- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

امام محمد بن الحسن شیبانی رحمہ اللہ

آپ کا نام محمد بن الحسن بن فرقد، ابو عبداللہ کنیت اور شیبانی ولاءً نسبت ہے۔
آپ کے والد جزیرۃ العرب سے تھے، شامی فوج میں شامل ہوگئے تھے، اسی عرصہ میں فلسطین کے ایک دیہات اور دمشق کے شہر ”حرستا“ میں قیام پذیر تھے، بعد از اں کوفہ منتقل ہوئے، امام محمد رحمہ اللہ کی پیدائش کوفہ میں سنہ 132ھ میں ہوئی۔ (بلوغ الامانی فی سیرۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی للعلامۃ زاہد الکوثری: 151) بعض حضرات نے جائے پیدائش ”واسط“ بیان کی ہے جو عراق ہی کا ایک شہر ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: 556/7)

تحصیل علم:
امام محمد رحمہ اللہ جب سن تمیز کو پہنچے، تو ناظرہ قرآن مجید پڑھا، کچھ حصہ زبانی یاد کیا اور اس زمانہ میں جو علوم عربیہ اسلامیہ رائج تھے، ان کی تعلیم حاصل کی، چودہ سال کی عمر میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئے، عرض کیا: ایک بچہ رات میں سویا، درمیانی رات میں احتلام ہوگیا، کیا وہ بچہ اس رات کی نماز عشاء قضاء کرے گا؟ جس رات میں وہ بالغ ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اس رات کی نماز قضاء کرنی ضروری ہے، امام محمد رحمہ اللہ مجلس سے کھڑے ہوئے اور فوراً مسجد کے ایک کنارہ عشاء کی نماز قضاء فرمائی، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جب یہ منظر دیکھا، تو فرمایا: یہ بچہ کامیاب انسان بنے گا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی فراست سے جو بات کہی تھی، وہ بالکل سچ ثابت ہوئی، اللہ تعالی نے امام محمد کو امت کا امام بنایا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس سے واپسی کے بعد امام محمد رحمہ اللہ کے دل میں علمِ فقہ حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور خدمت اقدس میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ مجھے مجلسِ درس میں شرکت کی اجازت دی جائے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اولاً قرآن پاک حفظ کرو، اس کے بعد مجلس درس میں شرکت کرو، (اس لئے کہ استخراج مسائل، استنباط مسائل اور استدلالات میں حافظ قرآن کے لیے بہت سہولت و آسانی ہوتی ہے) امام محمد رحمہ اللہ گھر چلے گئے۔
ایک ہفتہ بعد آئے اور عرض کیا کہ حضرت! میں نے قرآن پاک حفظ کرلیا ہے، (صرف ایک ہفتہ میں حفظ مکمل کرلیا) اس مجلس میں امام محمد رحمہ اللہ نے ایک مسئلہ بھی دریافت کیا (جو عقل و دانش پر دلالت کرتا تھا) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ سوال تمہارے ذہن میں پیدا ہوا ہے یا کسی سے سن کر سوال کیا ہے، امام محمد رحمہ اللہ نے عرض کیا، خود میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: تم نے بڑے آدمیوں کا سوال کیا ہے، (عقل مندی و دانش مندی کا سوال ہے) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ان کی ذہانت و عقل مندی سے خوشی ہوئی اور آپ نے مجلسِ درس میں حاضری کی اجازت دے دی، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات تک چار سال مجلس درس میں شریک ہوتے تھے اور جو مسائل سنتے تھے، ان کو مرتب بھی کرلیا کرتے تھے۔ (بلوغ الامانی: 152)

اساتذہ:
امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام ابویوسف، امام اوزاعی، سفیان ثوری، عمرو بن دینار، عبداللہ بن مبارک مسعر بن کدام، حسن بن عمارہ، یونس بن ابواسحاق سبیعی، خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان، سفیان بن عیینہ و غیرہ۔ رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔ سے؛ نیز کوفہ، بصرہ، عراق اور مکہ و مدینہ کے علماء، فقہاء اور محدثین سے علم حاصل کیا۔ (ملحض: بلوغ الامانی: 154)
آپ نے بطور خاص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے چار سال علم فقہ حاصل کیا اور امام ابویوسف رحمہ اللہ سے اس کی تکمیل کی۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میں امام مالک کی خدمت میں تین سال رہ کر علم حاصل کیا ہے۔“(سیر اعلام النبلاء 556/7)

