- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

دین پر استقامت کی وجہ سے صحابہؓ کو اونچا مقام ملا

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ (پچیس ستمبر دوہزار بیس) میں دین پر استقامت اور ثابت قدمی کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی نیک نامی کی اصل وجہ یاد کرتے ہوئے سب کو دین و شریعت پر عمل کرنے کی نصیحت کی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سورت فصلت کی آیات 30-33 کی تلاوت کے بعد فرمایا: جو لوگ دین پر استقامت دکھاتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں بشارت دے کر خوشخبری سنائی ہے۔ صحابہ جن کو جنت کی بشارت ملی تھی، دین پر چنان ثابت قدم تھے کہ دنیا کی کسی بھی طاقت انہیں دین کی راہ سے نہ نکال سکی۔
انہوں نے مزید کہا: دین پر استقامت، دین کی نصرت اور اللہ کی خاطر ہجرت نے صحابہ کو خوشنام کرکے اللہ کی رضامندی کی سعادت سے انہیں سرافراز کیا۔ صحابہ کی ہجرت اپنی ذات بچانے کے لیے نہیں تھی، ان کا مقصد اللہ کی عبادت بہتر طریقے سے کرنا تھا تاکہ اللہ کے دین اور رسول برحقﷺ کو نصرت کرکے دنیا میں اسلام کو پھیلائیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: صحابہؓ دین کی نصرت کے لیے میدان میں اترے اور یہی چیز اللہ کے یہاں قیمتی تھی۔ انہوں نے اپنا سب کچھ اسلام اور رسول اللہﷺ پر قربان کیا، ہر طاقت کے سامنے ڈٹے رہے اور لڑنے کے لیے تیار تاکہ نبی کریم ﷺ اپنا مشن جاری رکھ سکیں اور دنیاوالوں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ رب العزت نے مہاجر صحابہ کی ہجرت کو اپنے دین کی نصرت اور رضامندی کی راہ میں قرار دیا ہے۔ چنانچہ سورت الحشر کی آیت نمبر آٹھ میں آیاہے:”وہ مال وطن چھوڑنے والے مفلسوں کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے، اللہ کا فضل اس کی رضامندی چاہتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی سچے (مسلمان) ہیں۔“ انصار نے بھی مہاجرین کی مدد کی اور اپنی زندگی ان کے اختیار میں رکھ کر اپنے مال اور جائیداد ان میں تقسیم کیا۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: صحابہؓ نبی کریمﷺ کے جان نثار و فدائی تھے، وہ ایسے مرشد و مربی کے شاگرد تھے جس کی توجہ سے پتھر گوہر بن جاتے اور مٹی سونا بن جاتی۔ وہ سب لوگ جنہوں نے آپﷺ کو زیارت کرکے ایمان لایا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے، سب اللہ کے محبوب بن گئے۔
انہوں نے کہا: آپﷺ کا زمانہ بہترین زمانہ تھا جس طرح آپﷺ کا ارشاد ہے: خیرالقرون قرنی۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو صحابہ کرام ؓ کی اتباع اور نبی کریمﷺ کے انفاس اور ان سب کی استقامت علی الدین کی وجہ سے ایسا اونچا مقام حاصل ہوگیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: دنیا کی محبت انسان کو بزدل بناتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔ صحابہ کرامؓ اللہ سے محبت کرتے تھے اور دنیا کی محبت سے دور تھے۔ جب غنائم ان کے ہاتھ آتے، انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے۔ دین کے دفاع، اسلام کی خدمت اور حفاظت کے راستے میں وہ ثابت قدم رہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہترین شریعت، کتاب اور رہ نما عطا فرمایاہے۔ سابقہ مذاہب اور آسمانی کتابوں کی سب اچھائیوں کو اسلام اور قرآن میں جمع کیا ہے۔ ہمیں ان کی قدر کرنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر انسان، ایمان کو چھوڑ کر کسی اور چیز کو طلب کرے، وہ خوار و ذلیل ہوجائے گا۔ لہذا نفس امارہ اور دنیا کا دھوکہ مت کھائیں۔ نمازوں کے حوالے سے پابندی دکھائیں، مال کی زکات اچھی طرح شمار کرکے ادا کریں، اللہ سے اپنا تعلق ٹھیک کریں اور دنیا سے گزر کر اپنا دین بچائیں اور اسی پر عمل کریں۔

امتیازی سلوک بہت بڑی ناانصافی ہے
اہل سنت ایران کے اعلی دینی و سماجی رہ نما نے زاہدان کے مرکزی اجتماع برائے نماز جمعہ کے حاضرین سے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں برابری اور انصاف کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایران کی متعدد مذہبی و لسانی برادریوں میں مساوات و برابری پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: قومی اور صوبائی اداروں کے سربراہان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ مختلف برادریوں میں مساوات کا خیال رکھیں اور کسی مخصوص مسلک یا قومیت کو دوسروں پر ترجیح نہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا: نفاذِ عدل انتہائی اہم ہے؛ سب کو یکساں حقوق فراہم ہونا چاہیے۔ کسی بھی برادری یا فرد کے ساتھ امتیازی رویہ اپنانا ایک بڑی خیانت اور غداری ہے۔ آئین کے مطابق سب ایرانیوں کو یکسان حقوق حاصل ہیں۔ مرشدِ اعلی کی رائے بھی یہی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے سوال اٹھایا: جو لوگ امتیازی سلوک اور جانبداری سے کام لیتے ہیں وہ کس قانون کی پیروی کرتے ہیں؟ وہ کس کی بات مانتے ہیں؟
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: جو لوگ اپنی ہی پارٹی اور برادری کے لیے جانبدارانہ رویہ اپناکر دوسروں کے حقوق ضائع کرتے ہیں، انہیں چاہیے اپنے اعمال اور افکار میں نظرِ ثانی کریں۔ ایسے رویے ملک و ملت کے ساتھ غداری ہیں۔ دراصل ایسے لوگ قوم کی خدمت کا حقدار بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: سب ایرانیوں کو خدمت کا موقع فراہم ہونا چاہیے۔ کسی مخصوص فرقے کو دوسروں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ یہ بات ایک دردمند اور خیرخواہ شہری کی حیثیت سے کہتاہوں تاکہ ملک میں پائیدار امن اور اتحاد قائم رہے۔ پائیدار امن اور اتحاد کا واحد راستہ امتیازی پالیسیوں کی بیخ کنی ہے۔
صوبہ سیستان بلوچستان میں بسنے والے لوگوں میں مساوات سے کام لینے پر زور دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان میں بلوچ عوام کو ان کے جائز حقوق ملنا چاہیے۔ انہیں دیگر لوگوں کی طرح سرکاری عہدوں اور اداروں میں شامل کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: سرکاری افسروں اور اداروں کے امتیازی رویوں کے بارے میں مجھے متعدد شکایتیں موصول ہوچکی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ امتیازی سلوک کس طرح بعض لوگوں کے لیے عادت بن چکی ہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں نامور سنی عالم دین نے ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ کی مناسبت سے منائی جانے والی ’مقدس دفاع‘ کی سالگرہ کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے واضح کیا: آٹھ سالہ جنگ میں ایران کی مختلف برادریوں نے حصہ لے کر اپنے ملک کا دفاع کیا۔ مختلف مسالک و مذاہب اور قومیتوں کے لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا اور اتحاد کے ساتھ اپنے ملک کا دفاع کیا۔