- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سانحہء کربلا تاریخ کے سب سے زیادہ تلخ واقعات میں شمار ہوتاہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے اٹھائیس اگست دوہزار بیس کے خطبہ جمعہ میں سانحہء کربلا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو تاریخ کے سب سے زیادہ تلخ اور افسوسناک واقعات میں یاد کرتے ہوئے اہل بیت کی عملی سیرت کی پیروی پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: جب کوفیوں نے حضرت حسین ؓ کو متعدد خطوط لکھ کر اپنے پاس بلایا اور حکام وقت کی نالائقی کا شکوہ کیا کہ یہ لوگوں کی بات نہیں سنتے اور نصیحت پر کان دھرنے والے نہیں ہیں، آپؓ نے ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کوفہ کی جانب نکل پڑے۔
انہوں نے مزید کہا: حضرت حسینؓ کو دعوت دینے والے ہی افراد نے دنیا کی لالچ اور خوف کی وجہ سے بدعہدی کرتے ہوئے لشکرِ یزید میں شامل ہوئے اور امام حسینؓ کے خلاف میدان میں نکلے۔ حالانکہ آپؓ لڑنے کے لیے نہیں نکلے تھے؛ اگر لڑنے کے لیے نکلتے، بچوں اور عورتوں کے بجائے، مکہ و مدینہ سمیت دیگر شہروں سے ہزاروں افراد ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: صحرائے کربلا میں یزید کے فوجیوں نے حضرت حسینؓ کو روکا اور انہیں قیدی بناکر یزید کے پاس لے جانے پر مُصر تھے۔ لیکن حضرت حسینؓ نے واضح کیا کہ لڑائی کے لیے نہیں آیاہے۔ انہیں واپس مدینہ جانے سے بھی روک دیا گیا، آپؓ نے اسارت کی ذلت بھی نہیں مانی اور لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ چنانچہ آپؓ اپنے ساتھیوں سمیت لڑتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: سانحہء کربلا دنیا کے سب سے زیادہ تلخ اور چونکادینے والے واقعات میں شمار ہوتاہے۔ تاریخ میں متعدد جنگیں ہوئی ہیں اور بہت سارے علما و صلحا اور اولیاء اللہ شہید ہوچکے ہیں، لیکن حضرت حسین ؓ کی شہادت دنیا میں کم نظیر ہے۔ اس حادثے میں نواسہء رسول ﷺ شہید ہوئے؛ وہ شخص جس سے آپﷺ کو بہت محبت تھی۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا: اہل بیتؓ سے محبت اہل سنت کے عقائد و ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سب اظہارِ محبت کے علاوہ، اہل بیتؓ کی سیرت سے پیروی و اتباع کیا کریں۔ حضرت حسین اور اہل بیتؓ اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے، تہجدخواں تھے، غریبوں کی مدد کرتے تھے، ظلم و جور سے مقابلہ کرتے تھے۔

بوقتِ مصیبت قرآن وسنت نے ’صبر‘ کا حکم دیاہے/مسلمان ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں مصائب کے موقع پر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صبر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: قرآن و سنت کا حکم ہے کہ مصیبت کے موقع پر صبر کا دامن تھام لیں اور اللہ کو یاد کریں۔ اہل سنت محرم میں کالے کپڑے نہیں پہنتے اور ماتم نہیں کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سانحہء کربلا کے واقعے پر انہیں کوئی دُکھ نہیں؛ بلکہ کالا کپڑا پہننا اور مجلس عزا بپا کرنا ہماری فقہ اور عقیدہ میں سرے سے ہے نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہر کوئی اپنے عقیدہ اور فقہ کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہے۔ اگر ہم میدان کربلا میں ہوتے، ضرور امام حسینؓ کے شانہ بہ شانہ لڑتے اور ان کے ساتھ شہادت کی سعادت حاصل کرنا ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ کاش ہمیں حاصل ہوتی۔
ایران کے نامور سنی عالم دین نے کہا: سب مسلمانوں کو میری نصیحت ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور مشترکہ امور پر توجہ کرکے بھائی چارہ کا خیال رکھیں۔ شیعہ و سنی کو چاہیے ایک دوسرے کا احترام اور اپنے بزرگوں اور مقدسات کا احترام کریں۔ دشمن کی ہمیشہ کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اسی راستے سے اپنے مفادات کو یقینی بنائیں۔
ماہ محرم خاص طورپر تاسوعا اور عاشورا میں روزہ رکھنے کی فضیلت کا تذکرہ کرتے ہوئے نمازیوں کو ان دنوں میں روزہ رکھنے کی تلقین کی۔

مجاہدہ کے بغیر جنت کی نعمتیں حاصل نہیں ہوسکتیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان میں اللہ کی راہ میں مجاہدہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے سب انسانوں کو اپنی راہ میں مجاہدہ و محنت اور احکامِ شریعت کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ اللہ کی رضامندی اور جنت کی نعمتیں مجاہدہ ہی سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہرچند نفس کی اصل خصوصیت یہی ہے کہ وہ امارہ بالسوء ہے اور انسان کو ہر قسم کے گناہوں کی دعوت دیتاہے، لیکن یہ نفس قابلِ اصلاح و تزکیہ ہے۔ نفس کی اصلاح کا واحد راستہ مجاہدہ ہے۔ پوری زندگی میں انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد میں مصروف رہے۔ نفس و شیطان سے جہاد پوری زندگی میں جاری رہتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جو افراد خواہشات اور شیطانی وساوس کا مقابلہ کرتے ہیں، انہیں ایمان کی لذت و حلاوت محسوس ہوگی اور اللہ تعالی انہیں شرحِ صدر عطا فرماتاہے۔ جنت محض تمنا سے حاصل نہیں ہوسکتی، اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ بہترین مجاہدہ وہی ہے جو اللہ کی خاطر ہو۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: کورونا کے پھیلاؤ کچھ لوگوں کے لیے سستی کا بہانہ بن چکاہے اور وہ مسجد نہیں جاتے ہیں۔ الحمدللہ آج کل اللہ کے فضل و کرم سے یہ بیماری کمزور ہوچکی ہے اور بظاہر ختم ہونے والی ہے۔جس طرح بازاروں اور کاروبار کو پوری طرح بند نہیں کیاجاسکتا، مساجد اور باجماعت نماز کو بھی بند نہیں کرنا چاہیے۔ نمازی حفظانِ صحت کا خیال رکھتے ہوئے مساجد میں نماز کے لیے حاضر ہوجائیں۔
اسکولوں اور مدارس کے اسباق اور نئے تعلیمی سال کے آغاز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے حاضرین سے کہا اپنے بچوں کو اسکول بھیج دیں۔ تعلیمی اداروں کے ذمہ داران بھی صحت کا خاص خیال رکھیں۔