- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

کنڑ اور خوست میں فضائی حملوں میں 20 بچے مارے گئے، یونیسف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ 16 اپریل کو افغانستان کے صوبوں کنٹر اور خوست میں ہونے والے فضائی حملوں میں 20 بچے مارے گئے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں صوبہ خوست میں 15 بچے (12 لڑکیاں اور تین لڑکے) جبکہ صوبہ کنڑ میں پانچ بچے (تین بچیاں اور دو بچے) مارے گئے۔
یاد رہے افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں نے سنیچر (16 اپریل) کی صبح افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ حصوں پر گولہ باری کی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا تاہم پاکستان کی جانب سے ان حملوں کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان پر افغانستان کی حدود میں فضائی حملوں کا الزام عائد کے بعد طالبان کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کیا تھا۔
پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان کی حدود میں فضائی کارروائیوں پر کوئی واضح ردعمل تو نہیں آیا ہے تاہم اس الزام کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ دہشتگرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغانستان کی طالبان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔

یونیسف نے کیا کہا؟
افغانستان میں یونیسیف کے سربراہ محمد ایویا نے بدھ کے روز اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ‘یونیسیف اب اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ 16 اپریل کی علی الصبح کنڑ اور خوست میں ہونے والے فضائی حملوں میں 20 بچے مارے گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ‘ان بچوں کو اُن کے گھروں میں اس وقت مارا گیا جب وہ سو رہے تھے۔ ہم اس المیے پر رنجیدہ ہیں اور تمام متاثرہ خاندانوں کے لیے دُکھی ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے افسوس کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کو بند ہونا چاہیے اور ہم تمام فریقوں پر زور ڈالتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عام شہریوں اور انفراسٹرکچر کو نقصان نہ پہنچائیں اور ہر صورت میں بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔‘
محمد ایویا نے مزید لکھا کہ ’ہماری ٹیمیں متاثرہ افراد کی مدد کر رہی ہیں۔‘

حملے ہوئے کہاں تھے؟
خوست میں مقامی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حملے ہفتے کی صبح سپیرا ضلع کے چار دیہات میں ہوئے جس میں متعدد خاندانوں کے کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے تاہم اب تک ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تاہم اب یونیسیف نے ان حملوں میں 20 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ذرائع کے مطابق حملے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد مارے گئے۔ دو دیگر خاندانوں کے پانچ سے چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں پاکستان کے سرحدی علاقے وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بعد نقل مکانی کرنے والے خاندان آباد ہیں۔
ابتدائی طور پر خوست کی صوبائی انتظامیہ نے بھی ان حملوں کی تصدیق کی لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔
خوست میں ذرائع نے بتایا تھا کہ طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان فضائی حملوں کے بعد جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔
دریں اثنا مشرقی صوبہ کنڑ سے ملنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ضلع شلتن کے علاقے چپری تاگہ میں فضائی حملے میں مقامی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
طالبان کے ایک صوبائی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’حملے میں ایک خاتون اور تین بچے ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔‘

پاکستانی سفیر منصور احمد خان کی طالبان وزارت خارجہ میں طلبی
پاکستان پر فضائی حملوں کے الزام کے بعد طالبان کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کیا۔
افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’افغان حکام نے خوست اور کنڑ کے کچھ حصوں میں پاکستانی افواج کے حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی اور اس مزید ایسے حملے نہ کیے جانے کا مطالبہ کیا۔‘
طالبان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستانی سفیر سے کہا کہ ’خوست اور کنڑ سمیت تمام علاقوں میں ہونے والی عسکری خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جس کے بُرے نتائج ہوں گے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کے علاوہ پاکستانی سفیر سے ملاقات میں طالبان کے نائب وزیر دفاع الحاج ملا شیریں اخوند نے بھی شرکت کی۔
اسلام آباد میں افغانستان کے سفارتخانے کے ذرائع نے بی بی سی کے نامہ نگار خدائے نور ناصر کو بتایا تھا کہ گذشتہ روز وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد پاکستانی حکام نے افغان سفیر کو ایک خط بھیجا تھا جس میں کیا گیا تھا کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔
ذرائع کے مطابق ’یہ خط کابل بھیجا گیا اور وہاں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن بدقسمتی سے تحقیقات سے پہلے ہی پاکستانی طیاروں نے گذشتہ رات خوست اور کنٹر میں بمباری کر دی۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کیا کہا گیا تھا؟
سامنے آنے والی اس نوعیت کی خبروں کے ردعمل پاکستان کی وزارت خارجہ نے گذشتہ اتوار کو اپنے بیان میں افغانستان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے کئی بار افغانستان کی حکومت سے سرحدی علاقہ محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں تاہم پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشت گرد گروہ پاکستان کی سرحد پر حفاظتی چوکیوں پر حملے کر رہے ہیں اور ان حملوں میں کئی پاکستانی فوجی ’شہید‘ بھی ہوئے ہیں۔ 14 اپریل کو افغانستان سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان میں پاکستان فوج کے سات جوانوں کو شہید کیا۔‘
بیان یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان، دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہونے کی شدید مذمت کرتا ہے، یہ دہشت گردی پاکستان افغان سرحد پر امن و استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور تمام شعبوں میں دو طرفہ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے افغانستان کی حکومت کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔

پاکستانی کی قومی اسمبلی میں حملوں کی گونج
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رُکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے افغانستان میں ہونے والے حملوں کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جیٹ طیاروں نے پاک، افغان سرحدی علاقے میں بمباری کی۔ انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اس علاقے میں پاکستان سے گئے ہوئے آئی ڈی پیز بھی مقیم ہیں۔سپیکر کی جانب سے پروڈکشن آڈر پر اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے جنوبی وزیرستان کے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی اس موضوع پر بات کی تھی۔
علی وزیر کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی لیکن معلوم نہیں کتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس موقع پر بھی محسن داوڑ نے بلند آواز میں بتایا کہ چالیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
بعد ازاں بی بی سی سے گفتگو میں محسن داوڑ نے بتایا کل اس علاقے میں پاکستان کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں سے بے گھر ہونے والے لوگ مقیم ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول کے ساتھ کچھ ویڈیوز بھی شیئر کیں جن میں موجود کچھ لوگ زخمی ہیں اور بظاہر وہ کسی ہسپتال میں موجود ہیں اور ان کی مرہم پٹی کی گئی ہے تاہم بی بی سی کو آزادانہ ذرائع سے یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ ویڈیوز کب اور کہاں کی ہیں۔
ایک ایسی ویڈیو بھی شیئیر کی گئی جس میں بہت سے افراد کی لاشیں ایک جگہ موجود ہیں، جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہیں۔
ایک ویڈیو میں ایک زخمی شخص جس کے سر پر پٹی کی گئی ہے، بتاتا ہے کہ رات دو سے تین بجے تھے اور ہم سو رہے تھے، بمباری ہوئی پھر دو بار فائر بھی ہوا۔
وہ زخمی شخص بتاتا ہے کہ 20 سے 30 افراد ہلاک ہوئے اور وہ کچھ لوگوں کو لے کر بھی گئے ہیں۔