- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

آنے والے صدرِ مملکت ’مختلف ملکوں سے اچھے تعلقات‘ اور ’درست داخلی منصوبہ بندی‘ سے معاشی مسائل حل کرسکتے ہیں

ممتاز سنی عالم دین نے ایران کے صدارتی انتخابات سے ایک ہفتہ قبل ’معیشت‘ کو موجودہ صدارتی الیکشن کے امیدواروں کی سب سے بڑی تشویش یاد کرتے ہوئے اس بحران پر قابو پانے کے لیے ’مختلف ملکوں سے تعلقات بہتر کرنے‘ اور ’درست داخلی منصوبہ بندی‘ پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے گیارہ جون دوہزار اکیس کو زاہدان میں نمازِ جمعہ سے قبل ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: صدارتی الیکشن کے امیدواروں کی سب سے بڑی تشویش ’معیشت‘ کے بارے میں ہے اور اس بحران کے حل کے لیے وہ اپنی آرا اور تجاویز پیش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا: معاشی مسائل کے حل میں سب سے زیادہ موثر اور اہم نکتہ داخلہ و خارجہ پالیسیاں ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں کہ تعلقات کے بغیر زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ آنے والی حکومت کے پاس اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ وہ ملک کے تعلقات پڑوسیوں اور دیگر ملکوں سے بہتر کردے اور ٹینشن ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
خطیب اہل سنت نے مزید کہا: ہمارے ملک کی ڈپلومیسی ایک پرزور ڈپلومیسی ہونی چاہیے تاکہ دیگر ملکوں کو بھی اعتماد میں لیں اور مسلم اور غیرمسلم ممالک سے اچھے تعلقات بنائیں۔

معاشی مسائل کے بارے میں اکیڈمک ماہرین کے علاوہ، علوم اسلامیہ کے ماہرین کی آرا سے بھی استفادہ کریں
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ’درست داخلی منصوبہ بندی‘ کو معاشی مسائل کے حل میں مفید اور ضروری قرار دیا۔
انہوں نے کہا: دیگر ملکوں سے اچھے تعلقات بنانے کے علاوہ، داخلی سطح پر بھی درست منصوبہ بندی بہت ضروری اور اہم ہے۔ اس سلسلے میں ماہرینِ معیشت کی آرا سے استفادہ بہت ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا: میرے خیال میں معیشت کے مسئلے میں اکیڈمک ماہرین کے ساتھ ساتھ، قرآنی ماہرین اور علوم اسلامیہ میں مہارت رکھنے والی شخصیات کے افکار سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بندہ نے بارہا کہاہے کہ ’مزاحمتی معیشت‘ کے موضوع میں کیوں ہم انبیا علیہم السلام کے طریقوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں؟!
صدر دارالعلوم زاہدان نے سوال اٹھایا: ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے معاشی پروگراموں سے استفادہ نہیں کرتے ہیں جنہوں نے مصر کو ایک معاشی بحران سے بچایا؟ جب نبی کریم ﷺ اور دیگر صحابہؓ مدینہ منورہ آئے اور یہ شہر مہاجرین سے بھرگیا، مدینہ میں کھجور کے محدود باغات کے علاوہ کوئی معاشی سرگرمی نہیں تھی، لیکن آپﷺ نے اس مشکل کو حل فرمایا۔ کیوں رسول اللہ ﷺ کے ان پروگراموں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہاہے؟ اس حوالے سے ہم قرآن کریم کے ارشادات سے کیوں غافل ہیں؟
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: آنے والے صدرِ مملکت اگر کوئی مرکز بنائے جس میں ماہرین اکٹھے ہوکر سوچیں اور اجتماعی فکر سے کام لیں، مختلف ماہرین کی آرا کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں، معاشی مسائل ان شااللہ حل ہوجائیں گے۔
خطیب اہل سنت نے صدارتی اور بلدیاتی انتخابات میں شرکت پر زور دیتے ہوئے کہا: اس انتخابات میں کوشش کرتے ہیں سب سے زیادہ صلاحیت رکھنے والے فرد کو چن لیں گے جو اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے مسائل اور کمزوریوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

انتخابات میں اتحاد معاشرے کی ترقی اور سمجھداری کی علامت ہے
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے سیاسی مسائل میں ’اتحاد‘ کو منطق پسندی اور معاشرے کی ترقی کی نشانی یاد کرتے ہوئے کہا: اتحاد بنانا دنیا میں ایک رائج، پسندیدہ اور موثر طریقہ ہے۔ کسی بھی سماج میں جب کچھ لوگ اتحاد بناتے ہیں اور کچھ امیدوار سب کے مفاد کی خاطر کنارہ کش ہوجاتے ہیں، یہ اس معاشرے کی منطق پسندی اور ترقی کی نشانی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر زاہدان کے معزز شہری جن کا تعلق مختلف قومیتوں اور مسالک سے ہے اور بھائی چارہ کے ساتھ پرامن زندگی گزار رہے ہیں، ایک ایسے اتحادی بلاک بنائیں، اس کے مثبت اثرات بہت زیادہ دیرپا ہوں گے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: لگتاہے صوبہ سیستان بلوچستان کے لوگ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جب تک اپنی صفوں میں اتحاد نہیں لائیں گے، وہ اپنے صوبے کو خوشحال نہیں بناسکتے ہیں۔ اسی طرح ملک کی سطح پر اگر لوگ متحد نہیں ہوں گے، وہ اپنے ملک کو خوشحال نہیں بناسکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سب ایرانی شہری ایک ہی شخص کو ووٹ دیں جو ملک کو بہتر چلانے کی صلاحیت رکھتاہو۔
انہوں نے آخر میں کہا: لوگ اپنے انتخاب میں آزاد ہیں، لیکن ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سب سے زیادہ باصلاحیت اور لایق امیدوار کو ووٹ دیں۔ امید ہے آنے والے انتخابات میں جو کچھ ملک و ملت کے مفاد میں ہے، وہی نتیجہ سامنے آجائے۔