- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

نیا اسلامی سال اور کرنے کے 12 کام

یہ پوری کائنات اصولوں اور فارمولوں کے تحت چل رہی ہے۔ رب کائنات نے ہر چیز کے لیے ایک نظام بنادیا ہے۔ ہر شیئ کا ایک دائرہ کار ہے، جس کے مطابق وہ اپنا کام کر رہی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے جب کائنات کی ہرچیز اصولوں کے مطابق چل رہی ہے اور اپنے مفوّضہ ذمہ داریاں پوری کر رہی ہیں، تو کیا انسان کو یونہی شتر بے مہار چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کو عبث پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں: ’’افحسبتم انما خلقنکم عبثا‘‘ یعنی ’کیا تم نے گمان کرلیا ہے کہ ہم نے تو کو یونہی بے کار پیدا کیا ہے۔‘ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ کائنات کا دولہا حضرت انسان ہے۔
یہ ساری دنیا و مافیہا سب کی سب اللہ تعالی نے انسان کی خدمت اور اس کی سہولت کے لیے ہی بنائی ہے۔ پھر انسان کو حکم دیا ہے وہ اس طرح کرے جس طرح رب کائنات اور اس کے خالق نے حکم دیا ہے۔ اسی طرح دنیا کا نظام چلانے کے لیے بعض کو بعض کے ماتحت کردیا ہے، چنانچہ سورۃ الزخرف کی آیت نمبر 32 ہے: «…نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا…»
’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کررکھے ہیں اور ہم نے ہی ان میں سے ایک دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے، تا کہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔‘
اللہ تعالی نے دیگر قوانین کے ساتھ ساتھ جزا و سزا کا قانون بھی بنایا ہے۔ ایک قانون جائزے اور احتساب کا بھی بنایا ہے۔ ہر سال کے آغاز و اختتام پر ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر جائزہ لینا اور احتساب کرنا چاہیے، کہ ہم نے کیا کیا اور کیا کرنا چاہیے تھا؟ کن امور سے بچنا چاہیے تھا؟ اصل بات تو یہ ہے ہر انسان ہر دن کے اختتام پر اپنا چھوٹا سا جائزہ لے اور احتساب کرے۔ خوبیوں اور خامیوں کو دیکھے۔ پھر ہر ہفتے کے اختتام پر پوری ہفتے کے امور کا جائزہ لے اور احتساب کرے کہ کیا کچھ کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ پھر ہر ماہ کے اختتام پر قدرے بڑا جائزہ لے اور پورے مہینے کا حساب اور احتساب کرے۔ دیکھے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں سے کہاں کہاں کمی کوتاہی ہوئی ہے؟ پھر ایک بڑا جائزہ ہر سال کے اختتام پر ہونا چاہیے۔ اس میں پورے سال کا ہر اعتبار سے تفصیلی جائزہ لے، اور سوچے کہ مجھے کیا نہیں چاہیے تھا۔ کہاں کہاں پر غلطیاں کی ہیں؟ ان کی نشاندہی کرکے نوٹ کرے اور پھر تہیہ اور عزم کرے کہ آیندہ سال ان سب سے پوری طرح بچوں گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر نئے سال کے آغاز اور اختتام پر ان 12کاموں کو کرنے کی لازمی نیت کرنی چاہیے۔ اسے آپ کو ہر اعتبار سے بہت فائدہ ہوگا۔


٭ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی نیت کو درست کرے، کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں اس کا اصل مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ اخلاص نیت کے بغیر سارے اعمال ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’انما الاعمال بالنیات‘ کہ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘ جیسی نیت ہوگی ویسا ہی بدلہ ملے گا۔


٭ دوسرا کام یہ کریں کہ اپنا دینی علم برھائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص علم کی تلاش کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالی کامیابی اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ دنیاوی کاموں کی مہارتوں میں بھی اضافہ کرے۔ آپ جو کام بھی کریں اچھے انداز میں کریں۔ ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ’ایکم احسن عملا‘ یعنی اچھے اور منظم انداز میں کام کریں۔ اچھے اور منظم انداز میں کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ نے دینی علوم اور دنیاوی فنون حاصل کیے ہوں۔


