- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

نامور محدث و محقق مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی انتقال کرگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون

کراچی: جامعۃ الرشید کے استاد الحدیث اور سرپرست، جامعہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصص فی الحدیث کے سربراہ مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی خالق حقیقی سے جاملے، مرحوم ایک عرصہ سے بیمار تھے، کراچی کے نجی ہسپتال میں خالق حقیقی سے جاملے، مرحوم کی نماز جنازہ دو بار پڑھائی گئی، پہلی نماز جنازہ جامعۃ الرشید میں جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد کی اقتدا میں ادا کی گئی، جبکہ دوسری نماز جنازہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں ان کے بیٹے ڈاکٹر حافظ محمد ثانی نے پڑھائی، جس میں ان کے شاگردوں، متعلقین، علماء و طلبہ سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ بعد از اں ان کو کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
مرحوم نے 94 برس عمر پائی۔ مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی نعمانی 16 اپریل 1929ء کو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام جے پور میں اور حیدر آباد دکن مدرسہ نظامیہ میں حاصل کی۔ 1943ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1947ء تک وہاں پڑھا۔ 1947ء میں پاکستان آئے اور دوبارہ 1948ء میں دیوبند جا کر دورہ حدیث مکمل کرکے 1949ء واپس پاکستان آگئے۔ 1970ء میں ایم اے کیا، 1981ء میں پی ایچ ڈی کیا اور پاکستان کے پہلے لائبریری سائنس ڈاکٹر کا اعزاز حاصل کیا۔
آپ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد اور معروف محقق و محدث مولانا عبدالرشید نعمانی کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ سے اجازت حدیث حاصل کرنے والوں میں پاکستان، سری لنکا، بنگادیش، مصر، ملائیشیا، ترکی، عراق، ایران، سعودی عرب، افریقہ کے متعدد ممالک، آسٹریلیا، امریکا و دیگر ممالک کے علما، استاذہ اور شیوخِ حدیث شامل ہیں، جن کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچتی ہے۔ آپ نے شیخ الاسلام مولانا سید محمد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں کے سلسلے کی نسبت سے چشتی کہلواتے تھے۔ آپ کے خلفاء میں مولانا محمد عبدالغفار مہاجر مدنی، مولانا عبدالمجید جامی، مفتی محمد نوید ظفر الحسینی، شیخ الحدیث مولانا محمد عبدالرحمن جمالی، قاری شبیراحمد مدنی، قاری عبدالکریم رحیمی، شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم، شیخ الحدیث مولانا محمدنواز سیال، شیخ الحدیث مولانا قاری محمد ادریس ہوشیار پوری، مولانا محمد مجاہد الحسینی، شیخ الحدیث مولانا زبیراحمد صدیقی (شجاع آباد)، شیخ الحدیث و التفسیر مولانا منظور احمد نعمانی، شیخ الحدیث مفتی محمد حسن، مولانا صاحبزادہ عزیزالرحمن رحمانی، ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن، ڈاکٹر محمد عبدالشکور عظیم، ڈاکٹر محمد شعیب اختر، ڈاکٹر فدا محمد، الحاج احمد ابراہیم سیدات و دیگر شامل ہیں۔ آپ سے اللہ تعالی نے جہاں تصوف و سلوک، تصنیف تالیف اور تحقیق کے میدان میں خدمات لیں وہیں اللہ تعالی نے تدریسی خدمات میں بھی آپ کو وافر حصہ عطا فرمایا اور تصنیفی و تحقیقی خدمات کی طرح تدریسی خدمات نے بھی اہل علم سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔ زیادہ عرصہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں گزرا جہاں وہ تا دم آخر شعبہ تخصص فی الحدیث کے سربراہ رہے۔ اسی طرح جامعۃ الرشید میں بھی آخر تک استادالحدیث رہے۔
اسلامی کتب خانے، تذکرہ رحیمی، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کی فقہی تربیت اور مکی زندگی میں اقرا و علم بالقلم کے ثقافتی جلوے سمیت متعدد تحقیقی کتابیں اور بے شمار تحقیقی مقالے لکھے۔ اس کے علاوہ آپ نے کئی عربی متون پر تحقیقی کام کیا، حواشی اور مقدمے لکھے اور کئی نایاب کتابوں کو ایڈٹ کرکے از سر نو منظر عام پر لائے۔ کئی اکابر و اسلاف پر برصغیر کے اہم ادبی اور تحقیقی مجلات میں آپ نے سوانحی خاکے بھی لکھے۔ آپ کے ذاتی کتب خانے میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی، تفسیر، حدیث، اسماء الرجال، مصطلحات حدیث، اسلامی تاریخ، تذکرہ، سیرت اور دیگر موضوعات پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں، جسے آپ نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے نام وقف کردیا۔
آپ نے نائیجیریا، ایران، ترکی، لندن، ثمرقند و بخارا کا علمی سفر کیا۔ آپ نے دو نکاح کیے۔ پہلا 1939ء میں اور دوسرا 1953ء میں، پہلی اہلیہ کا جلد انتقال ہوگیا۔ آپ کثیر الاولاد تھے، اللہ نے آپ کو 13 بیٹے بیٹیوں سے نوازا۔