علمی مقام و شان:
آپ نے اپنے عہد اور اسلامی تاریخ کے علم و فن کے اساتذہ سے علم حاصل کیا، امام اعظم و امام دارالہجرۃ مالک بن انس رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص اور امام محمد بن ادریس شافعی کے استاذ محترم ہیں، اور کئی ائمہ مجتہدین کے استاذ ہیں، آپ مجتہد، موطا کے راوی، فقہ حنفی کے ناشر و ترجمان، فصیح و بلیغ عالم دین ہیں، جن سے ائمہ کبار نے علم حاصل کیا، آپ مجتہد مطلق تھے، پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اجتہادی اصول کو اپنانے ہی کو اپنے لیے سعادت سمجھی۔
آپ کی کتاب ”اصل“ جو مبسوط کے نام سے مشہور ہے، ایک عیسائی حکیم نے مطالعہ کیا، تو کہا: تمہارے چھوٹے محمد کی کتاب کی یہ شان ہے! تو تمہارے بڑے محمد کی شان کیا ہوگی! اور اس حکیم نے اسلام قبول کرلیا۔ (بلوغ الامانی: 196)
امام شافعی فرماتے ہیں: ”کنت اظن اذا رأیتہ یقرا القرآن کأن القرآن نزل بلغتہ“ (سیراعلام النبلاء: 556/6)
”جب میں امام محمد رحمہ اللہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھتا تو سمجھتا کہ شاید قرآن ان ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، اتنا عمدہ تلاوت کرتے ہیں“۔
نیز امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ما رأیت رجلا اعلم بالحرام، و الحلال، والعلل، والناسخ، والمنسوخ من محمد بن الحسن۔“
(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ) میں نے حلال و حرام، علل؛ نیز ناسخ و منسوخ کی معرفت کے سلسلہ میں امام محمد رحمہ اللہ سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔
ما جالست فقیھا قط أفقہ منہ، و لا فتق لسانی بالفقہ مثلہ۔
’میں آپ سے بڑے فقیہ کی خدمت میں نہیں بیٹھا؛ نیز آپ نے میری زبان کو فقہ کے ساتھ جاری کردیا‘۔
ابراہیم حربی فرماتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے عرض کیا:
من أین لک ھذا المسائل الدقیقہ؟ قال من کتب من محمد بن الحسن۔
یہ دقیق مسائل آپ کہاں سے بیان کرتے ہیں، تو فرمایا امام محمد بن حسن کی کتابوں سے بیان کرتا ہوں۔ (سیر اعلام النبلاء: 556/7)

تلامذہ:
ائمہ اربعہ میں امام شافعی، ابوسلیمان موسی بن سلیمان جوزجانی جنہوں نے امام محمد رحمہ اللہ کی کتب کو عام کیا، ہشام بن عبداللہ رازی، ابوحفص کبیر احمد بن حفص عجلی جو فقہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں، اسد بن فران قیروانی جو فقہ مالکی کے مدون اور شیخ سحنون مالکی کے استاذ ہیں، جن سے دیارِ مغرب میں فقہ مالکیت کا فروغ ہوا، امام الجرح و التعدیل یحیی بن معین، شعیب بن سلیمان کیسانی جو امام محمد رحمہ اللہ سے کیسانیات کے راوی ہیں، علی بن صالح جرجانی جو امام محمد سے جرجانیات کی روایت کرتے ہیں، اسماعیل بن توبہ جو سیر کبیر کی روایت کرتے ہیں، ابوبکر ابراہیم بن رستم مروزی جو امام محمد سے نوادرات کی روایت کرتے ہیں۔ (ملخص: بلوغ الامانی: 155)

