- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مسلمانوں کی عزت اللہ کی اطاعت اور رسول اللہﷺ کی پیروی میں ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے جمعہ دس دسمبر دوہزار اکیس کو زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوری اور زوال کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے ’قرآن و سنت سے دوری‘، ’دنیاپرستی‘، ’خدا کی دھمکیوں کو نظرانداز کرنا‘ اور ’غیر اسلامی ثقافتوں کی تقلید‘ کو مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے اہم وجوہ میں شمار کیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سورت الانفال کی آیت نمبر 25 کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: قرآن اور احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کچھ فتنے ظاہر ہوجائیں گے جنہیں مسلمان سامنا کریں گے۔ آپﷺ نے امت کے زوال کی خبر سنائی ہے جس کی وجہ مسلمانوں کی اپنی ہی کمزوریاں، حب دنیا اور غیر اسلامی رسم و رواج اور ثقافتوں کی تقلید ہے۔
انہوں نے مزید کہا: جب مسلمان نفس و شیطان اور غیرمسلموں کی تقلید و پیروی کریں گے، وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے جائیں گے اور ان میں سستی آئے گی اور بالآخر وہ زوال کا شکار ہوجائیں گے۔ مسلمانوں نے نیک اخلاق اور درست عمل اور پرزور ایمان کی برکت سے دنیا پر فتح پائی؛ جب انہوں نے یہ صفات کھودیں، وہ شکست سے دوچار ہوئے۔ مسلمان اس وقت کامیاب ہوں گے جب وہ زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی اتباع کریں اور سنجیدگی سے اسلام پر عمل کریں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: سیرت النبی ﷺ سے دوری شکست اور نقصان ہی ہے۔ جب دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نہ ہو، وہ کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟افسوس کی بات ہے کہ آج کل مسلمانوں میں سستی آچکی ہے اور وہ اجانب کی تقلید میں شراب نوشی اور منشیات میں مبتلا ہیں اور اپنی شادی کی تقریبات میں ان کی پیروی کرتے ہیں۔ جس چیز کو اللہ تعالیٰ واضح لفظوں میں منع کیا ہے، کوئی مسلمان کیسے وہ کام کرسکتاہے؟ شراب ایک گندی اور پلید چیز ہے جس کے کاروبار اور استعمال سے سماج تباہ و برباد ہوتاہے۔
انہوں نے کہا: مسلمان کو چاہیے اپنی روزی اللہ سے مانگے اور حلال روزی کمائے۔ انسان کسی بھی راہ سے روزی کمانا چاہے، اسی راستے سے اس کو روزی مل جائے گی۔ پھر کیوں حرام کمائی کی طرف چلیں؟!
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: آفتوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر ہمیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی محنت کی ضرورت ہے۔ ابھی تک ہم غفلت کی نیند سورہے ہیں۔ مسلمان خشکسالی، زلزلہ، کورونا اور دیگر آفتوں کو دیکھ کر توبہ کے بجائے، ان سب کو قدرت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور رب الاسباب کو نہیں دیکھتے ہیں جن کے ہاتھ سب کچھ ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: ہم کیوں حاکم مطلق کو نہیں دیکھتے ہیں؟ جب اس کا ارادہ نہ ہو، آفات و اسباب ظاہر نہیں ہوسکتے۔ ہم کیوں قرآن و سنت کی رہ نمائیوں پر توجہ نہیں دیتے ہیں؟ آئے روز فساد اور قتل ناحق و ڈاکہ زنی کی خبریں کیوں آرہی ہیں؟ لوگ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں کیوں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ وفائے عہد اور دیانتداری کیوں کمزور ہورہی ہے؟
خطیب اہل سنت نے کہا: آج کا مسلمان دیگر قوموں کی طرف دیکھتاہے، حالانکہ ہم ایک قیمتی تہذیب اور دین کے وارث ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے فخر کے ساتھ نبی کریم ﷺ اور صحابہ و اہل بیتؓ کی پیروی کریں۔ مسلمان کیوں ایسے لوگوں کے پیچھے چلیں جو خدا سے دور ہیں اور تہذیبی غربت کا شکار ہیں؟ انہیں دوسروں کی تقلید کی کیا ضرورت ہے؟!

