- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ارطغرل غازی… روشن تاریخ کا ایک ورق!

ترکی سے محبت میرے جینز میں، میرے خون میں شامل ہے۔ میں بہت چھوٹا تھا جب میرے دادا خلافت عثمانیہ کی باتیں کہانی قصوں کے انداز میں سنایا کرتے تھے، تا کہ ہم بچوں کو از بر یاد ہوجائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے تب سے ترکی اور اس کی خلافت کا نام آتے ہی دل میں محبت اور عقیدت کے جذبات امڈ آتے ہیں اور پھر میں اپنی تسکین کے لیے تاریخ کے صفحات پر موجود ترکی، خلافتِ عثمانیہ اور سلاطین عثمانیہ کے احوال و واقعات پڑھنے لگتا ہوں۔ یوں دل بہل جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کیا ہے؟ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ جاننے سے پہلے ہمیں ترک قوم کے بارے میں مختصراً جاننا ہوگا۔
”ترک“ بہادر، نڈر، جنگجو، عظیم اور فاتح قوم شمار ہوتی ہے۔ ”ترک“ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے ”یافث“ کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت نوح کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام اور یافث۔ یافث کے ایک بیٹے کا نام ”ترک“ تھا۔ ترک کی اولاد جب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، چین اور ترکستان و غیرہ کے مختلف علاقوں میں پھیلی تو اپنی اولاد اور قوم کے متحد رکھنے، امن و امان قائم کرنے اور انتشار سے بچنے کے لیے ضروری ٹھہرا کہ کوئی سردار مقرر کیا جائے، چنانچہ صلاح مشورے کے بعد ”ترک“ کو بالاتفاق سردار اور بڑا منتخب کرلیا گیا۔ آہستہ آہستہ خاندان اور قبیلے بڑھتے گئے۔ ترک بن یافث کی اولاد میں جتنے بھی قبیلے ہوئے سب کے لیے ”ترک“ کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ یوں رفتہ رفتہ ”ترک“ بہت بڑی قوم بنتی چلی گئی۔
تاریخ کے مطابق ”ترک“ ایک خانہ بدوش قوم تھی۔ یہ مختلف علاقوں میں گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ یہ بہادر، جنگجو اور نڈر تو تھی ہی، لہذا یہ وقتا فوقتا ایشیا اور یورپ کی آبادیوں پر حملہ آور ہوکر انہیں ویران کردیتی تھیں۔ ترک قبیلے اور ترک قوم نے کئی علاقوں میں چھوٹی بڑی کئی آزاد مملکتیں قائم کرلیں۔ ترکی قبائل میں ”اوغوز قبیلے“ نے خاص طور پر شہرت پائی۔ تاریخ میں یہی قبیلہ ”ترک“ کے نام سے مشہور ہوا۔ ترک اور عربوں کے تعلقات کی ابتداء پہلی صدی ہجری میں ہوئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں اسلامی خلافت کی سرحدیں ترکی سے مل گئی تھیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ترکی کے کئی علاقوں پر فوج کشی تو ہوئی، لیکن فتوحات نہ ہوسکیں۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں عبداللہ بن زیاد نے فوج کشی کرکے ترکوں کے کئی اہم علاقے فتح کیے۔ ترکستان کے متعدد علاقوں میں کامیابی کے بعد مسلمانوں نے سمرقند، ترمذ اور دیگر کئی علاقے بھی فتح کرلیے۔ اموی خلیفہ عبدالملک کے دور حکومت میں پورا ترکستان فتح ہوا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ترکی علاقے بھی اسلامی سلطنت کا حصہ بنے۔ اسی دوران ترکوں نے دینِ اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔ اموی حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے دین اسلام کی اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی تو ترک جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اور پھر رفتہ رفتہ ترکی امراء اور سردار بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