عظیم تلامذہ کے تاثرات:
امام شافعی فرماتے ہیں: ”ما جالست فقیھا قط أفقہ منہ، و لافتق لسانی بالفقہ مثلہ“
میں نے آپ سے بڑے فقیہ کی خدمت میں نہیں بیٹھا؛ نیز آپ نے میری زبان کو فقہ کے ساتھ جاری کردیا، میں جب بھی آپ سے کوئی علمی بات معلوم کی کبھی آپ کے چہرہ بشرے پر ناگواری نہیں دیکھی، آپ بشاشت سے اطمینان بخش جواب دیا کرتے تھے۔ (جو کہ علمی وسعت، اخلاق کی بلندی اور طلبہ کے حوصلہ افزائی کی دلیل ہے)۔ (بلوغ الامانی: 167)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے علم حدیث میں سفیان بن عینیہ اور علم فقہ میں محمد بن الحسن شیبانی سے میری خاص مدد فرمائی۔ (بلوغ الامانی: 165)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فقہ میں سب سے زیادہ احسان مجھ پر امام محمد کا ہے اور فرماتے تھے علم فقہ اور دنیوی ضرورتوں کے سلسلہ میں امام محمد رحمہ اللہ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں اور بکثرت آپ کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ (بلوغ الامانی: 165)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں امام محمد رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ سے حدیثیں سنی اور علم فقہ حاصل کیا، جب امام محمد سبق سے فارغ ہو کر چلے جاتے، تو میں طلبہ کے ساتھ بحث و مباحثہ اور مناظرہ کرتا تھا، امام محمدؒ کو معلوم ہوا، تو آپ نے مجھ سے فرمایا: میرے ساتھ ”مسئلہ یمین و شاہد“ میں مناظرہ کرو، مجھے شرم محسوس ہوئی، استاذ کا ادب مانع ہوا؛ لیکن امام محمدؒ نے بہت زیادہ اصرار کیا، تو میں نے امام محمدؒ سے مناظرہ کیا، آپ خوش ہوئے اور خلیفہ وقت ہارون رشید کی خدمت میں لے گئے اور خلیفہ نے انعام دیا۔ (بلوغ الامانی: 165)
امام محمدؒ امام شافعی کو خاص اوقات میں بھی پڑھایا کرتے تھے؛ اس لیے کہ امام شافعیؒ مکہ مکرمہ سے حاضر ہوئے تھے اور ذہین و فطین بھی تھے۔ (بلوغ الامانی: 165)
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
لقد کتبت من محمد بن الحسن وقربعیر۔ ’میں نے امام محمدؒ سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر کاپیاں لکھیں ہیں‘۔
مذکورہ باتوں سے معلوم ہوا کہ امام محمد اپنے تلامذہ میں علمی تحقیق کا ذوق و شعور پیدا کرنے اور ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو مہمیز کرنے کے لیے ان کی کیسی تربیت فرماتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے، ان کی دنیوی ضروریات کا خیال فرماتے تھے، امام شافعی ؒ نے بھی ساری زندگی ان کے علمی و دنیوی احسانات کو فراموش نہیں کیا اور استاذ کے لیے دعائیں کرتے تھے۔
نوٹ: بعض متعصبین نے امام شافعی اور امام محمد کی تعلقات کی نوعیت میں امام شافعی کی شان بڑھانے کے لیے تعصب سے کام لیا ہے، حافظ ابن حجر شافعیؒ شارح بخاری نے ”توالی التاسیس“ میں اور علامہ زاہد کوثریؒ نے ”بلوغ الامانی“ پوری تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ امام شافعی امام محمدؒ کا بہت ادب و احترام کرتے تھے، ان کے احسانات کے قدرشناس اور دعا گو تھے۔

