- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

نماز اور زکات نفس کی اصلاح کے لیے موثر ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے شعبان اور رمضان کی آمداور ان مہینوں کے روحانی اعمال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نماز پڑھنے اور زکات ادا کرنے کی اہمیت واضح کردی جن سے نفس کی اصلاح ہوجاتی ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بارہ مارچ دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں ایرانی بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے کہا: رمضان کا مقدس مہینہ سامنے ہے اور شعبان اس سے پہلے پہنچنے والا ہے۔ تزکیہ و اصلاح کے یہی مہینے ہیں۔ ہم سب کو اپنے نفس کی اصلاح کے لیے سوچنا چاہیے کہ ہم کیسے تزکیہ حاصل کرسکتے ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: روزہ ان مہینوں کا سب سے اہم عمل اور عبادت ہے۔ نبی کریمﷺ رمضان کے علاوہ جتنا شعبان میں روزہ رکھتے تھے، اتنا کسی اور مہینے میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: ایک دوسری عبادت جو انسان کی اصلاح میں بڑا موثر ہے، اللہ کی راہ میں زکات اور صدقہ دینا ہے۔ جب تک ہم صدقہ نہیں دیں گے، ہمارا شمار متقی لوگوں میں نہیں ہوگا۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض امیر اور مالدار لوگ اللہ کی راہ میں کوئی پیسہ خرچ نہیں کرتے ہیں، غریبوں، نادار اور قیدیوں کے اہل خانہ کی مدد نہیں کرتے ہیں۔
محتاج لوگوں کی مالی مدد پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر بڑا ثواب ملتاہے۔ زکات نہ دینا بہت خطرناک اور بھیانک اقدام ہے۔ ایسی دولت انسان کے خلاف قیامت کے دن وبال ثابت ہوجائے گی۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: اپنے نفس پر قابو پاکر اسے کنٹرول کریں۔ سب سے زیادہ طاقتور شخص وہی ہے جو اپنے نفس پر قابو پاتاہے۔ فاتح وہ نہیں ہے جو فوجیوں کو شکست دے کر زمینیں فتح کرتاہے، اصل فاتح اور ہیرو وہی ہے جو اپنے نفس کو کنٹرول کرکے اسے اللہ کی اطاعت پر مجبور کرتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: نفس پر قابو پانا زکات اور صدقہ دینے اور نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے بغیر ممکن نہیں۔ کس قدر افسوسناک ہے کہ بہت سارے لوگوں کے پاس علم، دولت اور صحت کی نعمتیں موجود ہیں، لیکن ان کے علم، صحت اور دولت و قدرت سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: ہم سب کو دوسروں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنا چاہیے اور دیگر لوگوں بلکہ جانوروں کو فائدہ پہنچانا چاہیے۔ حدیث شریف میں آیاہے جو انسان اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتاہے، اللہ اس پر رحم نہیں کرتاہے اور جو اللہ کی مخلوق پر رحم کرتاہے، اللہ کی رحمت اسے مل جاتی ہے۔ ایسے لوگ اللہ کو پسند ہیں جو دوسروں کے مفادات کی پرواہ کرتے ہیں اور جب انہیں کوئی ضرورت پیش آتی ہے، ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔

بین الافغانی مذاکرات میں فریقین فراخدلی، خیرخواہی اور عفو سے کام لیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوسرے حصے میں افغان امن مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ پرامن افغانستان کی خاطر فراخدلی، عفو اور جذبہ خیرخواہی کا مظاہرہ کریں۔
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ برادر ملک افغانستان کئی سالوں سے خانہ جنگی، لڑائیوں اور بعض سپر پاورز کی قبضہ گیریوں کی آگ میں جل رہاہے۔
انہوں نے امن کی کرن آشکار ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اب جب امن کی امید نظر آرہی ہے، افغان حکومت اور طالبان سمیت جو ان مذاکرت کے دو فریق ہیں، سب کو جان لینا چاہیے کہ مصالحت کے بغیر قیامِ امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: یہ افغانستان کے نیک اور شریف لوگوں کا حق ہے کہ وہ امن اور آرام کی زندگی گزاریں اور ایک دوسرے سے مل کر اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے محنت کریں۔ لہذا مذاکرات کے دونوں فریق فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ حکام اپنی چوکیوں اور سیٹوں سے گزریں، مدمقابل گروہ بھی بعض مواقف سے دستبردار ہوجائے، ورنہ اس ملک میں امن قائم نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا: امید ہے افغانستان کے فریقین دوراندیشی، فراخدلی، سمجھداری اور خیرخواہی کا مظاہرہ کریں تاکہ اس عزیز ملک میں آرامش اور امن قائم ہوجائے۔

یمنی لوگ لڑائی کے بجائے، مذاکرہ اور جامع حکومت بنانے کے لیے سوچیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں یمن کی جاری خانہ جنگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یمن یمنی لوگوں کا ہی ملک ہے، کسی اور کا نہیں۔ افسوس ہے کہ اس ملک کے حالات بہت خراب ہیں اور چھوٹے بڑے سب بھوک سے دوچار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جنگ، لڑائی اور بمباری سے صرف یمنی لوگوں کا نقصان ہوا ہے۔ اہل یمن لڑائی جھگڑے کے بجائے اکٹھے بیٹھیں اور مذاکرات کرکے ایک جامع حکومت بنائیں جس میں سب کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہو۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مسلم ممالک کے اختلافات کو ان کے اختلافات اور دوریوں کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: مسلم ممالک کے باہمی اختلافات نے ان ملکوں کے لیے بہت بڑے اور خطرناک نتائج پیدا کیے ہیں اور اس سے دشمنوں کو گھسنے اور مداخلت کرنے کا موقع ملا ہے جو مسلمانوں کے اختلافات سے اپنے مفادات یقینی بناتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں مسلم ممالک کو متحد رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا: اتحاد کی صورت میں مشرق وسطی پرامن ہوسکتاہے۔ مصالحت، استحکام، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور جامع حکومتوں کی تشکیل سے قیامِ امن کا امکان موجود ہے۔