- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

طالب علم حیات بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی اہلکار کو موت کی سزا

بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں ایک عدالت نے طالب علم حیات بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی اہل کار کو سزائے موت سنائی ہے۔
حیات بلوچ کو گزشتہ سال 13 اگست کو فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار نے ان کے والدین کے سامنے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اب مجرم کے پاس ایک ماہ کی مہلت ہے۔ اس دوران وہ فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔
حیات بلوچ کے قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا ۔
حیات بلوچ کے خاندان نے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
حیات بلوچ کے بھائی مراد سعید نے فیصلے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حیات بلوچ کے قتل کے چھ ماہ بعد اب ایسا لگا کہ شاید میں، میرے والدین اور گھر والے آرام و سکون سے سو سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پورے کیس کے دوران ہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ہم نے آزادانہ طریقے سے کیس کی پیروی کی ہے۔

حیات بلوچ کے قتل کا مقدمہ کتنا عرصہ چلا؟
حیات بلوچ کو ان کے والدین کے سامنے اس وقت فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا جب وہ اپنے والدین کے ہمراہ ایک کھیت میں کام کر رہے تھے ۔
حیات بلوچ کے قتل کے واقعے سے کچھ دیر پہلے فرنٹیئر کور کی ایک گاڑی کو ریموٹ بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
اس دھماکے میں ایف سی کے تین اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد ایف سی اہلکار آئے تھے اور وہ حیات کو کھیت سے اٹھا کر روڈ پر لے گئے تھے ۔
ان کے والدین کے مطابق انہوں نے ایف سی اہلکاروں کی منت سماجت کی کہ حیات بلوچ اس واقعے میں ملوث نہیں لیکن انہوں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان میں سے ایک اہلکار شادی اللہ نے حیات بلوچ پر فائر کھول دیا۔
فائرنگ سے حیات بلوچ موقع پر ہلاک ہو گئے تھے ۔
اس واقعے کے بعد تربت پولیس نے ایف سی اہلکار شادی اللہ کو گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا ۔
مقدمے میں حیات بلوچ کے والدین کی پیروی جاڑین دشتی ایڈووکیٹ نے کی تھی۔
فون پر بی بی سی کو جاڑین دشتی نے بتایا کہ یہ مقدمہ عدالت میں تین مہینے تک چلا۔
ان کا کہنا تھا کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد دو روز قبل عدالت نے مقدمے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بدھ کے روز مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے ایف سی اہلکار کو حیات بلوچ کے قتل کا مرتکب پایا۔
عدالت نے تعزیرات پاکستان کے دفعہ302 کے تحت ملزم کو سزائے موت سنائی۔

حیات بلوچ کون تھے ؟
حیات بلوچ ضلع تربت کے رہائشی تھے۔ وہ کراچی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔
کورونا کی وجہ سے یونیورسٹی بند تھی جس وجہ سے وہ آبائی علاقے تربت میں مقیم تھے۔ ان کے والد کھجور کے کاروبار سے منسلک تھے ۔
حیات بلوچ نہ صرف محنتی بلکہ ایک خوددار طالب علم تھے ۔
عامر احسن کراچی یونیورسٹی میں حیات بلوچ کے چار سال سے ہم جماعت تھے اور ان کے بہترین دوست تھے۔
عامر احسن بتاتے ہیں کہ حیات بلوچ کا تعلق بہت ہی غریب خاندان سے تھا۔ ان کے مطابق وہ اپنی پوری برداری میں پہلا نوجوان تھا جس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور ان ہی کی ہمت افزائی کے بعد ان کے چھوٹے بھائی نے بعد میں تعلیم حاصل کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ‘میں کیا بتاؤں وہ کتنا قابل اور درد دل رکھنے والا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے دل کی بات کرتا تھا۔’
عامر احسن بتاتے ہیں کہ ‘کہتا تھا کہ ماسٹرز کے بعد میرے پاس صرف ایک ہی آپشن ہے اور وہ ہے سی ایس ایس کا جس کے لیے وہ ابھی سے دن رات تیاری کر رہا تھا۔ اس کے تمام سمیسٹرز میں گریڈ بھی اچھے تھے۔’
عامر احسن بتاتے ہیں کہ حیات بلوچ انتہائی مشکل حالات میں تعلیم کو جاری رکھے ہوئے تھے۔
‘کورونا کے باعث یونیورسٹی بند ہوئی تھی تو اپنے علاقے میں جا کر ہم لوگوں کی طرح ریلیکس اور آن لائن پڑھائی نہیں کر رہا تھا بلکہ اس نے والد کے ساتھ مل کر کھجور کے باغ کا ٹھیکہ لے لیا تھا۔ جہاں پر وہ دن رات کام کرتا تھا۔
‘اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس سے مجھے اتنے پیسے مل جائیں گے جس سے میرا آنے والے دنوں میں یونیورسٹی کا خرچہ چل جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ جب بھی اپنے علاقے جاتا تھا وہاں پر محنت مزدوری کرتا تھا۔’
عامر احسن کے مطابق اکثر اوقات کچھ دوست اور یونیورسٹی کے ایک دو استاد ان کی مدد کرتے تھے اور حیات بلوچ کو نوٹس، کتابیں وغیرہ دلاتے تھے۔
‘اس بات پر وہ بہت شرم محسوس کرتا تھا، اتنی زیادہ کہ میں بتا نہیں سکتا۔
بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشن آرگنائزیشن کراچی یونیورسٹی کے چیئرمین محسن علی کے مطابق حیات بلوچ بلوچ طلبا کی رفاعی تنظیم کی کابینہ میں شامل تھے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ زندگی سے بھرپور طالب علم تھے جو نہ صرف اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے تھے بلکہ وہ رفاعی اور فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔
محسن علی کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے داخلے وغیرہ کے لیے کراچی آنے والے طالب علموں کو مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور حیات بلوچ آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتے تھے۔

حیات بلوچ کے قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا
حیات بلوچ کے قتل کے خلاف بلوچستان میں سول سوسائٹی ، طلباء تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا ۔
ان کے قتل کے خلاف نہ صرف ضلع کیچ اور مکران بلکہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں احتجاج کیا گیا تھا ۔
حیات بلوچ کے قتل کا واقعہ ان واقعات میں سے جس کے خلاف بلوچستان میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا ۔

حیات بلوچ کے قتل کے مقدمے پر خاندان کا رد عمل
بلوچستان میں ایف سی اہلکاروں پر لوگوں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن حیات بلوچ کے قتل کا مقدمہ غالباً کسی شہری کے قتل کا پہلا واقعہ ہے جس میں کسی ایف سی اہلکار کو سزائے موت سنائی گئی ہے ۔
حیات بلوچ کے بھائی مراد مرزا بلوچ نے اپنے بھائی کے قتل کے مقدمے پر عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ۔
حیات بلوچ کے والدین بالخصوص ان کی والدہ کی وہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ان کے لاش کے پاس بیٹھی رو رہی تھی ۔
حیات بلوچ کے بھائی نے بتاہا کہ نہ صرف ان کی والدہ بلکہ بلوچستان کے تمام لوگ اس فیصلے پر مطمئن ہیں ۔