اسد بن فرات قیروانی:
اسد بن فرات مغرب کے شہر قیروان کے رہنے والے تھے، امام مالکؒ کی خدمت میں 172ھ مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور مؤطا کا سماع کیا، اثناء درس میں فقہی مسائل معلوم کرتے، امام مالکؒ غریب الدیار طالب علم کی رعایت میں ہر سوال کا جواب بھی دیا کرتے، ساتھیوں کے کہنے پر جب بار بار اثنائے درس فقہی مسائل معلوم کرنے لگے اور امام مالکؒ کی توجہ زیادہ تر روایت حدیث پر ہوتی، تو امام مالکؒ نے اسد بن فرات قیروان سے کہا: اے مغربی! اگر علم فقہ طلب کرنا چاہتے ہو، تو اہلِ عراق کے پاس چلے جاؤ، اسد بن فرات کہتے ہیں، میرے دل میں فقہائے عراق کی عظمت پیدا ہوگئی اور میں نے عراق کا سفر کیا، عراق میں مختلف علماء سے علم حاصل کیا، جن میں امام ابویوسف اور امام محمدؒ بھی ہیں، زیادہ تر امام محمدؒ کی خدمت میں رہے۔
ایک دن اسد بن فرات قیروانی نے امام محمدؒ سے عرض کیا، حضرت میں بہت دور سے آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں، آپ کے پاس طلبہ کی تعداد زیادہ ہے، ہر وقت طلبہ اور عراقی لوگ آپ کو گھیرے رہتے ہیں، میں اپنی مجبوری سے زیادہ دن عراق میں قیام کر نہیں سکتا، میری مشکل کا حل کیا ہے؟ امام محمدؒ نے فرمایا: دن میں عراقی طلبہ کے ساتھ مجلس درس میں حاضری دیا کرو، رات کا وقت بطور خاص تمہارے لیے فارغ کروں گا؛ چنانچہ امام محمدؒ رات میں مجھے سبق پڑھایا کرتے تھے، مجھ پر نیند کا غلبہ ہوجاتا، امام محمد اپنے پاس ایک پیالہ رکھے رہتے، اس میں سے پانی میرے چہرے پر چھڑکتے اور مجھے بیدار کرتے، پھر میں ہوشیار ہوتا، پھر اونگ آتی، تو پھر پانی چھڑکتے، یہی سلسلہ چلتا تھا، کبھی اُکتاہٹ اور بوجھ محسوس نہیں کرتے تھے، اس طرح جو علم میں امام محمدؒ سے حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ حاصل کرلیا۔
امام محمدؒ نے ایک دن اسد بن فرات کو سبیل کا پانی پیتے ہوئے دیکھا، تو سمجھ گئے کہ ان کے پاس زادِ راہ ختم ہوچکا ہے؛ چنانچہ آپ نے اَسّی دینار دیئے، جب قیروان واپسی کا ارادہ کیا، تو اس وقت بھی امام محمدؒ نے زادِ راہ و غیرہ کا معقول انتظام فرما کر روانہ فرمایا۔ (بلوغ الامانی: 159)
سوچئے! امام محمدؒ اپنے تلامذہ پر کس قدر شفیق و مہربان ہیں، طلبہ کی تعلیم کے لیے راتوں کی نیند و آرام اور راحت کی قربانی دی ہے، ان کی ضروریات کی تکمیل فرماتے تھے، ان کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کے لیے کتنی قربانیاں دیا کرتے تھے، اِن اسد بن فرات نے مغرب پہنچ کر فقہ مالکی کو مرتب و مدون کیا اور دیارِ مغرب میں فقہ مالکی کو فروغ دیا، ائمہ مالکیہ میں سحنون -جو فقہ مالکی کی کتاب ”المدونۃ“ کے مصنف- ان کے استاذ ہیں۔

