- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بوقتِ مصیبت اسباب سے استفادہ، اللہ تعالیٰ پر توکل اور دعا پیغمبروں کی سنت ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں دنیا کی زندگی میں پیش آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کو ’امتحان الہی‘ یاد کرتے ہوئے بوقت مصیبت ’صبر‘، ’نماز‘، ’دعا‘، ’اسباب سے استفادہ‘اور ’اللہ پر توکل‘ کو ضروری قرار دیا جو انبیا علیہم السلام کی سنت ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے ستائیس اگست دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ کو قرآنی آیت: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ» [بقره: 153] کی تلاوت سے آغاز کرتے ہوئے کہا: دنیا آزمائش و امتحان کی جگہ ہے۔ کبھی خوشی کبھی ناخوشی، کبھی صحت کبھی بیماری، کبھی قحط کبھی خوشحالی؛ یہ سب حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور انسان کی تربیت کے لیے مفید ہیں۔ اللہ رب العزت اپنے بندوں کو آزماتاہے کہ خوشی کے وقت کیسا عمل کرتے ہیں اور سختی کے موقع پر ان کا رویہ کیسا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ کے مقرب بندے مصیبت کے وقت اتنے صابر تھے کہ درد کے بیان کو بھی ایک گونہ شکوہ سمجھتے تھے۔ ایک بار حضرت ابوبکرؓ کسی درد میں مبتلا ہوئے، لیکن آپؓ نے نبی کریمﷺ کو اس کی اطلاع نہ دی۔ جب آپﷺ نے اس کی وجہ پوچھی، تو صدیق اکبرؓ نے عرض کیا درد اللہ کی طرف سے ہے اور میں نے آپ کو اطلاع نہ دی کہ کہیں اللہ سے شکوہ نہ ہوجائے۔ حضرت مولانا عبدالعزیزؒ متعدد بیماریوں میں مبتلا تھے، جب کوئی ان کا حال پوچھتا،آپؒ پہلے الحمدللہ کہتے، پھر اپنی بیماری کے بارے میں اطلاع دیتے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی رحمت کی نوید سنائی ہے جو بلا، غربت، بیماری، عزیزوں کی موت سمیت دیگر مصائب کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیتے ہیں۔ لہذا بوقت مصیبت ہرچند پریشانی فطری ہے، لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے مواقع پر صبر سے کام لیں، خود کو اللہ کے حوالے کریں اور اس کے بارے میں نیک گمان رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی تعلیمات کے مطابق، مصائب و مشکلات کے موقع پر صبر، نماز اور توکل سے کام لینا چاہیے؛ اسباب کو اختیار کرنے کو توکل کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور طبیبوں کے پاس جاکر دوائی استعمال کرنا اور اسی کے ساتھ دعا کا اہتمام توکل کے خلاف نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اپنے مال، اولاد اور صحت کھودی، تو انہوں نے دعا (أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ) مانگی اور خدا کی طرف متوجہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، انہیں صحت عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں برکت ڈالی۔ لہذا اسباب اختیار کرنا اور ساتھ ہی دعا کا اہتمام انبیا علیہم السلام کی سنت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر رضامند ہوجائیں؛ اس عقیدے کی برکت سے سکون ملے گا اور اللہ کی رحمت نصیب ہوجائے گی۔ جب بندے دل کی گہرائیوں سے اللہ سے راضی ہوتے ہیں اور شکوہ نہیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کی بارش ان پر برساتاہے۔

نئی حکومت امتیازی پالیسیوں کی بیخ کنی اور داخلہ و خارجہ چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش کرے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تیرہویں حکومت کے باقاعدہ آغاز کے موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے امید ظاہر کی نئی حکومت معاشی مسائل حل کرنے اور امتیازی پالیسیوں کی بیخ کنی اور داخلہ و خارجہ چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش کرے۔
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: یہ خوشی کی بات ہے کہ نئی کابینہ کو پارلیمنٹ سے منظوری ملی ہے۔ ہمارا ملک غربت، معاشی مسائل، امتیازی سلوک اور متعدد داخلہ و خارجہ مسائل سے دوچار ہے جو حکمت و تدبیر کے بغیر ان کا حل ممکن نہیں ہے۔ امید کرتے ہیں نئی حکومت اس حوالے سے محنت کرکے ایرانی قوم کے سر پر موجود غیرضروری اخراجات اٹھائے۔
انہوں نے مزید کہا: نئی حکومت کو چاہیے اہلیت رکھنے والے مستعد افسروں اور بیوروکریٹس سے کام لے۔ امید کرتے ہیں مسٹر رئیسی آئین کی بعض شقوں میں ترمیم کرکے عوام کے لیے سہولت پیدا کریں جیسا کہ انہوں نے حلف اٹھانے کی تقریب میں وعدہ کیا۔
ممتاز سنی عالم دین نے چار عشروں سے زائد امتیازی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: نئی حکومت اپنی نگاہوں میں تبدیلی لائے۔سب قومیتوں اور مسالک کے قابل افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے اور علاقائی، صوبائی اور قومی سطح پر ان کی خدمات حاصل کرے۔ یہ قومی وحدت کی تقویت، عوام کی امیدیں واپس لانے اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے بہت ضروری اقدام ہوگا۔
انہوں نے رئیسی کی حکومت پر زور دیا کورونا کے مقابلے اور عوام کی صحت کو ترجیحی بنیادوں پر سامنے رکھ کریں ضروری اقدامات اٹھائے۔

