- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

دامن چرخ سے ایک اور ستارہ ٹوٹا

پون صدی سے زیادہ ہوا کہ ایک چھوٹا سا بچّہ دیوبند پہنچا. اسے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لینا تھا. مدرسہ پہنچے تو وہاں شرط تھی کہ داخلہ صرف حافظ بچوں کو ملے گا. دوسرا آپشن مظاہر العلوم سہارنپور کا ہی تھا. وہاں پہنچتے ہی داخلہ مل گیا اور پھر زندگی کے قیمتی آٹھ سال وہاں گزرے. دورۂ حدیث میں حضرت مولانا زکریا کاندھلوی اور مولانا عبدالرحمٰن کاملپوری رحمہما اللہ جیسے عبقری اساتذہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا. فرماتے تھے کہ ان دنوں مدارس میں حکمت پڑھائی جاتی تھی. میرا رجحان حکمت کی طرف بڑھتا دیکھ کر حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ نے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ یہ تھے ہمارے دادا مولانا علامہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ۔
ان دنوں تحریک آزادی عروج پر تھی اور آپ کی عقیدتوں کا مرکز حضرت مدنی رحمہ اللہ تھے. اس لیے آپ نے بیعت تصوف بھی حضرت کے دست اقدس پر کی اور جمعیت علمائے ہند کے سرگرم کارکن بھی بن گئے. یوں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی حاضر ہونے لگے. مگر جب حالات نے پلٹا کھایا اور قیام پاکستان ایک اٹل حقیقت بن گئی تو آپ اپنے ساتھیوں سمیت ایک مہاجر ٹرین میں سوار ہوکر بہاولنگر پہنچ گئے. بہت جلد آپ اسکول ٹیچر بھرتی ہوگئے اور ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا فروغ بھی جاری رکھا. جس علاقے میں جاتے وہاں مسجد قائم کرتے اور قرآن و حدیث کی تعلیم شروع کردیتے. آپ نے اپنے بچوں کو گھر پر ہی حفظ کرواتے اور پھر دینی کتابیں پڑھانا شروع کردیتے۔ ہمارے والد محترم مولانا عبیداللہ رحمہ اللہ کی رسمی تعلیم کا آغاز بھی گھر سے ہی ہوگیا۔ حفظ بھی یہیں سے ہوا اور درس نظامی کی ابتدائی کتابیں بھی یہیں پڑھیں۔ آپ کے بڑے بھائی کراچی پڑھنے آئے تو آپ کو بھی ساتھ ہی لے آئے۔ ابتدائی درجات جامعہ فاروقیہ کراچی میں پڑھے، اس کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عبیداللہ خالد صاحب، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد اور مولانا اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ آپ کے ساتھیوں میں سے تھے۔
آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی جاری رکھی اور بی کام تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ 1989ء سے ہی اسکول میں عربی ٹیچر مقرر ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد سعودی عرب چلے گئے اور وہاں تین سال تک رہے۔ تجارتی مصروفیات بڑھیں، تدریس چھوٹ گئی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1993ء میں حالات نے پلٹا کھایا اور آپ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ تین سال تک دعوت و تبلیغ ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا بنی رہی۔ واپس تشریف لائے تو کایا پلٹ چکی تھی۔ صوابی کے ایک مدرسہ والوں کا اصرار تھا کہ ہمارے پاس آجائیں۔ والد صاحب بھی اسی کوشش میں تھے مگر آپ کے دوست احباب نے کہا کہ اس علاقے میں دین کی محنت والے افراد کی کمی ہے۔ پھر ہمارے دادا علامہ خان محمد صاحب بھی چونکہ ہمارے ساتھ ہی تھے، ان کے لیے اس علاقے کو چھوڑ کر جانا مشکل تھا۔ اب والد محترم کی زندگی کا محور دعوت و تبلیغ بن کر رہ گئی۔ اگرچہ دوست احباب نے محنت کوشش کرکے آپ کی سرکاری نوکری بحال کروادی مگر آپ ایک داعی و مبلغ ہی بنے رہے۔ اپنے تمام اسکول کے دوستوں کو دین کے رستے پر لگایا، میل جول والے اور اہل محلہ کی زندگیوں میں تبدیلی کا ذریعہ بنے۔ اسکول میں بھی آپ کا ویٹنگ روم مسجد ہی تھی۔ فارغ پیریڈ میں وہیں موجود ہوتے۔ فرماتے تھے: اپنے کردار کو درست رکھو تو ہر شخص عزت کرتا ہے۔ میں نے عمر بھر اسکول میں پڑھایا مگر کسی ایک طالب علم نے مجھ سے اونچے لہجے میں کبھی بات نہیں کی۔ 1998ء سے آپ شہر وہاڑی کی جامع مسجد نور میں امام و خطیب مقرر ہوئے اور اس مسجد کو دعوت و تبلیغ کا مرکز بنائے رکھا۔ مسجد بازار کے قریب ہی تھی، اس لیے بے شمار دکان داروں کو دین کی طرف متوجہ کیا۔ ہفتہ وار شب جمعہ، ماہانہ سہ روزہ، سالانہ چلہ، جماعتوں کی نصرت اور خود بیرون ملک دعوتی اسفار ہی آپ کی زندگی کا مشن بنے رہے۔ آپ دو بار سات ماہ کی جماعت کے ساتھ انڈونیشیا گئے۔ ایک بار سات ماہ کی جماعت کے ساتھ بنگلہ دیش و ملائیشیا گئے۔ ایک بار سات ماہ کی جماعت کے ساتھ جیبوتی گئے۔ دو بار عمرے کی جماعت کے ساتھ گئے۔ آخری شب جمعہ کو بھی تبلیغی مرکز جانا نہیں بھولے۔ گردوں کا مرض جب شدت اختیار کرگیا تو بھی ماہانہ سہ روزے کے لیے مرکز چلے گئے، وہیں پر طبیعت شدید خراب ہوگئی۔ وہاڑی شہر اور اس کے مضافات میں آپ نے بے شمار تبلیغی و دعوتی بیانات کیے، سہ روزے لگائے، وہاڑی تبلیغی مرکز کے روح رواں بنے رہے۔ ہمیں نہیں یاد کبھی کسی سے جھگڑے ہوں، کسی سے اونچی آواز میں بات کی ہو، کبھی کسی کا حق رکھا ہو، کبھی کسی کو دکھ پہنچایا ہو۔