ویانا میں جوہری مذاکرات طرفین کے لیے موقع ہے
ممتاز سنی عالم دین نے زاہدان میں خطاب کے دوران ویانا میں جاری ایران اور عالمی طاقتوں کے جاری جوہری مذاکرات کو دونوں اطراف کے لیے ’موقع‘ یاد کرتے ہوئے ایرانی گروہ کو یاددہانی کی کہ مذاکرت میں سیرت النبی ﷺ سے استفادہ کرے۔
مولانا عبدالحمید نے بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایرانی عوام معاشی طورپر سخت پریشان ہیں۔ یک طرفہ ظالمانہ پابندیوں نے معزز شہریوں پر سخت دباؤ ڈالاہے اور وہ متعدد معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ سب چیزیں مہنگی ہوچکی ہیں اور عوام تنگ آچکے ہیں۔
انہوں نے ویانا میں جاری مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ایرانی مذاکراتی ٹیم کو میرا مشورہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی سیرت کو دیکھیں اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلیں۔ صلح حدیبیہ اور آپﷺ کی پوری زندگی ہمارے لیے مشعل راہ اور سبق آموز ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: مذاکرات میں کوشش کریں کہ نتیجہ دونوں طرف کے لیے جیت ہی جیت ہو؛ اگر کچھ دینا ہے، تو اس کے بدلے میں کچھ لے سکتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی قانون ہے اور آپﷺ کی سیرت بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے امید ظاہر کی کہ یہ مذاکرات شکست سے دوچار نہ ہوں اور دونوں اطراف اس موقع سے فائدہ اٹھائیں تاکہ ایرانی قوم پابندیوں اور معاشی تنگی سے نجات پائے۔ اللہ تعالیٰ زمینی اور آسمانی آفتوں کو ختم فرمائے۔

اگر موجودہ حکومت اہل سنت کے مسائل حل نہ کرسکے، بڑی مایوسی پیش آئے گی
اپنے بیان کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے اہل سنت ایران کے مسائل اور ان کے مطالبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امتیازی سلوک اہل سنت ایران کا مشترک درد ہے۔ گزشتہ 43 سالوں سے اب تک سنی برادری کو امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے نظرانداز کی جارہی ہے اور صوبائی و قومی سطح پر ان کے قابل افراد سے کام نہیں لیا جارہاہے۔
انہوں نے کہا: اہل سنت کو امید تھی کہ آیت اللہ رئیسی ان کی اس پریشانی کو دور کریں گے۔ ایران کے سنی شہری اس ملک کے اصلی باشندے ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور آٹھ سالہ جنگ میں حصہ لے کر قربانی دی ہے۔ انہیں اسلام اور اپنے ملک پر فخر ہے اور وہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل حل ہوجائیں۔
اصلاح پسندوں کے بعد حالیہ انتخابات میں قدامت پسندوں کو ووٹ دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے سنی رہ نما نے کہا: ایران کے اہل سنت ملک کے مختلف سیاسی گروہوں کو آزمارہے ہیں کہ کون ان کے مسائل حل کرسکتاہے۔ موجودہ حکومت میں تمام ادارے ایک ہی سیاسی سوچ کے قبضے میں آگئے ہیں، پھر بھی اگر اہل سنت کے مسائل حل نہ ہوں، بڑی مایوسی پیش آئے گی۔ فی الحال ہم مایوس نہیں ہیں اور ہمیں امید ہے صدر رئیسی اپنی بلند ہمت سے دیگر حکام کے ساتھ مل کر اس برادری کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کے مطالبات کو جامہ عمل پہنانے کی درخواست پر توجہ دیں گے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں ایران میں نرسوں کے ہفتے کو ملک کے نرسز کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا۔