- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

دارالعلوم زاہدان میں دورہ تفسیر قرآن کا افتتاح؛ مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی کا خطاب

زاہدان (سنی آن لائن) ایرانی اہل سنت کے سب سے بڑے دینی ادارہ جامعہ دارالعلوم زاہدان کی سالانہ چھٹیوں میں دورہ ترجمہ و تفسیر قرآن کریم کی افتتاحی تقریب جامع مسجد مکی زاہدان میں اٹھائیس فروری دوہزار بائیس کو منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی استاذ العلما مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی دامت برکاتہم تھے۔اس تقریب میں متعدد علمائے کرام، طلبا اور اساتذہ شریک تھے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب میں نشر علم دین اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو علما کی ذاتی ذمہ داری یاد کی۔
انہوں نے کہا: یہ بہت خطرناک ہے کہ ہمارے علمائے کرام دین اور علم کا راستہ چھوڑکر تجارت، کاروبار، کاشت کاری اور دوکان کھولنے پر رضامند ہوجائیں۔ قرآن کی تعلیم بہترین تعلیم ہے۔ قرآن و حدیث کے علوم دیگر علوم کے لیے ماں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے شیخ التفسیر مولانا محمد یوسف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا۔

مولانا محمدیوسف جامعہ عثمانیہ رحیم یارخان کے بانی اور مہتمم، شیخ الحدیث و التفسیر، جمعیت علمائے اسلام کے ناظم عمومی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ہیں۔ ان کے خطاب کے اصلی نکات درجِ ذیل ہیں:
سب سے پہلے جناب مولانا عبدالحمید صاحب، صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ انہوں نے مجھے اس عظیم الشان تقریب میں شرکت کا موقع دیا۔ اللہ تعالیٰ اس جامعہ کا فیض پوری دنیا میں پھیلادے، دن دگنی اور رات چگنی ترقی عطا فرمائے اور تا دیر اسے قائم رکھے۔
اللہ تعالیٰ نے تئیس سالوں میں اسلام کو نازل فرمایا۔ امت نے محنت کی تو پوری دنیا میں اسلام پھیل گیا۔ کوئی علاقہ، کوئی ملک اہل اسلام سے خالی نہیں ہے۔ یہ سب بطورِ خاص صحابہ کرام ؓ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
آپﷺ نے فرمایا ایک وقت پر میری امت پر مشکل آئے گا۔ جب دنیا ان سب کو ختم کرنے کے درپے ہوگی۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا اس وقت امت تھوڑی ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا امت بہت ہوگی۔ کیا وجہ ہے یہ سارے مغلوب ہوں گے؟ فرمایا ان میں ’وہن‘ آجائے گا۔ وہن کیا چیز ہے؟ دنیا کی لالچ؛ جب مسلمان دنیا کے پیچھے پڑیں گے پھر اپنا دفاع نہیں سوچیں گے۔ موت کو ناپسند سمجھنا؛ صحابہؓ موت پر فخر کرتے تھے شہادت کی تمنا کرتے تھے، لیکن امت کا وہ طائفہ موت کو ناپسند کرے گا۔ مرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پھر سارا کفر ان پر ٹوٹ پڑے گا۔
یہ وہی فتن کا دور ہے۔ مسلمان عرب سے زیادہ ہیں۔ پچاس سے زائد ملک مسلمانوں کے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ خوار اور ذلیل مسلمان ہیں۔ ہمارے حکمران اور بادشاہ، یورپ اور کافر ملکوں سے لالچ رکھتے ہیں اوراس لالچ میں اپنا سارا دین ضائع کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
امام مالک ؒ فرماتے ہیں جو انقلاب ابتدا دور میں آیا اسی طریقہ سے بعد کے ادوار میں انقلاب آئے گا۔ قرآن کے ذریعے سے انقلاب آیا ہے۔ ”فذکر بالقرآن من یخاف وعیدا“۔ قرآن کے ذریعے نصیحت کریں؛ جن کی قسمت میں خوفِ خدا ہے ان کو نصیحت کریں۔ اصل قرآن ہے؛ جب مسلمان اس قرآن پر عامل ہوجائیں گے،قرآن کو گلے سے لگائیں گے، قرآن کو اہمیت دیں گے، قرآن کے نظام کو اٹھاکر دنیا میں چلیں گے، پھر غلبہ ہمارا ہوگا۔ ”انتم الاعلون ان کنتم مومنین“۔ اللہ کے نبیﷺ نے قرآن کے ذریعے انقلاب بپا کیا اور آپ بھی قرآن ہی کے ذریعے انقلاب لاسکتے ہیں۔ قرآن سے ہٹ کر ہزاروں کتابیں، رسائل و۔۔۔ کرتے جائیں، انقلاب نہیں آسکتا۔