کابل ایئرپورٹ کے دروازے پر دہشت گردانہ حملہ چونکا دینے والا تھا
ممتاز عالم دین نے جمعرات کو کابل ہوائی اڈے کی اطراف ہونے والے دہشت گردانہ حملے کو ’چونکا دینے والا‘ یاد کرتے ہوئے درجنوں افراد کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمیں امید ہے کہ اسلامی امارت افغانستان درست منصوبہ بندی اور قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کی وسعت ظرفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جامع حکومت افغان قوم کے لیے تشکیل دے جس سے وہ اپنے مستقبل کے لیے پرامید ہوجائیں، ہجرت کرنے والے واپس آجائیں اور اپنے ملک کی خوشحالی اور امن کے لیے محنت کریں۔
انہوں نے مزید کہا: افغانستان کئی عشروں سے جنگ و بدامنی سے نالاں ہے۔ لڑائی اور جنگ کا زمانہ گزرگیا ہے۔ افغان قوم کے مختلف برادریوں سے ہماری گزارش ہے کہ اب اس ملک میں مزید لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم افغانستان کے پڑوسی ہیں اور افغان قوم کی بھلائی کے لیے ہمیشہ یہاں دعا کرتے ہیں۔ کچھ عناصر افغانوں کو اشتعال دلاکر خانہ جنگی کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ افغانستان کے دشمن ہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے امارت اسلامیہ، افغان علمائے کرام اور دیگر تصمیم ساز شخصیات کو جو اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرنا چاہتے ہیں مشورہ دیا کہ اپنے فیصلوں میں نئی دنیا کے حالات اور ماڈرن دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ان فتووں پر عمل کریں جو سب سے زیادہ آسان ہوں اور عوام کے لیے سختی نہ ہو۔ نبی کریمﷺ کا طریقہ یہی تھا۔
انہوں نے کہا: اگر افغانستان میں اسلام صحیح معنوں درست انداز میں نافذ ہوجائے، دنیاوالوں کے پروپگینڈا اور تلقین کے برخلاف افغان قوم کا مستقبل روشن ہوگا اور یہ اقدام دیگر قوموں کے لیے مشعلِ راہ بن جائے گا۔

قیدیوں سے بدسلوکی اسلامی شریعت اور آئین کی خلاف ورزی ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں تہران کی مرکزی جیل ’اوین‘ کے سی سی ٹی وی فوٹیج کے لیک ہونے والی ویڈیوز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اوین جیل کے لیک ہونے والے مناظر میڈیا میں شائع ہورہے ہیں جو افسوسناک اور دکھ دینے والے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام اور آئین ایران کے مطابق قیدیوں اور اسیروں سے بدسلوکی اور انہیں مارنا پیٹنا منع ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ بلاجھجک قیدیوں کو ٹارچر کرتے ہیں۔ جو ان کا دل کرتاہے، کرگزرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلامی شرعی نقطہ نظر سے قیدی کے کچھ حقوق ہیں اور اسے احترام حاصل ہے۔ اگر کسی نے جرم کا ارتکاب کیا ہے، سزا کی تعیین قاضی اور عدالت پر ہے، جیل کے گارڈز اور کارکنوں کو اجازت نہیں ہے قیدیوں سے بدسلوکی کریں۔
انہوں نے ایسے اقدامات کو ملک اور اسلام کی بدنامی کے باعث یاد کرتے ہوئے قیدیوں سے بدسلوکی کرنے والوں کے ٹرائل اور سزا کا مطالبہ کیا۔