٭ تیسرا کام یہ کریں کہ آیندہ سال کے اپنے اہداف اور گول طے کریں۔ نئے اہداف کو غور و فکر سے ترتیب دیں۔ پھر ترجیحات کا تعین کریں۔ جتنا آپ کا ہدف واضح ہوگا اسی قدر آپ کی منزل آسان ہوگی۔


٭ چوتھا کام یہ کریں کہ اپنے اوقات کو منظم کریں۔ دیکھیں! وقت بہت وفادار ہے۔ یہ اپنا قدر کرنے والے کو عروج بخشتا ہے اور اپنی بے قدری کرنے والوں کو گمنامی کے غار میں پہنچا دیتا ہے۔ وقت کو منظم کرنے میں ڈائری لکھنے والا نظریہ اپنائیں۔ ایک چھوٹی ڈائری ہمیشہ اپنی جیب میں رکھیں۔ ہر اہم کام اور ہر وعدہ اس میں درج کریں۔ بڑی ڈائری اپنے دفتر یا گھر میں رکھیں۔ 24 گھنٹوں میں سے کم از کم ایک گھنٹہ اس ڈائری بھرنے کے لیے رکھیں۔ جس قدر یہ ڈائری منظم ہوگی اسی قدر آپ بھی منظم ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کی بدولت آپ تمام کاموں اور امور میں ہر وقت نمٹانے لگیں گے۔ جو شخص اپنے روزانہ کے کاموں کو روزانہ کرنے کا عادی ہو وہ ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔


٭ پانچواں کام یہ کریں کہ تلاوت قرآن کا معمول بنائیں۔ اپنے 24گھنٹوں میں سے آدھا گھنٹہ قرآن کی تلاوت اور ادعیہ ماثورہ کے لیے مختص کرلیں۔ آج کل حسد، جادو ٹونے کا دور ہے۔ حاسدین کے حسد اور دشمنوں کے ہر قسم کے شر سے آپ محفوظ اور مامون رہیں گے۔ نظر بد سے بھی بچے رہیں گے۔ آج کل نظریں بہت لگ رہی ہیں۔ اس طرح آپ بری نظروں سے بھی بچیں رہیں گے۔ تلاوت قرآن سے آپ کے کاموں اور اشیائ میں برکت بھی ہوگی۔ یہ مجرب نسخہ ہے۔ آپ اس پر لازمی عمل کریں۔


٭ چھٹا کام یہ کریں کہ نمازوں کے اہتمام کریں۔ نماز پڑھنے سے اللہ تعالی سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیں جب آپ کا تعلق اللہ تعالی سے مضبوط ہوگا تو آپ کی بگڑی بھی بن جائے گی۔ فرض نمازوں کے علاوہ نفل نمازوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ”اے بندے! سجدہ کر اور مجھ سے قریب ہوجا۔“ آپ بھی اپنے خالق حقیقی سے قرب حاصل کیجیے۔


٭ ساتویں بات یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ گاہے گاہے نفل روزے بھی رکھا کریں۔ اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے۔ پہلا یہ کہ آپ کو صبر ملے گا۔ صبر سے قوت برداشت پیدا ہوتی ہے، جس شخص کی جس قدر برداشت ہوگی وہ اندر سے اسی قدر مضبوط ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی صحت بھی اچھی رہے گی۔ حدیث پاک میں آتا ہے: ”صُومُوا تَصحّوا“ یعنی روزہ رکھنے سے صحت ملتی ہے اور اب تو جدید سائنس بھی اس بات کو مان چکی ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن بھوکا پیاسا رہنے سے صحت بہتر ہوتی ہے، لہذا آپ کو چاہیے کہ ”ایام بیض“ کے روزوں یعنی ہر اسلامی ماہ کی 13, 14 اور 15تاریخ کو روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔


٭ آٹھواں کام یہ کریں کہ خدمت خلق کو اپنا شعار بنائیں۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے: ”ہر چہ خدمت کرد مخدوم شود“، کہ جو شخص خدمت کرتا، اس کی خدمت کی جاتی ہے۔“ جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے رب کائنات اسے بہت نوازتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کے والی تھے۔ ناداروں کا سہارا تھے، بوڑھوں کا احترام کیا کرتے تھے۔ صلہ رحمی کرتے تھے۔ جس کا کوئی ولی وارث نہیں ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سرپرستی فرماتے تھے، لہذا آپ بھی نیت کریں کہ ہم خدمت انسانیت کا کام کریں گے۔ غریبوں کی مدد کریں گے۔ صلہ رحمی کریں گے، بے سہاروں کا سہارا بنیں گے۔


٭ نواں کام یہ کریں کہ لوگوں کے مابین صلح کروائیں۔ اتفاق و اتحاد اور رواداری کو فروغ دیں۔ جھگڑے، فساد اور انتشار والے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کریں۔ مخلصانہ رویہ رکھیں۔ امن کی کوشش کریں کہ امن بہت بڑی نعمت ہے۔ دیکھیں! بیت اللہ شریف کی تعمیر نو کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی دعا مانگی تھی کہ ”اے باری تعالی! تو اس شہر کو امن کا گہوارہ بنادے۔“ جب امن ہوتا ہے تو خوشحالی کے پھول کھلتے ہیں، امن کی بدولت ہی ملک و قوم ترقی کرتے ہیں، لہذا خود بھی پرامن رہیں اور دوسروں کو بھی پرامن رہنے کی ترغیب دیں۔


٭ دسواں کام یہ کریں کہ ناامید اور غموں کے مارے لوگوں کے لیے امید کے چراغ بنیں۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ دیکھیں! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو جاتے وقت یہی نصیحت کی تھی کہ لوگوں کو خوشخبریاں دینا، نفرتیں نہ دلوانا، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، ان کے لیے مشکلات کا سبب نہ بننا۔“ اس سے ہمیں پیغام ملتا ہے کہ ہر ایک کے لیے اچھا سوچیں۔ لوگوں میں خوشیاں بانٹیں۔ دوسروں کے لیے مخلص بنیں۔ مایوس نوجوانوں کے لیے امید کے چراغ بنیں۔ ہر ایک کی بھلائی اور خیرخواہی کا ہی سوچیں کہ دنیا میں نیکی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔


٭ گیارہویں بات یہ ہے کہ غور و فکر کرتے رہیں کہ میں اپنے بھائی، اپنے خاندان، اپنے رشتہ داروں، اپنے ملک و قوم، عالم اسلام، مسلمانوں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہوں۔ جب آپ غور و فکر کریں گے تو کامیابی اور فلاح کے نئے زاویے آپ کے سامنے آئیں گے۔


٭ بارہویں اور آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے قوانین اور انسانیت کی بہتری کے لیے انسانوں کے بنائے ہوئے اصول و

ضوابط کی پابندی کریں۔ رب کائنات نے جو حدود و قیود مقرر کردی ہیں، ان سے تجاوز نہ کریں۔ جو شخص اللہ تعالی کی مقررکردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا اور رب کائنات اس دھرتی پر کفر تو برداشت کرلیتے ہیں، مگر ظلم و ناانصافی برداشت نہیں کرتے۔ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ مل کر ہی رہتا ہے۔
اسی طرح آپ جہاں پر رہتے ہیں، اس ملک کے تمام قوانین کا احترام کرتے ہوئے اس کی پابندی کریں، جس معاشرے میں قوانین کی پابندی نہیں ہوتی، اسے جنگل بنتے دیر نہیں لگتی، اس لیے کہ جب یہ پوری کائنات اصول اور قوانین کے تحت ہی چل رہی ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہر چیز کے لیے قوانین ہیں اور قوانین پر عمل کرنا ہر ایک پر لازم ہے۔ ہر شخص اپنے گریباں میں جھانکے اور اپنا محاسہ کرے کہ میں نے کہاں کہاں اور کن کن حدود کو کراس کیا ہے؟ اس پر صدق دل سے نادم ہو، توبہ تائب ہو اور آیندہ کے لیے عہد کرے کہ کسی بھی حالت میں حد سے تجاوز نہ کریں گے اور اپنا ہر قسم کا محاسبہ اور جائزہ جاری رکھیں گے۔