- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رزق میں کمی بیشی کی حکمتیں

یہ انسان کے اپنے ذہن کی اختراع ہے کہ رزق میں کمی بیشی اس کے لیے عزت و ذلت کا باعث بنتی ہے۔
اگرچہ ایسا ہرگز نہیں ہے، انسان کے رزق میں کمی بیشی میں اللہ کی کئی مصلحتیں اور حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے رزق کی فراوانی اس کے لیے اللہ سے سرکشی اور اس کی نافرمانی کا سبب بنتی ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا۔ اور بسا اوقات رزق کی تقسیم میں انسان کی آزمائش اور اس کی بندگی کا امتحان لینا مقصود ہوتا ہے۔
فرمان الہی ہے: (ترجمہ) ‘‘اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصانات سے تمہاری آزمائش کریں گے۔ تو صبر کرنے والوں کو (اللہ کی خوشنودی) کی بشارت سنا دو۔’’ (البقرہ)
ان آیات مبارکہ میں جن چیزوں کے نام گنائے گئے ہیں وہ سب محض انسان کی آزمائش اور اس کا امتحان ہیں، چنانچہ جو شخص بھی ان سب آزمائشی مراحل سے صبر و تحمل کے ساتھ گزرگیا وہی اللہ کی نظروں میں کامیاب اور فلاح پانے والا ہے۔ دراصل ہماری یہ زندگی تو ہے ہی امتحان اور مسلسل امتحان، اور یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ اس حقیقت کو جو بھی سمجھ گیا اس کے لیے نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی خوف! دنیا ایک آزمائش گاہ ہے اور انسان اللہ کا بندہ اور غلام ہے جسے اپنی بندگی کا ثبوت اسی دنیا میں اللہ کے سامنے پیش کرنا ہے۔ دنیا اور انسان کا یہ تعلق اس کی موت پر ہی ختم ہوتا ہے اور اس وقت تک وہ آزمائشوں کے دائرے میں ہی سفر کرتا رہتا ہے۔
رزق کی ترسیل کا معاملہ سراسر اللہ تعالی کی حکمت بالغہ اور اس کی مصلحت پر منحصر ہے کہ وہ کس کے رزق میں فراوانی کرتا ہے اور کس کی رزق میں تنگی، اس کا فیصلہ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، البتہ یہاں یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو بظاہر بدکار، گمراہ، بے راہ روی میں مبتلا اور خداناشناس ہے، بلکہ وہ اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مانتا ہی نہیں وہ یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ دنیا کی تمام آسائشیں اسے حاصل ہیں، رزق اتنا مل رہا ہے کہ اس کی ناقدری کی جارہی ہے اسے ضائع کیا جارہا ہے۔ اللے تللے ہورہے ہیں۔ اس کے کتوں کو بھی وہ کچھ مل رہا ہے جو ایک ضرورت مند انسان کو بھی میسر نہیں ہوتا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے رزق کی وسعت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ مٹی کو ہاتھ لگائے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔
جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو نیکوکار اور صالح ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہے اور اپنے دائرہ اختیار میں حتی الامکان اللہ کی نافرمانیوں سے دامن بچاتا ہے مگر نظریہ آتا ہے کہ وہ بے چارہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی پوری طرح فیضیاب نہیں ہوتا۔ صبح سے شام تک وہ جسم کو تھکادینے والی اور جاں گسل محنت کرتا ہے مگر اس محنت سے اس کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوپاتیں اور جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی اپنی زندگی سے بھی مایوس ہوجاتا ہے، اللہ کی طرف سے بھی اسے بدگمانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ آئے دن اخبارات اور میڈیا پر جو خبریں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں کہ فلاں آدمی یا عورت نے غریبی، مفلسی اور فاقہ کشی سے تنگ آکر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جان سے مار کر خود بھی خودکشی کرلی، یہ سب اسی مایوسی، کسمپرسی، بھوک پیاس اور احساسِ محرومی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
دراصل یہ دنیا اور اس میں ملنے والی زندگی میں اللہ کی جو مصلحتیں اور حکمتیں کام کررہی ہیں ان کو انسان سمجھ نہیں پاتا۔ اپنے مسائل، پریشانوں اور بنیادی ضرورتوں کی محرومی اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بے کار کردیتی ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے لاعلمی اس کی عقل و فہم کو ناکارہ کردینے کا بھی ایک بڑا سبب ہے۔ اگر دینی تعلیم سے آگاہی ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ جو انسان اس دنیا میں اللہ کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے اس کے نعم البدل کے طور پر اسے آخرت میں کتنے بیش بہا انعامات ملنے والے ہیں اس کا تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور فرض کریں اگر کسی کو اللہ کی بے شمار نعمتیں یہاں میسر آبھی گئیں تو اس سے کتنے دن فائدے اٹھا سکتا ہے۔ موت کا تو کسی کو بھی پتا نہیں کہ کب سامنے آکھڑی ہو۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ صاحب ثروت انسان تھے، جب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو سب کچھ بیت المال میں جمع کروادیا۔ دوران خلافت عید کا تہوار آگیا، بیت المال سے جو مشاہرہ ملتا تھا اس میں گزارہ تنگی ترشی سے ہوتا تھا، چنانچہ صاحب سے بیت المال سے کہا کہ مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی دے دیں، بچوں کے نئے کپڑے بنانے ہیں، میں ایک مہینے کے بعد تھوڑا تھوڑا کرکے یہ رقم واپس کردوں گا، صاحب بیت المال نے عرض کی امیرالمومنین! کیا آپ کو یہ یقین کامل ہے کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہ سکیں گے؟ اس جواب سے خلیفہ محترم کی آنکھیں کھل گئیں اور پھر پورے شہر نے دیکھا کہ شہر کا ہر بچہ عید کے دن نئے کپڑے زیب تن کئے ہوا تھا اور خلیفہ محترم کے بچے پرانے دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یہ کیا تھا؟ یہ وہ سوچ تھی کہ یہ دنیا عارضی ہے، یہاں کی آسائشیں اور یہاں کی تکالیف بھی عارضی ہے۔ یہاں نہ عیش و آرام ہمیشہ رہیں گے اور نہ دکھ، تکلیف اور مصائب و آلام، جب انسان ہی ہمیشہ نہیں رہے گا تو پھر آسائشیں اور کلفتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟ انسان زندگی تو پانی کا بلبلہ ہے ابھی بنا ابھی پھوٹا، جو سانس اندر گئی ہے کیا پتا وہ واپس آئے نہ آئے!
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو نعمتیں اسے میسر ہوتی ہیں اس کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، مگر جن نعمتوں سے وہ محروم ہے اس کا رونا روتا رہتا ہے۔ اصل میں وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے جن بندوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے ان کو بھی بہت ساری دوسری نعمتوں سے محروم رکھا ہوتا ہے۔ ہم دنیا کے ہر انسان کے حالات سے واقف نہیں ہوتے، کیوں کہ یہ تو غیبی امور ہیں جن سے خالق ارض و سماء ہی پوری طرح واقف ہے۔ انسان کی عافیت تو راضی برضا رہنے ہی میں ہے۔ اللہ کے سامنے تو اپنے وقت کے بڑے بڑے فرعونوں ، سرکشوں اور سورماؤں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ایک عام انسان کی حیثیت ہی کیا ہے! تیز و تند ہواؤں میں اڑتا ایک حقیر ذرہ!