی نماز تھی جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں ادا ہورہی تھی۔ اللہ کے سب احکام پر عمل کریں اور اپنا معاہدہ رب سے نہ توڑیں۔ خاص کر نوجوان طبقہ نماز پر توجہ دیں۔

افغان حکام سیستان کے پانی کے حصے کا خاص خیال رکھیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں صوبہ سیستان بلوچستان کے شمالی علاقہ ‘سیستان’ کے افغانستان سے آنے والے پانی کے حصے کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا: پانی انسان کی سب سے اہم ضرورت اور بنیادی حق ہے۔ افغانستان کی اسلامی حکومت کے ذمہ داران کو میرا مشورہ ہے کہ سیستان کو اس کا پانی دلوائیں اور اس پر خصوصی توجہ دیں۔
انہوں نے کہا: جب سیستان کے پانی ذخائر خالی ہورہے تھے، لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاکر بارش کے لیے دعائیں کیں۔ اگر اس علاقے کا پانی ختم ہوگیا، حکومت اور عوام دونوں بے بس ہوجائیں گے۔لہذا افغان حکام حالیہ بارشوں سے جمع ہونے والے پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔پانی کی حفاظت سب سے اہم امور اور دیانت کا تقاضا ہے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: پانی کا مسئلہ سیاسی نہ بنائیں۔ پانی کا راستہ نہ روکیں؛ اس کام سے نہ گھبرائیں؛ بلکہ یقین کریں جتنا پانی آپ سیستان کو آنے دیتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ پانی تمہیں ملے گا۔ ہم نے اسے تجربہ کیا ہے۔

علما کو قبائلی تنازعات کا حصہ نہ بنائیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں جامعہ دارالعلوم زاہدان کے دارالتربیہ کے استاذ مولوی آصف سارانی کی شہادت کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کی مکمل مغفرت اور پس ماندگان کے لیے اجر و صبر کی دعا مانگی۔
انہوں نے کہا: مولوی آصف ایک نیک اور متقی عالم دین تھے۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ یہاں دارالعلوم میں خدمت کی اور ہم نے ان سے کوئی برائی نہیں دیکھی۔ دین کی خدمت کے لیے تیار تھے اور جہاں کہاجاتا، وہیں چلے جاتے تھے۔ افسوس ہے کہ ہم نے اس عالم دین کو کھودیا ہے؛ جن لوگوں نے انہیں مروایاہے، ان کے بارے میں اگر کسی کے پاس کوئی اطلاع ہو، وہ ہمیں مطلع کرے یا وہ خود میرے پاس آجائیں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔
حضرت شیخ الاسلام نے کہا: علمائے کرام قومی اثاثہ ہیں؛ وہ کسی خاندان یا قبیلے تک محدود نہیں ہیں؛ ان کا تعلق سب لوگوں سے ہے۔ علمائے کرام کو اپنے قبائلی اور خاندانی تنازعات اور جھگڑوں میں نہ گھسیٹیں اور انہیں نہیں مارنا چاہیے۔ علماء کو بھی ہم کہتے رہتے ہیں کہ تمہارا تعلق کسی مخصوص قبیلے سے نہیں ہے؛ آپ سب عوام کے لیے عالم دین ہیں۔