- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ایران سمیت تمام مسلم ممالک چین کیخلاف کھلم کھلا احتجاج کریں

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے چین میں رہنے والے اویغور مسلمانوں کے حالتِ زار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایران سمیت تمام مسلم ممالک اور حریت پسند اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ کھلم کھلا چین کے خلاف احتجاج کریں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے چودہ اگست دوہزار بیس کے خطبہ جمعہ میں کہا: مشرقی ترکستان (صوبہ سینکیانگ) چین میں اویغور مسلمانوں سمیت دیگر مسلم قومیتوں پر ظلم و ستم ہورہاہے۔
انہوں نے زاہدانی نمازیوں سے خطاب کے دوران کہا: ہمارا خیال تھا چینی حکومت کورونا وائرس سے سبق حاصل کرے گی جو اسی ملک سے پھیل گیا اور پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آئی، لیکن افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں ڈر ہے کہیں اللہ تعالی کورونا وائرس سے بڑھ کر کوئی وبا اور آفت چینی لوگوں پر مسلط نہ کرے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: مظلوم و نہتے لوگوں کو قتل کرنا آفتوں کو لانے والی حرکت اور جرم ہے۔ مشرق وسطی سمیت متعدد ملکوں میں قتل و خون ریزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مظلوم انسان چاہے مسلمان ہو یا غیرمسلم، اس سے فرق نہیں پڑتاہے؛ اللہ تعالی ظلم اور قتل ناحق سے ناراض ہوتاہے۔ کفر و شرک اور خدا کے وجود کا انکار بڑے گناہ ہیں جو بکثرت چین میں پائے جاتے ہیں، ان کے بعد سب سے بڑا گناہ قتل اور ظلم ہے۔
نامور سنی عالم دین نے کہا: زبان ان مظالم کے بیان سے قاصر ہے جو چینی حکومت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہی ہے اور آئے دن ان کی رپورٹس میڈیا میں شائع ہوتی ہیں۔ چین میں مسلم بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرکے مخصوص کیمپوں میں انہیں جبری تعلیم دی جاتی ہے تاکہ انہیں ان کے دینی و مذہبی عقائد اور ثقافت و زبان سے بیگانہ کریں۔ دنیا کے کسی بھی علاقے میں ایسا ظلم نہیں پایا جاتاہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: خواتین کو کیوں الگ کیا جاتاہے اور انہیں مخصوص کیمپوں میں رکھ کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتاہے؟!کیا ان کا جرم ان کے دین، قومیت، مخصوص زبان اور اسلام کی جانب جھکاؤ ہے؟ ان لوگوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس طرح بے دردی سے قتل کیا جاتاہے اور انہیں مشق ستم بنایاجاتاہے؟
مولانا عبدالحمید نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ہمارے لیے مظلوم کی حمایت اہم ہے۔ ظلم کسی بھی شخص اور کسی بھی علاقے میں ہو، ہماری نظر سے وہ مردود اور مذموم ہے۔ ظلم کے بارے میں خاموشی اختیار نہیں کریں گے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اگر چینی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران ان کا دوسرا ملک ہے، وہ پوری طرح غلطی پر ہیں؛ ایران سمیت تمام مسلم ممالک اس وقت چینیوں کے دوسرے گھر شمار ہوں گے جب چین مسلمانوں کے خلاف ظلم سے بازآئے گا۔ آج کی دنیا میں ظلم و ستم کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ظلم کرنا چینی حکومت اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ جو قومیں دوسروں پر ظلم کرتی ہیں، دنیا میں ان سے نفرت ہوتی ہے۔ چین مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہ کرے کہ جب مسلمان کسی چینی کو اپنے ملک میں دیکھیں، ان کے منفی جذبات ابھریں۔
شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان کے چیئرمین نے کہا: اب ہمارے حکام چین سے طویل المیعاد معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، ہرچند ایرانی قوم کو اس معاہدے کی تفصیلات معلوم نہیں اور مستقبل کے بارے میں پریشانیاں پائی جاتی ہیں، پھر بھی حکام سے چاہتے ہیں کہ ہر حال میں اسلامی اصول اور دینی عقائد کو مدنظر رکھیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے دینی و اسلامی عقائد کا حکم ہے کہ معاشی و اقتصادی مفادات کی خاطر اپنے اسلامی اصول سے چشم پوشی نہ کریں؛ اسلامی اصول کا سبق یہی ہے کہ ظلم اور ظالموں کے خلاف احتجاج کریں؛ چاہے یہ ظالم امریکا و اسرائیل ہو یا چین اور دیگر ممالک؛ سب کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ ایران سمیت تمام مسلم ممالک اور حریت پسند قومیں کھلم کھلا چین کے خلاف آواز اٹھائیں جو مسلمانوں پر ظلم کررہاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ایرانی حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ ایک آزاد اور ظلم سے بیزار قوم کی نمائندگی کررہی ہے جو ظلم ہی کے خلاف انقلاب کرچکی ہے۔ جب ہمارے حکام چینی حکام سے ملاقات کرتے ہیں اور معاہدہ دستخط کرتے ہیں، انہیں مسلمانوں کے خلاف چینی مظالم کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے؛ چینیوں سے کہہ دینا چاہیے کہ ظلم ناپائیدار اور ان کے اپنے ہی مفادات کے خلاف ہے۔

