- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

قزاقستان میں روسی فوجی دستوں کی آمد: جھڑپوں میں 26 مظاہرین، 18 سکیورٹی اہلکار ہلاک

قزاقستان کی وزارت داخلہ کے مطابق مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں میں اضافے کے بعد شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاج میں سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں جمعے کی صبح تک 26 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں جن کو سرکاری طور پر ’مسلح مجرم‘ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ تین ہزار سے زیادہ کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ان جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے 18 اہلکار ہلاک اور 748 زخمی ہوئے ہیں۔
درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں امن و مان کی بحالی کے لیے صدر قاسم جومارت توکایف کی درخواست پر روسی فوجی دستے ملک میں پہنچ چکے ہیں۔
قزاقستان کے صدر نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے پیچھے غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں لیکن اب تک وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے قزاقستان کی حکومت اور مظاہرین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔

’روسی فوجی دستوں پر نظر ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو‘
قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے بدھ کے روز سرکاری ٹی وی پر خطاب کے دوران روس کی سربراہی میں بنائے جانے والے اتحاد سے مدد کی درخواست کی تھی جس میں روس کے علاوہ قزاقستان، بیلاروس، تاجکستان اور آرمینیا شامل ہیں۔
اس کے بعد ’سی ایس ٹی او‘ نامی اتحاد کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ قزاقستان کی درخواست پر فوجی دستے بھجوائے جا رہے ہیں جو اب وہاں پہنچ چکے ہیں۔
سی ایس ٹی او اتحاد کی جانب سے بھیجے جانے والے فوجی دستوں کی تعداد تقریبا 2500 بتائی جا رہی ہے اور اتحاد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ دستے امن قائم کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں جو صرف ریاستی اور عسکری عمارتوں کی حفاظت کریں گے۔ روسی خبر رساں ادارے آر آئی اے کے مطابق یہ دستے ہفتوں تک ملک میں قیام کر سکتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ روسی دستوں کی قزاقستان آمد پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ ایک ترجمان کی جانب سے کہا گہا ہے کہ ’امریکہ اور پوری دنیا دیکھ رہے ہیں کہ کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہو گی۔‘

’سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلا دیں‘
ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تیل کے ذخائر سے مالا مال ملک نے مائع پیٹرولیم گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے صارفین کو مہنگا ایندھن خریدنا پڑ رہا ہے۔ قزاقستان میں بہت سے افراد اپنی گاڑیوں میں ایندھن کے لیے مائع پیٹرولیم گیس کا استعمال کرتے ہیں۔
ان مظاہروں کا آغاز گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سے صرف ایک علاقے سے ہوا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان مظاہروں میں شدت آتی گئی اور رواں ہفتے منگل تک ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں مظاہرین کے بڑے بڑے ہجوم پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کرتے دکھائی دینے لگے۔
بدھ تک قزاقستان کے بیشتر حصوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر اپنے مظاہرے اور احتجاج جاری رکھے۔
قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے حکومت پر بدامنی کی اجازت دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے برطرف کر دیا اور تیل کی قیمتوں کو کم قیمت پر لانے کا بھی اعلان کیا تاکہ ’ملک میں امن و امان اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
لیکن اس کے باوجود بد امنی بڑھتی گئی۔ مظاہرین نے الماتی کے میئر دفتر پر دھاوا بولتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔
یہ مظاہرے اس وقت مزید پرتشدد ہو گئے جب پولیس نے قزاقستان کے مرکزی شہری اور سابق دارالحکومت الماتی میں مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس اور سٹن گرنیڈز کا استعمال کیا۔
ان پرتشدد جھڑپوں میں سینکڑوں مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس ترجمان نے کہا ہے کہ جب مظاہرین کی بڑی تعداد نے پولیس کی عمارتوں میں داخلے کی کوشش کی تو انھیں ’ختم کر دیا گیا۔‘
مظاہروں میں قریب 1000 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جبکہ ہسپتالوں میں 400 زیر علاج ہیں اور 62 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ قزاقستان کے محکمہ داخلہ کے مطابق 3000 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
58 سال کی ساول بھی ان مظاہروں میں شریک تھیں۔ انھوں نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ ’ہم نے لوگوں کو مرتے دیکھا۔ دس لوگ تو فورا ہی مر گئے تھے۔‘
ملک کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دینے کی اطلاعات ہیں۔