امام محمدؒ کی کتب ستہ، موطا اور دیگر افادات:
(۱) امام محمدؒ نے بہترین و اصولی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ”اصل“ جو مبسوط کے نام سے مشہور ہے، ہزاروں فقہی مسائل پر مشتمل ہے، کہا جاتا ہے کہ امام شافعیؒ نے اس کتاب کو حفظ فرمایا اور اپنی کتاب ”الام“ کو اسی کے طرز پر تحریر فرمایا، ایک عیسائی حکیم نے اس کتاب کو دیکھ کر اسلام قبول کیا، فقہائے احناف میں متعدد حضرات نے اس کی روایت کی ہے۔
(۲) ”جامع صغیر“ جو تقریبا ڈیڑھ ہزار مسائل پر مشتمل ہے، صرف ایک سو ستر مسائل میں فقہی اختلاف کو ذکر کیا گیا ہے صرف دو مسئلوں میں قیاس اور استحسان سے استدلال کیا گیا ہے۔
امام محمدؒ جب مبسوط کی تصنیف و تالیف سے فارغ ہوئے، تو امام ابویوسفؒ نے فرمایا: جو مسائل تم نے مجھ سے امام ابوحنیفہؒ کی روایت سے سنے ہیں، ان کو مرتب کرو، امام محمدؒ نے جامع صغیر مرتب فرما کر پیش کی، امام یوسفؒ اس کتاب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور امام محمدؒ کے قوت حافظہ کی تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا: تین مقامات میں چوک ہوگئی ہے، امام محمدؒ فرماتے تھے، مجھ سے چوک نہیں ہوئی ہے، امام ابویوسفؒ بیان کرنے کے بعد بھول گئے ہیں۔
امام ابویوسفؒ اپنی جلالت و عظمت کے باوجود اس کتاب کو سفر و حضر میں ساتھ رکھا کرتے تھے۔
(۳) ”سیرِ صغیر“ اس کتاب میں امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے جو مسائل سنے ہیں، ان کو بیان کیا ہے، امام اوزاعیؒ نے ”سیر صغیر“ کا رَد لکھا، امام ابویوسفؒ نے امام اوزاعی کا جواب لکھا۔
(۴) ”جامع کبیر“ ایک اہم کتاب ہے، جس میں مسائل کو روایات و درایات کے موافق لکھا گیا ہے، نہایت شاندار کتاب ہے۔
(۵) ”زیادات“ جامع کبیر کا استدراک ہے، جو مسائل جامع کبیر میں ذکر سے رہ گئے ہیں، ان کو بیان فرمایا ہے۔
(۶) ”سیر کبیر“ آپ کی آخری تالیف ہے۔ (ملخص از بلوغ الامانی: 196 تا 198)
ان مذکورہ کتبِ ستہ کے علاوہ آپ کے تلامذہ نے متعدد کتابوں میں آپ کے درسی افادات کو جمع فرمایا ہے، کیسانیات، جرجانیات، رقیات و غیرہ جن کی طرف تلامذہ کی فہرست میں اشارہ کیا گیا۔
”موطا“ امام مالکؒ کی ایک ہزار سے زائد مرفوع و موقوف روایات کو جمع فرمایا ہے، ایک سو پچھتر روایات دیگر شیوخ کی بھی ذکر کی ہیں۔
علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے ”الممجد فی شرح موطا للامام محمد“ کے مقدمہ میں تحریر فرمایا: موطا امام محمد میں (1150) احادیث مروی ہیں۔
”کتاب الاثار“ حدیث کی کتاب ہے جس میں امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی سند سے جو روایات ہیں ان کو جمع فرمایا۔ (بلوغ الامانی: 200)
جامع صغیر، جامع کبیر، سیر کبیر، سیر صغیر، مبسوط اور زیادات فقہ حنفی کے مصادر و مراجع ہیں، آپ کی شخصیت اور آپ کی امہات کتب سے فقہ حنفی کو فروغ حاصل ہوا۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ فقہ حنفی امام محمدؒ کے تلامذہ اور آپ کی کتابوں سے عام ہوا، وہی کتبِ ستہ فقہ حنفی کی اصل اور آپ ہی کے تلامذہ ان کتب ستہ کے راوی ہیں، استاذ کی محنت سے کتب ستہ بھی تیار ہوئیں اور ان کو عام کرنے والے باوفا، مخلص، عقیدت مند استاذ کے نام کو روشن کرنے والے تلامذہ بھی پیدا ہوئے، یہ استاذ کے خلوص، للہیت، قربانی اور طلبہ پر بے پناہ شفقت و محنت کی دلیل ہے۔

وفات: آپ کی وفات مقام ”رَی“ میں سنہ 189ھ میں ہوئی۔ (سیر اعلام النبلاء 556/7)