- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مبلغ و داعی ماسٹر محمد عامر (بلبیر سنگھ)کا انتقال

سوشل میڈیا پر وائرل خبر کے مطابق مبلغ و داعی ماسٹرمحمد عامر (بلبیر سنگھ ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس خبر کی سوشل میڈیا کے علاوہ کسی معتبر نیوز ایجنسی سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ سوشل میڈیا ذرائع کے مطابق حیدرآباد میں ’’۲۲؍ جولائی کو دوپہر میں پڑوسیوں نے اطلاع دی کہ دو روز سے انکا دروازہ نہیں کھلا تو اوپر چھت سے جاکر معلوم ہوا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہے‘‘۔
واضح رہے کہ ایودھیا میں۶ دسمبر ۱۹۹۲کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بلبیر سنگھ قبول اسلام کے بعد محمد عامر بن چکے تھے اور اپنے اس فعل کے کفار ہ کے طورپر ملک بھر میں ۱۰۰ مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا تھا تقریباً ۹۰کے قریب وہ مساجد تعمیربھی کراچکے تھے۔
محمد عامر بابری مسجد کی شہادت کے بعد اپنے ضمیرکے قیدی بن گئے اور دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ سے معافی مانگ لی۔
ان کا تعلق ہریانہ کے پانی پت کے ایک گاؤں سے رہا ہے بعد میں ان کے اہل خانہ نے ہجرت کرکے شہر کا رُخ کیا اور روہتک یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ممبئی سے قریب مالیگاؤں بود باش اختیار کرلی تھی وہ بچپن سے آرایس ایس کی مقامی شاخ سے وابستہ رہے اور پھر شیوسینا میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
بلبیر سنگھ کے والد دولت رام گاندھیائی نظریات کے حامل تھے اور تقسیم ملک کے دوران مسلمانوں کی ہرطرح سے مدد کی تھی اور ان کے والدین نے دونوں بھائیوں کو بھی بہتری کے کام کے لیے نصیحت کی تھی کہ ان نقش قدم پر چلیں۔
محمد عامر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’بابری مسجد پر ہتھوڑا چلانے کے ساتھ ہی میرے اندربے چینی بڑھ گئی، لیکن مسلمانوں کے بارے میں دل ودماغ میں بھری نفرت نے مسجد پر مزید وار کرنے پر اکسایا اور اس درمیان طبیعت مزید بگڑی اور دوستوں نے مسجد کی شہادت کے بعد پانی پت منتقل کیا جہاں وہ دواینٹ بھی ساتھ لے گئے جوکہ ابھی شیوسینا کے مقامی دفترمیں رکھی ہے۔
والد نے گھر کا دروازہ بند کردیا کہ ایک استاد کے بیٹے نے ایک غلط کام میں حصہ لیا۔ شہر میں استقبال ہوا، لیکن دل کو چین نہیں تھا، ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا تو جانچ کے بعد ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ تم دوتین مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہو گے، جبکہ میرا ساتھی یوگیندرپال جو شہادت میں شامل تھا، پاگل ہوگیا اور اپنے گھر کی عورتوں کو دیکھ کر کپڑے پھاڑنے لگا، دنیوی اور روحانی علاج سے کوئی فرق نہیں پڑا تب معروف داعی مولانا کلیم صدیقی سے رابطہ کیا اور انہوں نے مشورہ دیا کہ مسجد کو مسمار کرنے کے گناہ کے لیے اللہ سے معافی مانگ لی جائے تب میں اپنے والد کے ساتھ مقامی مسجد کے سامنے کھڑے رہ کر توبہ کرلی اور پھر طبیعت سنبھل گئی اور ۱۹۹۳ میں والد سمیت بلبیر سنگھ سے محمد عامر بن گیا‘‘۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد عامر کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ۲۷ دیگر کارسیکوں نے بھی دامن اسلام میں پناہ لی تھی۔