- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’جبری‘ گمشدگیاں: بلوچستان کے لاپتہ افراد کی واپسی میں تیزی ’اچھی پیشرفت‘ یا ’سیاسی ضرورت‘؟

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ’جبری طور پر‘ لاپتہ افراد کی واپسی میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور گذشتہ ایک ہفتے کے دوران 19 لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں۔ تاہم بلوچستان کی صوبائی حکومت نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ’ایک اچھی پیشرفت‘ قرار دیا ہے۔

بازیاب ہونے والے کون ہیں؟
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ گھر لوٹنے والے چھ افراد گذشتہ سنیچر کو بازیاب ہوئے جن میں پانچ افراد کا تعلق ڈیرہ بگٹی سے ہے۔
ضلع ڈیرہ بگٹی سے بازیاب ہونے والوں میں دو سال سے لاپتہ عبدالستار بگٹی، ڈھائی سال سے لاپتہ ناڑی حبیبانی بگٹی، تین سال سے لاپتہ گنڈیا ہوتکانی بگٹی، خاوند بخش چندرزئی بگٹی اور وشکی بگٹی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا گذشتہ دو روز کے دوران بازیاب ہونے والوں میں رب نواز لانگو بھی شامل ہیں جنھیں آٹھ برس قبل بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر سے ’جبری طور پر‘ لاپتہ کیا گیا تھا۔ رب نواز لانگو کے ساتھ مزید چار افراد لاپتہ ہوئے تھے جو پہلے ہی بازیاب ہو چکے ہیں۔
نصراللہ بلوچ کے مطابق ڈیرہ بگٹی اور قلات سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کی بازیابی سے قبل جو 13 افراد بازیاب ہوئے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ضلع کیچ سے ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں جو علاقے شورش سے متاثرہ ہیں ان میں ڈیرہ بگٹی اور کیچ بھی شامل ہیں۔ تنظیم کے مطابق جو لوگ بازیاب ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر کو ’قوم پرست تنظیموں سے تعلق کے تناظر میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔‘
بازیاب ہونے والوں میں بلوچی زبان کے شاعر عبید عارف بھی شامل ہیں۔ نصراللہ بلوچ کے مطابق عبید عارف کو 18 نومبر 2019 کو ضلع کیچ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
دیگر بازیاب ہونے والوں میں 13 نومبر سے خاران سے لاپتہ ہونے والے سمیع اللہ بلوچ، 30 ستمبر 2018 کو کوئٹہ سے لاپتہ ہونے والے شمس الدین بنگلزئی، دو سال قبل لاپتہ ہونے والے ثنا اللہ سمالانی، کیچ کے علاقے بلنگور سے دو سال سے لاپتہ عرفان بلوچ، آبسر کے علاقے سے ڈیڑھ سال سے لاپتہ گلاب بلوچ، مزنگ بند سے دو سال سے لاپتہ امام اسحٰق، سامی سے تعلق رکھنے والے واحد داد شاہ اور مہناز کے علاقے کے منظور حسین شامل ہیں۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ 25 نومبر 2018 سے گوادر کے علاقے پسنی سے لاپتہ ہونے والے امین شکاری اور گذشتہ برس پنجگور سے لاپتہ ہونے والے رحیم بلوچ بھی بازیاب ہوئے، اسی طرح بلوچستان کے ضلع کیچ سے بازیاب ہونے والوں میں طالب علم سدھیر بلوچ بھی شامل میں جن کو دو سال قبل کراچی سے لاپتہ کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ جبری طور پر گمشدہ کیے گئے شہریوں کے اہلخانہ اور حقوق انسانی کی تنظیمیں پاکستان کے خفیہ اداروں کو ان گمشدگیوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں تاہم پاکستان میں اداروں کی جانب سے عموماً ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔

حکومتِ بلوچستان کیا کہتی ہے؟
بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مذاکرات کرتی رہی ہیں۔
وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ جنوری 2019 میں وزیر اعلیٰ جام کمال سے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں 590 افراد کی فہرست فراہم کی گئی تھی، جن میں سے 315 افراد اب تک بازیاب ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’19 افراد کی بازیابی سے قبل بھی لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے بلوچستان کے وزیر داخلہ سے ملاقات کی تھی۔ ’یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بلوچستان سے لاپتہ تمام افراد کو بازیاب کیا جائے تاکہ ان کے خاندان کے افراد جس اذیت سے دوچار ہیں اس کا خاتمہ ہو سکے۔‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ برس لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران انھیں 392 لاپتہ افراد کی فہرست فراہم کی گئی تھی۔ ’ان میں سے تین سو سے سوا تین سو تک افراد بازیاب ہوئے ہیں۔‘
صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے رابطے پر بتایا کہ اس بارے میں وہ ’بعد میں بتائیں گے۔‘ تاحال ان سے اس موضوع پر بات نہیں ہو سکی۔
یاد رہے کہ سنہ 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے اپنی تقریر کے دوران بلوچستان سے لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی اور دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان سے 5128 لوگ افراد لاپتہ ہیں جن میں بزرگ، بچے اورخواتین بھی شامل ہیں۔

سیاسی ضرورت یا پالیسی میں تبدیلی؟
بلوچستان نیشنل پارٹی نے تحریک انصاف کی حمایت کے لیے جو چھ نکاتی معاہدہ کیا تھا ان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی شرط بھی شامل تھی۔ بعد میں بی این پی نے حکمران جماعت سے اپنی راہیں علیحدہ کر لی تھیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ جب وہ ان سے مطالبہ کر رہے تھے اس وقت ’ان کی سیاسی ضرورت تھی‘ کہ وہ ایک، ایک دو، دو کر کے لوگ چھوڑ رہے تھے۔ جب سے انھوں نے ان کا ساتھ چھوڑا ہے ’تو اچانک بڑی تعداد میں لوگوں کو چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔‘
ان کا اندازہ ہے کہ ان کے پاس اب ’زیادہ جگہ نہیں‘ ہے، اس لیے لوگوں کو چھوڑ رہے ہیں۔
’ہماری فہرست کے مطابق ساڑھے چار سو کے قریب لوگ چھوڑ دیے گئے تھے جبکہ پندرہ سو کے قریب مزید اٹھائے گئے تھے۔ یہ سلسلہ جاری ہے، جتنے چھوڑتے ہیں اس سے زیادہ تعداد میں اٹھاتے ہیں۔‘
سردار اختر مینگل اس سے قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت کو جب پارلیمان میں اتحادیوں کی ضرورت پڑتی تھی اس وقت ان کی فہرست میں سے لوگ چھوڑے جاتے تھے۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’سینیٹ کے انتخابات میں حکمرانوں کے نمبرز ان کے ساتھ ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ان کا یہ سر درد نہیں ہے کون رہا ہوتا ہے کون نہیں۔ کیونکہ ان کے نہ تو منشور کا یہ حصہ ہے نہ انھوں نے کبھی اس طرز کی سیاست کی ہے۔
’اب ان کا یہ خیال ہے کہ ان کی ان اداؤں سے ہم خوش ہو جائیں گے اور ان کی مرضی کے فیصلے کریں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔‘
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سنہ 2002 سے احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
تنظیم کے وائس چیئرمین عبدالقدیر بلوچ کوئٹہ اور کراچی میں مسلسل بغیر کسی وقفے اور تہوار کے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک طویل پیدل لانگ مارچ بھی کیا تھا۔ وہ جنیوا اور امریکہ میں بھی بین الاقوامی فورمز پر لاپتہ افراد کے حوالے سے پیش ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی تاریخ
پاکستان میں ‘جبری گمشدگیوں’ کے مسئلے نے سنہ 2000 میں زور پکڑا تھا اور تقریباً 10 سال کے بعد سنہ 2011 میں جبری گمشدگیوں کا پتہ لگانے کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کر چکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1977 جبری طور پر لاپتہ افراد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک 6500 سے زیادہ افراد کی گمشدگی کی شکایات آئیں جن میں سے 4365 نمٹائی گئیں، 872 کو فہرست سے نکال دیا گیا، 3500 کے قریب کا سراغ لگایا گیا، 501 جیلوں اور 810 حراستی کیمپوں میں ہیں۔
جبری گمشدگیوں کے بارے میں کمیشن کا دعویٰ ہے کہ لاپتہ افراد میں سے 205 افراد کی لاشیں ملیں ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی تعداد کئی گنا زیادہ بتاتی ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 90 مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