یہ مظاہرے غیر معمولی کیوں ہیں؟
تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال قزاقستان وسطی ایشیا کا ایک اہم اور بااثر ملک ہے اور یہ خطے کے 60 فیصد جی ڈی پی کا ذمہ دار بھی ہے۔ اسے اکثر آمرانہ ریاست کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا نواں بڑا ملک ہے لیکن اس کی آبادی 18.8 ملین افراد کے ساتھ نسبتاً کم ہے۔
قزاقستان سنہ 1991 میں سویت یونین کے خاتمے کے دوران آزاد ہوا تھا۔ بہت برسوں تک وہاں 1984 میں سویت دور میں ملک کے پہلے وزیر اعظم بننے والے نور سلطان ناذربیاف کی حکومت رہی۔
بعدازاں وہ بلا مقابلہ ملک کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کے دور اقتدار میں ان کی شخصیت کی چھاپ رہی اور ملک بھر میں ان کے مجسمے لگائے گئے اور ملک کے نئے دارالحکومت کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا۔
بلآخر سنہ 2019 میں حکومت مخالف احتجاج کے پیش نظر نورسلطان اقتدار سے ہٹ گئے۔ انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ قزاقستان کے صدر جومارت توکایف ان کی منتخب کردہ جانشین ہے جو ایک متنازع انتخاب کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالیں ہوئے ہیں۔ اس انتخاب پر بین الاقوامی مبصرین کو بھی تحفظات تھے اور انھوں نے اس پر تنقید بھی کی تھی۔
اقتدار میں نہ رہنے کے باوجود بھی نور سلطان اب بھی ملکی سیاست میں بہت بااثر ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ مظاہروں کا بنیادی مقصد ان کے خلاف ہے۔
ان کی مستعفی ہونے کی تقریباً تین برس بعد بھی قزاقستان میں بہت کم تبدیلی آئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد اصلاحات نہ ہونے، معیار زندگی کم ہونے اور محدود شہری آزادی حاصل ہونے پر سخت خائف ہے۔
رائل انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افییرز جسے چاٹم ہاؤس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی کیٹ مالینسن نے بی بی سی رشیئن کو بتایا کہ ‘ناذربیاف کا ایک طرح سے قزاقستان کی عوام کے ساتھ ایک سماجی معاہدہ ہے۔’
‘عوام حکومت کے ساتھ وفادار تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ لیکن سنہ 2015 سے یہ سب بگڑنے لگا اور وبا کے دوران گذشتہ دو برسوں میں اس میں مزید خرابی آئی اور قزاقستان میں مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی۔’
ملک کے زیادہ تر انتخاب ہمیشہ قزاقستان کی حکمران جماعت نے ہی جیتے ہیں اور انھیں عوام کے تقریباً 100 فیصد ووٹ پڑتے ہیں۔ ملک میں سیاسی حزب اختلاف کا کوئی خاطر خواہ وجود نہیں ہے۔
مائع گیس جو عموماً ایک سستا ایندھن ہے اور قزاقستان کی عوامی اور نجی ٹرانسپورٹ میں زیادہ تر وہ ہی استعمال ہوتا ہے کی قیمت بڑھنا تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
حکومت کو برطرف کیے جانے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیے جانے کے باوجود مظاہرین سڑکوں سے جانے کو تیار نہیں دکھائی دیتے ہیں۔
سنہ 2019 میں صدر ناذربیاف کے استعفے سے سبق سیکھتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت میں تبدیلی ہمیشہ مطلوبہ نتائج نہیں لاتی۔
اب سڑکوں اور ملک کے بڑے شہروں کے ان گنت چوراہوں پر وہ یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ‘حکام نے گذشتہ 30 برسوں میں ہمارے لیے کیا کیا ہے؟
قزاقستان کے جنوب مغرب میں منگسٹاؤ صوبے کا قصبہ زانوزین موجودہ بدامنی کے اہم مراکز میں سے ایک بن گیا۔
یہ شہر پہلے بھی بڑے مظاہروں کے دوران ایک اہم مرکز رہا ہے۔ سنہ 2011 میں بھی تیل ورکرز کی جانب سے تنخواہوں اور کام کرنے کے حالات پر احتجاج کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن میں کم از کم 14 تیل ورکرز مارے گئے تھے جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اب ایک مرتبہ دوبارہ یہ شہر ایک مظاہروں کا گڑھ بن گیا ہے اور یہاں مظاہرین نے اپنے پانچ بڑے مطالبات پیش کیے ہیں۔
• حکومت میں حقیقی تبدیلی
• مقامی گورنرز کا براہ راست انتخاب کے ذریعے چناؤ۔ (ابھی ملک کے صدر خطوں کے سربراہوں کی تقرری کرتے ہیں۔)
• سنہ 1993 کے آئین کی بحالی جو صدر کے اختیارات اور مدت اقتدار کو کا تعین اور محدود کرتا ہے۔
• سماجی کارکنوں اور مظاہرین کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
• موجود حکومت کے رشتہ داروں کے علاوہ عوامی نمائندوں کو اہم سرکاری عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
ان مظاہروں کے کوئی باقاعدہ اور واضح رہنما نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہائیوں قبل ہی ملک میں تمام طرح کی اختلاف رائے کو ابتدائی مراحل میں ہی ختم کر دیا گیا تھا اور قزاقستان میں انتخابی جمہوریت مؤثر طریقے سے موجود نہیں ہے۔
سینٹ پیٹرزبرگ یورپی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر سیاسیات گریگوری گولوسوف نے بی بی سی روس کو بتایا کہ سڑکوں پر آنے سے لوگوں کو اپنی بات سنانے کا ایک طریقہ مل گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘آمرانہ ریاست میں سڑکوں پر احتجاج عوام کی جانب سے غیر مقبول معاشی اقدامات کے خلاف ایک معمول کا ردعمل ہے۔’

