- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

تنگ نظر عناصر اہل سنت کی قانونی آزادیوں پرڈاکہ ڈال رہے ہیں؛ حکام انہیں لگام لگائیں

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین و سماجی رہ نما نے دارالعلوم رحمانیہ نصیرآباد، ضلع سرباز میں اکیس اگست دوہزار بائیس کو تقریب دستاربندی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سنی برادری کی مذہبی آزادی اور سرکاری اداروں کی تقرریوں میں امتیازی سلوک کے خاتمے کو اہل سنت ایران کے دو اہم مطالبہ یاد کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا تنگ نظر عناصر پر نظر رکھیں جو سنی شہریوں کی جائز اور قانونی آزادیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، مولانا نے اپنے خطاب میں کہا: بعض شہروں میں سنی برادری کو گھروں میں باجماعت نماز پڑھنے سے منع کیا جاتاہے اس بہانے پر کہ یہ مکانات رہائشی ہیں اور ان میں نماز ادا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ تمہارے سنی بھائیوں کا حق ہے کہ کرایے کے مکانات میں پنج وقتہ نمازوں اور عیدین و جمعہ کی نمازیں ادا کریں۔
انہوں نے مزید کہا: اعلیٰ حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ تنگ نظر ، متعصب اور انتہاپسند عناصر پر نظر رکھیں جو اپنی قوت سے غلط فائدہ اٹھا کر اہل سنت کی قانونی آزادیوں پر ڈاکہ زنی کررہے ہیں۔ ہمارا یہ مطالبہ اسلام، آئین اور بین الاقوامی رواج کے مطابق ہے؛ چونکہ مذہبی امور پوری دنیا میں آزاد ہیں۔
جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر نے کہا: شام و عراق میں جو حالات پیش آئے، ان کے تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی شدید مخالفت کی گئی اور بعض عناصر کی کوشش تھی کہ صوبہ سیستان بلوچستان کی سرحدوں کے ذریعے ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلائیں، لیکن اہل سنت کے مختلف طبقوں کی بیداری و سمجھداری نے سب سازشیں ناکام بنادیں۔
انہوں نے کہا: امن اور استحکام کی فضا قائم رکھنے میں سکیورٹی اداروں کی خدمات ناقابلِ انکار ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے عوام کی کوششیں بھی امن قائم رکھنے میں کافی موثر رہی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ بدامنی پھیلانے والوں کو خبردار کیا ہے کہ بدامنی و انتشار پھیلانا سب کے نقصان میں ہے۔

اہل سنت ایران کے اہم ترین مطالبات
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے صدر رئیسی کی حکومت سے اہل سنت کی توقعات اور اہم مطالبات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: تیرہویں کابینہ سے اہل سنت کا مطالبہ ہے کہ بڑے اور درمیانی درجے کے عہدوں میں صوبائی اور ملکی سطح پر اہل سنت کی قابل شخصیات سے کام لیاجائے۔ ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں، حصہ نہیں۔ صدر رئیسی سے آخری ملاقات میں سنا کہ سنی برادری سے کام لینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ابھی تک ہم مایوس نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اہل سنت کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ان کی مذہبی آزادی یقینی بنائی جائے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں اقامہ نماز کے بارے میں تنگ نظری نہیں پائی جاتی ہے۔ روس کے دورے کے دوران پتہ چلا ماسکو میں ایوانِ صدر (کرملن) سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک عظیم الشان جامع مسجد بیس کروڑ ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوئی ہے جہاں جمعہ کو دس ہزار افراد شریک ہوتے ہیں، اور یہ سب وہاں برداشت ہوتاہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے اپنے ہی بعض ہم وطن مشہد، تہران اور بعض دیگر شہروں میں ہمارے نمازخانوں تک کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور نمازیوں کو دھمکاتے ہیں کہ نمازخانے بند کریں۔ سوال یہ ہے کہ نماز کیوں برداشت نہیں ہوتی ہے؟! اعلیٰ حکام خیال رکھیں انتہاپسند عناصر ہماری قانونی اور جائز آزادیوں پر قدغن نہ لگائیں۔ نماز قائم کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم شیعہ علما اور دانشوروں سے توقع رکھتے ہیں کہ سنی برادری کے حقوق سے دفاع کریں اور ان کی آزادیوں کے احترام پر تاکید کریں۔ ہمارا کوئی مطالبہ قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہم آئین میں موجود اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ایران میں کم از کم دو کروڑ سنی مسلمان رہتے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ بھائی چارہ اور اتحاد کا خیال رکھتے ہوئے اپنے جائز حقوق کا مسئلہ پیش کیا ہے۔ ہم قانونی اور درست راستوں سے اپنے مذہبی اور قومی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں اور اتحاد و بھائی چارہ اور امن کی فضا قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کوہی کی رہائی اتحاد و بھائی چارہ اور امن کے مفاد میں ہے
ممتاز عالم دین نے اپنے خطاب کے آخر میں ضلع سرباز کے علاقہ پشامگ سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا فضل الرحمن کوہی کی جیل سے رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا: مولانا فضل الرحمن کوہی ایک متقی، مفید اور خیرخواہ عالم دین ہیں جن کا دامن ہر قسم کے داغ سے پاک ہے۔ انہوں نے بعض مسائل پر تنقید کی ہے؛ لیکن ان کا صرف لب و لہجہ ذرا سخت ہے، لیکن وہ خیرخواہی سے بات کرتے ہیں اور کافی عرصے سے جیل میں قید ہیں۔
انہوں نے ضلع سرباز اور راسک کے مقامی حکام سے توقع ظاہر کی کہ مولانا کوہی کی آزادی کا مطالبہ آگے بڑھائیں اور ان کی مشروط رہائی سے چند مہینہ گزرنے کے باوجود انہیں قید میں رکھنے کا مسئلہ حل کرائیں۔
یاد رہے مولانا فضل الرحمن کوہی نومبر دوہزار انیس سے اب تک مشہد جیل میں قید ہیں۔