قرآن اور جگہ نہیں ملے گا؛ قرآن مدارس میں ملے گا۔ قرآن کا پڑھنا، اس کا ترجمہ، اس کا مصداق یہ سب مدارس میں ہیں۔ لیکن مدارس میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ تزکیہ چاہیے۔ تزکیہ کیا ہے؟ دنیا سے بیزار ہوجانا۔ دنیا کی لالچ سے بیزاری۔ ایک اگر ہمارے اندر آگئی، پھر ایک آدمی ہزاروں پر غالب آجائے گا۔
اگر قرآن کو بیچا، قرآن سے کمایا، قرآن سے لالچ بنائی، پھر وہ قرآن وبال بن جائے گا جیسا کہ حدیث میں آیاہے: ’رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ‘۔ یہ پڑھتے کچھ اور کرتے کچھ، تو قرآن ان پر لعنت بھیجتاہے۔ لہذا ہم سب کو یہ عہد کرنا ہے کہ دنیا میں قرآن کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنانا ہے۔ قرآن کو ذریعہ آخرت بناناہے۔ دنیا تابع ہے۔ روزی کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ روزی دے گا۔ محلات اور قسماقسم کی آسائشیں؛ ان کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن روزی کی ذمہ داری اللہ پاک پر ہے۔ اگر ہم لالچ سے پاک ہوکر قرآن پڑھیں اور قرآن پڑھائیں، پھر ہم غالب ہوں گے اور دنیا مغلوب۔ ضروری ہے کہ ہم لالچوں سے پاک ہوکر دین کی خدمت کریں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ ان کی قوم کو رہا کرے تاکہ وہ شام چلے جائیں۔ فرعون نے نہیں مانا۔ آپؑ نے چالیس سال محنت کی۔ بالاخر ایک رات وہ مصر سے شام کی جانب نکلے۔ راستہ بھول گئے؛ خشک راستہ کے بجائے دریا کی جانب آئے۔ پیچھے سے فرعون فوج سمیت پہنچا۔ قوم پریشان ہوئی اور کہا: انا لمدرکون۔ ہم پکڑے گئے، مارے گئے۔ موسیٰ ؑنے کہا: کلا؛ ہرگز نہیں۔ مجھے رب نے کہا ہے جاؤ۔ اب وہ ہمیں ضرور مدد کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور موسی علیہ السلام قوم سمیت بچ گئے اور فرعون فوج سمیت ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ موسیؑ نے قوم کو شہری زندگی سے اٹھا کر بدوی اور جنگل کی زندگی میں لے آئے۔نہ کوئی کھانا ہے نہ کوئی پینا ہے نہ کوئی مکان؛ کچھ بھی نہیں ہے۔ عیش کی زندگی سے مشکلات میں آئے۔ آتاہے کہ شاید موسیؑ نے قوم کو نقصان پہنچایا۔ حضرت موسی ؑ اللہ کو پیارے ہوگئے، حضرت ہارون ؑ بھی۔ قوم یہی تھی تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام آئے اور انہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی۔ یہ اسی آزادی کا نتیجہ تھا۔ حضرت موسی ؑ نے قوم کو مصیبت سے نکالا اور ایک عظیم سلطنت عطا فرمائی۔
بعینہ ہمارے لیے مثال ہے۔ علمائے دیوبند جن کے سرخیل تھے حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا گنگوہی اور دیگر زعمائے عظام۔ ان لوگوں نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی۔ اس وقت انگریز حکومت جہاں سے سورج طلوع ہوتا شروع ہوتا اور جہاں غروب کرتا، وہیں تک طویل تھی۔ بے حد ظلم کرتا، پھر بھی علمائے دیوبند نے اس کے مقابلے میں قدم رکھا۔ اس قدم میں ہزارہا مصیبتیں آئیں اور یہ جنگ ستر سال جاری رہی۔ آخر وہی برطانیہ خاص علاقے میں جاکر سکڑگیا اور ملک چھوڑگیا۔ مدرسے لے لوگ تھے، علما تھے، اتنی بڑی طاقت سے مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ اب بھی وہی سلسلہ باقی ہے کہ دشمنوں سے مسلمانوں کو آزاد کرایاجائے۔ اس سلسلے میں جماعتیں کام کررہی ہیں؛ ہار نہیں مانی ہے۔ بشرطیکہ لالچ میں نہ آئیں بلکہ ان ہی کی طرح اللہ کے سہارے پر مقابلہ کریں۔ یہ سب طاقتیں مٹ جائیں گی اور آپ غالب آجائیں گے۔
