- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیزؒ؛ کچھ یادیں (آخری قسط)

تواضع
حضرت مولاناعبدالعزیز رحمہ اللہ کی اچھی صفات میں ایک صفت ان کی تواضع تھی۔ آپؒ انتہائی سادگی اور تواضع سے چلتے تھے اور کاروانِ عبادالرحمن کے شہسوار تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں کے دلوں میں مقبول و محبوب بنایا تھا۔
ایک دن میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؒ کسی سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ بندہ ایسی محفلوں میں شرکت سے گریزاں ہے۔ فرمایا: ہم کسی جگہ ناچنے کے لیے جارہے ہیں، ہمارے ساتھ آؤگے؟ عرض کیا: آپ جہاں تشریف لے جائیں، آپ کی ہم رکابی و معیت مجھے پسند ہے۔ چلنے کے وقت، دیگر احباب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ آپؒ اپنی ذاتی گاڑی میں سوار ہونے جارہے تھے اور میری بھی خواہش تھی ان ہی کی گاڑی میں سوار ہوجاؤں، چناچہ میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جب مولاناؒ آئے، تو انہوں نے اگلی سیٹ چھوڑ کر میرے ہی ساتھ بیٹھ گئے۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ آپ آگے بیٹھیں، لیکن آپؒ نے نہیں مانا اور فرمایا دل کرتاہے تمہارے ساتھ بیٹھوں۔ شرم کی وجہ سے اتنا پسینہ نکلا کہ میرے کپڑے گیلے ہوگئے۔

بہادری
تواضع کے ساتھ ساتھ، مولانا عبدالعزیزؒ انتہائی بہادر اور نڈر بھی تھے۔ آپؒ نے اپنے ایک سفرِ حج کی روداد سناتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ایک مرتبہ حج ادا کرنے کے بعد میں براستہ عراق وطن واپس ہوا۔ اس سفر میں کوئی میرے ساتھ نہیں تھا۔ میں نے عراق کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور وہاں موجود ائمہ کرام اور اولیائے عظام کی قبروں پر بھی حاضر ہوا، اہل تشیع کے مختلف مذہبی مراکز، مساجد اور مدارس کا دورہ کیا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی۔
میں نے عرض کیا کہ اس پرمشقت اور خطرناک سفر میں کبھی خطرہ محسوس نہیں کیا؟ فرمایا: نہیں، ہرگز ایسا کوئی اندیشہ ذہن میں نہیں آیا۔
انقلاب کے ابتدائی سالوں میں ایک مرتبہ اعلی صوبائی حکام نے کسی ان کیمرہ خصوصی نشست کا انتظام کیا جس میں مولانا عبدالعزیزؒ بھی مدعو تھے۔ مولانا عبدالحمید حفظہ اللہ بھی ان کے ساتھ گئے تھے۔ اس میٹنگ میں صوبائی پولیس سربراہ نے کہا تھا کہ علما (اس کا اشارہ سنی علمائے کرام کی طرف تھا) نے انقلاب کے لیے کچھ نہیں کیاہے۔ حضرت مولانا ؒ نے بڑی بہادری سے فرمایا: جی، علما نے انقلاب کے لیے کچھ نہیں کیا؛ سب سرگرمیاں پولیس تک محدود تھیں، لیکن پولیس کا کام یہ تھا کہ جس راستے پر شرپسند عناصر آتے، وہ اس راستے کو چھوڑکر کسی اور راستے کو بند کردیتی!
مولانا عبدالحمید نے کہا: اس ردعمل پر پولیس سربراہ مسٹر نجفی کو اتنا غصہ آیا کہ وہ کانپنے لگا اور آپے سے باہر آکر اس نے علما کے خلاف بہت بکواس کیا اور جلسہ ناکام قبل ازوقت ختم ہوا۔ سب باہر نکلے۔ پھر جب علما کو اس واقعے کی اطلاع ملی، علما نے اعلی حکام کو خط لکھا اور اس افسر کی برطرفی کا مطالبہ پیش کیا اور اڑتالیس گھنٹوں کی مہلت دے کر ایک خط میں لکھا کہ اس کے بعد کے واقعات کی ذمہ داری ہم قبول نہیں کریں گے۔ لیکن چند گھنٹوں کے اندراندر اس گستاخ شخص نے مولانا عبدالعزیزؒ کے گھر پر حاضر ہوکر معافی مانگی اور علما کی شکایت کے باوجود انہیں تسلی دے کر فرمایا: ہم لوگوں سے چاہتے ہیں اللہ کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں، اگر ہم اس کو معاف نہ کریں، پھر لوگوں سے کیسے توقع رکھیں!