چند سال پہلے آپ نے اسکول کی نوکری سے بھی استعفی دیدیا۔ عصر سے عشا تک مسجد میں رہنا تو جوانی سے ہی معمول تھا۔ گزشتہ کئی سالوں سے گھر صرف صبح ایک گھنٹہ اور رات کو ایک گھنٹہ دیتے۔ رات بھر ذکر و تلاوت کرتے رہتے، بمشکل ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہی آرام کرتے۔ ہم سب بھائیوں کو جمع کرکے فرمایا: ہمیشہ دینی خدمت میں مصروف رہنا۔ اپنے مدرسہ اور مسجد کو کبھی نہ چھوڑنا۔ یہ بھی فرمایا کہ میں نے اللہ تعالی سے سنت عمر مانگی ہے۔ اپنے تمام بیٹوں کو دینی کاموں میں مصروف دیکھ کر بہت خوش اور مطمئن ہوتے تھے۔ کئی برس سے شوگر کے مریض تھے ۔ اب گردوں نے بھی کام چھوڑ دیا مگر اللہ نے انہیں ایسی ہمت دی کہ سخت کمزوری اور مسلسل بے ہوشی کے باوجود ہم نے انکی زبان سے ” ہائے ” نہیں سنی ۔ جب ہوش آتا سب کا حال چال پوچھتے، مسکراتے اور گپ شپ لگاتے۔ گھر کے ہر ہر معاملے کو اتنا واضح کرگئے کہ کوئی ابہام، کوئی سوال نہیں چھوڑ گئے۔ کئی بار فرماتے کہ میرا دل کرتا ہے ایک سیکنڈ کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلوں۔ آپ کا ہشاش بشاش چہرہ اور کھلی کھلی طبیعت دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ آپ اس قدر جلدی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔ مگر آپ کو اللہ سے ملاقات کا شوق تھا۔ پیر کی صبح ڈائلسز کے لیے بہاولپور ہسپتال منتقل ہوئے۔ وہاں تمام ٹیسٹ اور رپورٹس نارمل رہیں۔ منگل 8 دسمبر کو شام پانچ بجے آپ کے ڈائلسز ہونے تھے۔ مگر اس سے پانچ منٹ پہلے ہی والد محترم مولانا عبیداللہ رحمہ اللہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
تیرہ و تار تھی پہلے ہی یہاں شام حیات
دامن چرخ سے ایک اور ستارہ ٹوٹا
آپ کا جنازہ وہاڑی کے تاریخی جنازوں میں سے تھا۔ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے ملک کے طول و عرض سے اتنے لوگ جمع ہوگئے کہ یقین نہیں آتا۔ میڈیائی چکاچوند سے دور بندہ خدا کو اللہ تعالی نے کتنے ہی دلوں کی دھڑکن بنا رکھا تھا۔ ان کی یادیں، ان کی باتیں، ان کی زندگی کا ایک ایک ورق یاد آتا رہے گا اور اپنی خوشبو سے دل و جان کو معطر کرتا رہے گا۔ اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے بھردے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو ان کی برکتوں سے محروم نہ فرمائے۔ آمین ثم آمین