- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بھارت میں حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کی ‘نسل کشی’ کا خدشہ

عالمی سطح پر نسل کشی سے متعلق تحقیق کرنے والے ماہرین نے بھارت میں موجودہ حکومت کی سرپرستی میں 20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کو توجہ دینے پر زور دیا ہے۔
امریکا میں بھارتی مسلمانوں کی کونسل کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘نسل کشی کے 10 مراحل اور بھارتی مسلمان’ کے موضوع پر ایک مباحثہ ہوا جس میں شرکا نے نہ صرف بھارتی حکومت پر پابندیوں پر زور دیا بلکہ اس کو بےنقاب کرتے ہوئے عالمی برادری سے انسانیت کے خلاف جرائم روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انڈین امریکن مسلم کونسل کے مطابق جینوسائیڈ واچ کے بانی صدر ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کا کہنا تھا کہ ‘بھارت میں نسل کشی کی تیاری مکمل طور پر جاری ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آسام اور کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم نسل کشی سے پہلے کا مرحلہ ہے، اگلا مرحلہ قتل ہے، جس کو ہم نسل کشی کہتے ہیں’۔
اعلامیے کے مطابق ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے 1990 کی دہائی میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دی تھیں اور اس وقت انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں تیار کی تھی جس پر روانڈا کے لیے انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل قائم کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت میں انسانیت کے خلاف جرائم منظم انداز میں جاری ہیں، بابری مسجد شہید کرکے وہاں مندر کی تعمیر نسل کشی کے لیے ثقافتی شناخت مٹانے کی جانب اہم قدم ہے’۔
دہلی میں پولیس کی جانب سے مسلمانوں کی گرفتاریوں اور ان کے قتل کا الزام بھی انہیں پر عائد کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے ڈٓاکٹر گریگوری نے کہا کہ اس ظلم سے انکار نسل کشی کا آخری مرحلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انکار کسی بھی نسل کشی کا آخری مرحلہ ہوتا ہے، جس کا آغاز دراصل ابتدا میں ہی ہوتا ہے اور ہر طرح سے آخر تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد تک جاتا ہے اور یہی کچھ مسلمانوں پر ہو رہا ہے کیونکہ کوئی بھییقین کرسکتا ہے کہ وہ خود کو قتل کر رہے ہیں، مجھے اس پر یقین نہیں ہے اور میرے خیال میں کسی کو بھی اس پر یقین نہیں ہونا چاہیے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن تیستا سیٹالویڈ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف مظالم سے ان کی معاشی اور معاشرتی حالات دگرگوں ہے اور ساتھ ہی ان کے خلاف نفرت انگیزی بھی جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حالات ممکنہ نسلی کشی کی عکاسی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عمر خالد کے والد اور مسلمان سیاست دان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کا کہنا تھا کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیا ناتھ کو مسلمانوں کے دشمن کے طور پر جانا جاتا ہے۔
گجرات کے وزیراعلیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یوگی ادیتیا ناتھ مسلمانوں کے قتل عام، غیر قانونی گرفتاریوں اور بدنام کرنے کا مرکزی منصوبہ ساز ہے۔
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ‘کیا ایسا ملک جو دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرے وہ اپنی 14 فیصد آبادی کو جبر و تشدد کی جانب دھکیل سکتا ہے اور انہیں بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم کر سکتا ہے’۔
ایڈنبرگ یونیورسٹی کی محقق ڈاکٹر ریتمبرا مینووی بھی مباحثے میں شامل تھیں جنہوں نے آسام میں بنائے گئے شہریت قانون پر تحقیق کر رکھی ہے جہاں وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے متنازع انداز میں 20 لاکھ سے زائد شہریوں کو غیر ملکی قرار دیا ہے۔
انڈین امریکن مسلم کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رشید احمد نے فروری 2020 میں دہلی میں مسلم کش فسادات پر امریکی حکومت کی خاموشی پر تنقید کی جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورے کے موقع پر پریس کانفرنس بھی کی تھی۔
یاد رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 سے مظاہرے کیے جا رہے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورہ بھارت کے دوران 24 فروری کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اچانک یہ مظاہرے مذہبی فسادات کی شکل اختیار کر گئے تھے۔
مذہبی فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ہزاروں افراد نے نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کیا جہاں ان پر اچانک انتہا پسند اور شرپسند افراد نے حملہ کردیا جس کی وجہ سے مظاہرے مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے۔
ان فسادات کے دوران کم از کم 53 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جبکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی کو بڑی تعداد میں نشانہ گیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اگر پولیس اپنا فرض ادا کرتی تو مشتعل افراد بچ نہیں سکتے تھے’۔
بعد ازاں جولائی میں بھارت کے اقلیتی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ نئی دہلی میں رواں برس کے اوائل میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران مسلمانوں کے قتل و غارت اور املاک کو نقصان پہنچانے میں پولیس بھی شامل رہی تھی۔
ڈی ایم سی نے کہا تھا کہ رواں برس فروری میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے موقع پر شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو ہدف بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 11 مساجد، 5 مدارس، مسلمانوں کی ایک درگاہ اور قبرستان پر حملہ کیا گیا اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