آگے کیا ہو سکتا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟
قزاقستان میں تیزی سے بگڑتی اور پرتشدد ہوتی صورتحال میں مظاہرین نے سڑکوں سے ہٹنے پر انکار کر دیا ہے لیکن پولیس ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹ رہی۔
اب تک حکام اس بحران کو کسی بھاری کارروائی یا مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کے بغیر ہی حل کرنے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر توکایف بیک وقت اپنی اتھارٹی کو بھی منوا رہے ہیں اور عوام کے ساتھ نرم اور آزادانہ رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
گلوسو کہتے ہیں کہ ‘یہ پیش گوئی کرنا کہ یہ حربہ کامیاب ہو گا کافی مشکل ہے۔’
ایک اور سیاسیات کے ماہر الیگزینڈر بائینو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف نقطہ نظر پیش کیا۔
ان کی رائے میں ‘قزاقستان روایتی طور پر مغرب کا اتحادی نہیں ہے جس کے نتیجے میں مغربی رہنما ان واقعات کی تشریح ایک ظالم حکومت کے خلاف ایک جموری بغاوت’ کے طور پر کریں گے۔ ‘
مغربی حکمرانوں کے لیے یہ مشکل ہو گا کہ ان حالات میں وہ مظاہرین کی حمایت نہ کریں اور قازق حکام کے لیے بھی اس پر ردعمل دینا مشکل ہو گا۔ یہ مظاہرے بادی النظر میں قزاقستان کو روس کے قریب لے جائیں گے۔’
کیمرج یونیورسٹی میں ایک محقق ڈیانا کودائیبرگینوا کا کہنا ہے کہ اس اشارے ہیں کہ قازق حکام اس مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘اس بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ صدر چند مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تاکہ لوگوں کو یہ دکھایا جا سکے کہ ان کی آوازوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔’
اس کے ساتھ ساتھ گیس، تیل اور معدنیات برآمد کرنے والے ملک قازقستان کو اپنی توجہ سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی طرف بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام اس کو بچانے میں بہت اہم ہے۔’
اس کے ساتھ ہی، ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ سابق صدر نذر بائیف کے سائے میں رہنے سے تھک چکے ہیں اور حقیقی تبدیلی کے لیے لڑنے کو تیار ہیں۔
بے شک قزاقستان میں بدامنی خطے پر اثر ڈالے گی۔ روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ جلد ہی مذاکرات کے ذریعے قزاقستان میں حالات معمول پر آ جائیں گے۔ تاہم اس بیان پر یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ ‘قزاقستان کا اندرونی معاملہ ہے۔‘
تاہم بعص روس کے سرکاری میڈیا نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ مظاہرے ‘مغرب قوتوں‘ کے اکسانے پر ہوئے ہیں۔