- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مصیبت پر صبر کے خوش گوار نتائج

انسان پر مشکل حالات، پریشانیاں اور مصائب آتے ہیں، کبھی بیماری کی شکل میں، کبھی تنگدستی اور معاشی الجھن کی شکل میں اور کبھی اہل خانہ اور آل و اولاد کے دکھ اور اذیت کی شکل میں پریشانی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، مصیبت ہلکی ہو یا سنگین، ایک مومن کو اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ صبر کا راستہ اپنائے، مصیبت سے گھبرا جانا، صدمہ کی شدت میں شریعت کا حکم چھوڑ دینا مومن کی شان نہیں ہے، کلام پاک میں اہل ایمان کو صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس حقیقت کا اظہار بھی کہ جو لوگ مشکل حالات میں صبر کرتے ہیں۔ اللہ کی مرضی پر راضی رہتے ہیں، اللہ تعالی کی خاص مدد ان کے ساتھ ہے (ان اللہ مع الصبرین) (سورہ بقرہ: آیت/153) اسی کے ساتھ ساتھ صبر کرنے والوں کے لیے آخرت میں بے حساب اجر کا وعدہ بھی کیا گیا (انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب) (سورہ زمر: آیت/10) ان دونوں آیات پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مشکل حالات میں صبر دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا ذریعہ ہے کہ صبر کرنے والوں کو دنیا میں خدا تعالی کا ساتھ ملتا ہے اور آخرت میں پاک پروردگار کی طرف سے بے شمار اجر و ثواب ملے گا۔
صبر کے خوشگوار نتائج پر انسان غور کرے اور خدا تعالی کے سچے وعدوں پر یقین کامل ہو تو مشکلات اور پریشانیاں اس کے لیے رنج و الم کا ذریعہ نہیں بنیں گی، وہ یہ سوچے گا کہ ان مصائب پر صبر کرنا دنیاوی کاموں کو بنانے سنوارنے کا ذریعہ ہوگا، اور آخرت میں مجھے ایسی نعمتیں اس کے بدلہ میں ملیں گی جن کے آگے اس تھوڑی سی پریشانی اور مصیبت کی کوئی حقیقت نہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا ایک خوبصورت اور سبق آموز قول ہے جس سے ان کے علم کی گہرائی اور یقین و ایمان کی پختگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور مشکلات پر صبر کا حوصلہ بھی ملتا ہے ارشاد فرمایا: جب کبھی مجھ پر مصیبت آتی ہے تو اس میں مَیں خدا تعالی کی چار نعمتیں پاتا ہوں۔
(۱) مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مصیبت دنیا سے متعلق ہے میرا دین تو محفوظ ہے۔
(۲) یہ خیال آتا ہے کہ اس سے بڑی مصیبت بھی تو آسکتی تھی۔
(۳) یہ مصیبت کوئی ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے میں اللہ کی رضا سے محروم ہوجاؤں (بلکہ میں اس پر صبر کروں گا تو اللہ کی زیادہ رحمت اور رضامندی ملے گی۔)
(۴) مجھے اس مصیبت پر اللہ سے بڑے اجر کی امیدیں ہے۔
اس لیے اہل ایمان کو مصائب سے دلبرداشتہ، شکست حوصلہ، اور مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ صبر کے ساتھ راضی بہ رضا رہتے ہوئے مشکل وقت گزار لینا چاہئے۔ ایک حدیث شریف میں بڑی اہم بات ارشاد فرمائی مومن کا تو سارا معاملہ ہی عجیب ہے، اگر اس کو کوئی بھلائی پہونچتی ہے تو وہ شکر کی راہ پر چلتا ہے اور اگر کوئی مصیبت اس پر آتی ہے تو صبر کرتا ہے اور ان دونوں میں اس کے لیے اجر ہے۔
صبر کے مقابلے میں بے صبری ہے، بہت سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں صبر کی راہ اپنانے کے بجائے بے صبری اور شکوہ شکایت کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں، کچھ وہ بھی ہیں جو شریعت کے احکامات اور نبوی ارشادات کو نظر انداز کرکے اپنے طور پر مشکل کو آسان کرنے کی تدبیریں کرتے ہیں، حالانکہ مصائب کا علاج صبر اور مناسبت بر وقت اور پر حکمت تدبیر ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں، بے صبری اور احکام شریعت سے انحراف معاملات کے مزید بگاڑ کا ذریعہ ہے بناؤ کا نہیں، مولانا روم رحمہ اللہ نے ایک دلچسپ مثال اپنی مثنوی میں دی ہے:
کس بہ زیر دم خر خارے نہد۔۔۔ خر نہ داند دفع اور بر می جہد
ایک آدمی کسی گدھے کی دم کے نیچے کانٹا چبھا دیتا ہے، گدھا کانٹے نکالنے کی تدبیر سے چونکہ ناواقف ہے اس لیے کودتا ہے، پھاندتا ہے۔
می جہد آں خار محکم تر زند۔۔۔ عاقلے باید کہ آن خارش کند
کودتا پھاندتا ہے اور کانٹا اور زیادہ مضبوطی سے چبھتا چلا جاتا ہے یہاں ضرورت کسی عقل والے کی ہے جو اس کانٹے کو اس کے اندر سے نکال دے۔
خر زبہر دفع خار از سوز و درد۔۔۔ جفتہ می انداخت صد جا زخم کرد
گدھا کانٹے کو نکالنے کے لیے مارے جلن اور درد کے رگڑوں پر رگڑنے لگا کر سینکڑوں جگہ زخم پیدا کرلیتا ہے۔
عقلمند انسان اور اچھا مومن ہے وہ جو حالات کی سختی میں خدا تعالی کو یاد رکھتا ہے، اور صبر کی راہ اپنا کر خدا کے قریب ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں مصیبت بھی دور ہوجاتی ہے اور اجر بھی ملتا ہے اور نادان ہے وہ انسان جو مصائب کے وقت بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور دنیا و آخرت دونوں کا نقصان اٹھاتا ہے۔