چھوتی صدی ہجری تک ترکوں میں اسلام کا غلبہ ہوچکا تھا۔ ترکستان کی فتح کے نتائج دور رس نکلے۔ ترک سرداروں کے مسلمان ہونے سے اس سرزمین میں اسلام کے قدم جم گئے۔ دین اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔ رفتہ رفتہ ترکوں نے سیاست میں قدم رکھنے شروع کردیے۔ ترک جب باقاعدہ طور پر سیاست میں آئے تو وقت عباسی خلافت کے ابوجعفر منصور حکمران تھے۔ ابوجعفر منصور نے بعض ترکوں کو سلطنت کے عہدے دیدیے۔ عباسی خلیفہ معتصم نے ترکوں کو کئی عہدے اور وزارتیں دیں اور پھر ترکوں کا اثر و رسوخ حکومتی معاملات میں بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کے بعد کئی ترک حکمران خاندانوں نے عالم اسلام کے وسیع و عریض خطے پر حکومت کی۔
”سلیمان شاہ“ سلطنت عثمانیہ کے پہلے حکمران ”عثمان خان غازی“ کا دادا تھا۔ اس کا تعلق ترک قبیلے ”اوغوز“ سے تھا۔ سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھے۔ ایک بیٹے کا نام ”ارطغرل“ تھا۔ ارطغرل بہت ہی بہادر، نڈر، جنگجو، شجاع اور سچا مسلمان تھا۔ آپ جانتے ہیں ترک قبیلہ خانہ بدوش تھا۔ ان کا کوئی ایک ٹھکانہ نہ تھا۔ ارطغرل بھی اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ کسی نئے مقام کی طرف آباد ہونے کی غرض سے جارہا تھا۔ چلتے چلتے ارطغرل نے انگورہ ”انقرہ“ کے مقام پر دو متحارب فوجوں کو جنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ ارطغرل نے اپنی فطری ہمدردی کی بناء پر کمزور فوج کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا، چنانچہ ارطغرل اپنے ساتھیوں سمیت مخالف فوج پر ٹوٹ پڑا۔ اس بہادری اور جانثار سے لڑا کہ مخالف فوج شکست کھا کر بھاگ گئی۔ وہ کمزور فوج جس کا ارطغرل نے ساتھ دیا تھا، وہ سلجوقی سلطان علاء الدین کی تھی۔ یہ کچھ لمحے پہلے تک منگولوں کے ہاتھوں اپنی شکست اور ہلاکت کو یقینی سمجھ رہا تھا۔ غیر متوقع مدد اور کامیابی سے علاء الدین ”ارطغرل“ سے بہت خوش ہوا۔ اور خدمت کے اعتراف میں خوش ہو کر ارطغرل اور اس کے خاندان کو انقرہ (انگورہ) کے مقام پر ”قرہ چہ“ نامی علاقہ آلاٹ کردیا۔ یہ علاقہ جو ارطغرل کو دیا گیا یہ بازنطینی سرحد کے بالکل قریب تھا۔ رومی ہر وقت سلجوقی علاقوں پر حملہ آور ہوتے تھے، اب وہ خاموش ہوگئے بلکہ ترکوں سے ڈرنے لگے، چنانچہ ارطغرل نے رومیوں پر حملہ آور ہوکے ان کو دور بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یوں ترکوں کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا، اور ترکوں کو مستقل ایک جگہ مل گئی۔
ارطغرل کا 90 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ ارطغرل کے ۳ بیٹے تھے، ایک بیٹے کا نام عثمان تھا۔ عثمان کے نام سے ترکوں کو شہرت ملی۔ ارطغرل کا یہی وہ بہادر، نڈر، دوراندیش اور سعادت مند بیٹا تھا جس کے نام پر ترکمانی حکومت کو ”عثمانی سلطنت“ کا نام دیا گیا۔ ہوا یوں کہ جب سلجوقی حکمران علاء الدین کی جگہ اس کا بیٹا غیاث الدین حکمران بنا تو اس نے اپنی بیٹی کی شادی ارطغرل کے بیٹے عثمان سے کردی۔ عثمان چونکہ بہت صلاحیتوں کا مالک تھا، چنانچہ عثمان نے اپنے والد ارطغرل کے علاقوں کا انتظام و انصرام بہت منظم اور مضبوط کردیا۔ اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے بہترین فوج تشکیل دی۔ ادارے بنائے۔ نظام بنا۔
جس وقت ارطغرل کا بیٹا اور جانشین عثمان ”سلطنت عثمانیہ“ کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اس وقت اسلامی سلطنتیں انتہائی کمزور اور ابتر حالت میں تھیں۔ مصر متعدد سلاطین کے قبضے میں تھا۔ شام میں ایوبی سلاطین سے الگ الگ کئی خود مختار سلطنتیں بنا رکھی تھیں۔ عراق اور فارق ایلخانی حکمرانوں کے قبضے میں تھا۔ ماوراء النہر اور افغانستان و غیرہ پر مغلوں کی حکومت تھی۔ ہندوستان میں دہلی کے بادشاہ راج کرتے تھے۔ اندلس میں ”دولت ناصری“ کا تقریباً خاتمہ ہو رہا تھا۔ ارطغرل کا بیٹا عثمان چونکہ عالمی حالات سے واقت تھا۔ ذہین اور دوراندیش تھا، لہذا وہ حالات بھانپ گیا، اور اس نے اس خلا کر پُر کرنے ٹھان لی۔ چنانچہ سلطنتِ عثمانیہ وسیع در وسیع ہوتی چلی گئی۔ ”اخی تحریک“ شروع ہوئی جس کا مقصد یہ تھا آپ میں اتحاد اور بھائی چارہ قائم کیا جائے گا۔ یہ تحریک کامیاب ہوئی اور ترک عالم اسلام پر حکمرانی کرنے لگے۔