اس کی چھوٹی سی مثال افغانستان ہے۔ایک چھوٹا ملک ہے۔ وسائل اس کے پاس نہیں ہے۔ بیس سال روس اور بیس سال امریکا کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ دنیا کہتی جائیں گے نہیں یہ امریکی؛ آخر ایسا ہوا کہ رات کو بھاگ گئے۔ اگر ہم اسی طرح کام کرتے رہے، تو جتنی ظالم اور باطل قوتیں ہیں وہ اسی طرح رات کو بھاگیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کردے گا۔
اب دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے ذہن کو صحیح کرے، ہمارے مقاصد کو صحیح کرے۔ ہم بجائے دنیا، دنیادار لوگوں اور چوھدریوں کودیکھنے کے اپنے اکابر کو دیکھیں کہ ان لوگوں نے کوئی دولت جمع نہیں کی لیکن اسلام کا نام بلند کیا۔ ہم بھی ان چیزوں کو چھوڑ کر اسلام کا نام بلند کریں۔ ساتھ دشمن سے لڑنے کے حوالے سے جہاں طاقت ہوتی ہے، حکمتِ عملی سے لڑیں۔ پھر اللہ تعالیٰ غالب کرتاہے۔
حمص کا شہر قیصر کے قبضے میں تھا۔ قیصر سے جنگ ہوئی صحابہ کی۔ وہ شہر چھوڑ گیا۔ چھوڑنے کے بعد پھر اس نے ساڑھے تین لاکھ فوج جمع کرکے دوبارہ حمص پر حملے کا ارادہ کیا۔ اس وقت اسلامی فوج کے سربراہ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ تھے۔ انہوں نے خط لکھا حضرت عمرؓ کو۔ صورتحال بتادی اور اطلاع دی کہ میرے پاس چالیس ہزار مجاہد ہیں۔ میں نے سوچا اگر ہم حمص میں رہے اور دشمن نے ہمیں محاصرہ کرلیا، پھر ہم پھنس جائیں گے۔ لہذا ہم نے شہر چھوڑدیا۔ تاکہ ایک جانب رہے ہمارا مقابلہ؛ ہر جانب سے مقابلہ نہ ہو۔ اب وہ بڑھ رہے ہیں اور ہم حمص کے باہر ہیں۔ آپ مشورہ دیں ہم کیا کریں؟ چالیس ہزار کو ساڑھے تین لاکھ کے مقابلے میں لڑادوں تو ہوسکتاہے سارے مجاہد شہید ہوجائیں اور ہم مغلوب ہوجائیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو پیچھے ہٹتے ہیں اور تیاری کرکے پھر آتے ہیں، اگر لڑائی کا حکم دیں تو لڑیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے جواب لکھا کہ شہر چھوڑنا نہیں تھا۔ اب چھوڑدیا ہے تو زمینی حالات آپ کے پاس ہیں۔ لیکن یہ فکر نہ کریں کہ چالیس ہزار فوج ساری تباہ ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ کی طرف سے پیش گوئی آئی ہے کہ فتح تمہاری ہوگی۔ اس لیے جتنے لاکھ ہیں، پھر بھی آپ لڑیں۔ اللہ کامیاب کرے گا۔
حضرت ابوعبیدہؓ فوج کا سربراہ اور چیف سٹاف تھے۔ حضرت عمر ؓ کے حکم سے ان کے کیمپ کی تلاشی ہوئی۔ تو کیمپ میں ایک لوٹا، ایک مسواک، تھوڑی کپڑے کی تھیلی؛ تھیلی کھولی تو اس میں خشک روٹیاں تھیں۔ پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ فرمایا ان روٹیوں سے روزہ رکھتاہوں۔ یہی سب کچھ ہے، کچھ اور نہیں۔ خشک روٹی کھاکر چالیس ہزار نے ساڑھے تین لاکھ کو شکست دی۔ ان کو ایسا بھگایا کہ قسطنطنیہ جاکر آرام کیا۔ یہ ہے ایمان اور ایمانی توکل۔
طالبان نے بھی خشک روٹیاں کھائیں اور دشمن سے لڑکر غالب ہوئے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں میں گیا لال قلعہ جس کو شاہ جہان نے بنایا تھا دہلی میں۔ وہاں دیکھا انگریز کا جھنڈا لگاہوا تھا۔ مجھے غیرت آگئی کہ یہ ہمارا قلعہ ہے اور انگریز کا جھنڈا اس پر لگا ہوا ہے۔ اس کے بعد میں نے سیاست میں قدم رکھا تاکہ انگریزوں کو دیس سے نکالوں۔
آج اگر ہم اسی جانب اور اسی طرز پر آئیں، تو دنیا مغلوب اور ہم غالب ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک فکر اور درد پیدا کردے اور ہمیں اسلام کے جاں نثار سپاہی بنادے۔