استغنا
مولانا عبدالعزیز ؒ استغنا پر یقین رکھتے تھے اور کرامت نفس کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ جب علما دنیا کی آلائشوں سے بچ کر رہتے ہیں، تب عوام کے دلوں میں انہیں عزت ملتی ہے۔ لوگوں کی عقیدت اور افادہ و استفادہ کا دارومدار اسی موضوع پر ہے۔ کسی دن مجھ سے فرمایا کہ میں عدلیہ کا باقاعدہ رکن ہوں اور حکومت کی طرف سے مجھے مشن دیاگیا ہے، لیکن میں اس عہدے کو لینے کے لیے ان کے پاس نہیں گیا ہوں۔ آپؒ ہمیشہ لوگوں کے اختلافات حل کرنے میں پیش پیش تھے، لیکن انہیں یہ پسند نہیں تھا کہ حکومت کی طرف سے انہیں جج مقرر کیا جائے۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ عام طورپر عوام حکومتوں سے ناراض رہتے ہیں الا ماشااللہ۔ نیز، جو شخص جتنا حکومتی اداروں سے قریب رہتاہے، اتنا ہی اس کی روحانیت اور مذہبی قیادت کمزور پڑجاتی ہے۔
انقلاب کے بعد حکومت کی طرف سے سب علما جنہوں نے انقلاب میں حصہ لیا تھا، انہیں ایک خطر رقم دی گئی، مولاناؒ کو بھی یہ رقم دی گئی، لیکن آپؒ نے ہرگز اس سے استفادہ نہیں کیا اور اسے غریبوں اور مستحقین میں بانٹ دیا۔

جدید آلات سے دین کی تبلیغ
جس دور میں علما کی کمی تھی اور کوئی وعظ کرنے والا عالم دین نہیں ملتا، حضرت مولانا عبدالعزیزؒ انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ عوام کی دینی رہنمائی فرماتے تھے، خاص طورپر ریڈیو زاہدان کے ذریعے سے۔ یہ 1962ء کی بات ہے جب میں چھوٹا بچہ تھا۔ ہمارا گھر گوہرکوہ نامی گاؤں میں تھا۔ گاؤں کے باسی عصر کی نماز کے بعد ایک گھر کے سایہ میں اکٹھے ہوتے اور مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ کی باتیں ریڈیو سے سنتے تھے۔ پورے گاؤں میں یہی ایک ریڈیو موجود تھا۔ تقریبا آٹھ سال بعد جب میں چند اور ایرانی طلبہ کے ساتھ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یارخان کی تحصیل خانپور میں واقع ظاہرپیر بستی میں سبق پڑھتے تھے، ہمارا کوئی ریڈیو نہیں تھا۔ مدرسہ کے قریب چائے کا ایک کیفے تھا جس میں ریڈیو کا ایک سیٹ تھا۔ ہم سب حضرت مولاناؒ کی تقاریر سننے کے لیے اس ہوٹل کا رخ کرتے اور بہت سارے طلبہ ان کی آواز سن کر آبدیدہ ہوتے۔
صوبہ گلستان کے جامعہ فاروقیہ گالیکش کے مہتمم مولانا محمدحسین گورگیج نے مجھے بتایا کہ سوویت یونین ختم ہونے کے بعد میں ترکمنستان گیا۔ وہاں ماری (مرو) شہر کے آس پاس بہت سارے بلوچ باشندے رہتے تھے جن کا تعلق مختلف قبائل سے تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ سوویت یونین کے دور میں وہ خفیہ طورپر ریڈیو زاہدان سنتے اور حضرت مولانا عبدالعزیزؒ کی تقاریر اور مواعظ سے استفادہ کرتے تھے۔

آخری بات
مولانا عبدالعزیزؒ علمی لحاظ سے بہت پختہ تھے۔ اپنی گفتگو میں ہمیشہ قرآنی آیات، احادیث، حکایات اور برمحل اشعار سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ علم سے زیادہ ان کی عقل کامل تھی۔ اسی لیے وہ بخوبی جانتے تھے کیسے اپنے علم سے فائدہ اٹھائے اور ان کے معتقدین بخوبی ان سے استفادہ کرتے تھے۔ اسی لیے وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے دوچار نہیں ہوئے اور دوسروں کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دیتے تھے۔
خوشا آنان کہ باعزت ز گیتی / بساط خویش برچیدند و رفتند
ز کالاہائے این آشفتہ بازار / محبت را پسندیدند و رفتند
نگردید ہرگز گرد باطل / حقیقت را پسندیدند و رفتند
ز تقویٰ جامہ بر تن کن کہ پاکان / ز تقویٰ جامہ پوشیدند و رفتند