چین سے منعقد معاہدوں کے بارے میں عوام میں تشویش پائی جاتی ہے
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے چین سے معاہدے منعقد کرنے کے حوالے سے عوامی تشویش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دقت نظر اور سب پہلووں کو مدنظر رکھنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا: چین سے جو معاہدے طے پاتے ہیں ان میں دقت اور سب پہلووں کو جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ ہمارے لوگ خاص کر ساحلی علاقوں میں رہنے والے افراد اس حوالے سے پریشان ہیں، ان کی معیشت کا دارومدار سمندر اور پورٹس پر ہے۔
مولانا نے مزید کہا: ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جو سمندر میں کام کرنے کے علاوہ ان کی کوئی آمدنی اور ذریعہ معاش نہیں ہے۔ میں کھلا کہتاہوں کہ ہماری سرزمین کے سب سے قیمتی حصہ ہمارے سمندر ہیں۔ ملکی معیشت کا بڑا حصہ سمندری راستوں سے حاصل ہوتی ہے اور اس بارے میں حکام کو چاہیے خوب سوچیں۔

ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت سے پرہیز کریں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں اختلافی مسائل کو ہائی لائٹ کرنے اور دوسروں کو اپنے ہی مسلک کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا:امت مسلمہ کے اتحاد کا تقاضا ہے کہ ہم مشترکہ امور پر توجہ دیں اور اختلافی مسائل کو چھیڑنے سے گریز کریں۔ ہر مسلک اپنے ہی اصول کے مطابق عمل کرے؛ نماز شیعہ و سنی میں مشترک ہے، لیکن شیعہ حضرات ہاتھ کھلے رکھ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم ہاتھ باندھ کر۔ لیکن ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ دیگر مسالک کے لوگ ہماری ہی طرح نماز ادا کریں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: اہل بیت رضی اللہ عنہم شیعہ و سنی کے مشترکات میں شمار ہوتے ہیں۔ سیدنا علی، حسن، حسین، فاطمہ اور دیگر اہل بیت کی محبت ہمارے دلوں میں ہے، لیکن اہل سنت کہ فقہ میں مجلس عزا بپا کرنا اور برسی و سالگرہ منانا نہیں ہے؛ لہذا شیعہ حضرات ہم سے توقع نہ رکھیں کہ ہم ان کی طرح ماتم کریں۔حادثہ کربلا پر سب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہیں، لیکن ہر مسلک کا اپنا طریقہ ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتاہے کس کا طریقہ و شاکلہ بہتر اور ہدایت کے مطابق ہے۔
انہوں نے کہا: واقعہ غدیر سے اہل سنت کی تشریح اور کانسپشن اہل تشیع کی تشریح سے مختلف ہے؛ ہمارے خیال میں وہاں صرف حضرت علیؓ کو خراج تحسین پیش کیا گیااور ایک شکایت کا ازالہ ہوا۔ اہل تشیع غدیر کو عید کے طورپر مناتے ہیں، لیکن اہل سنت کے یہاں صرف دو عید ہیں۔ لہذا اہل سنت سے توقع نہ رکھیں کہ وہ ایسے دن کو عید کہہ کر مبارکباد دیں جو ان کے عقیدے میں نہیں ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے رکن نے کہا: بعض مذہبی تہواروں کے دوران بعض قبائل مخصوص بینرز لگاتے ہیں جو ان کے اپنے ہی عقائد کے خلاف ہے۔ اقوام و قبائل کو میری نصیحت ہے کہ دینی مسائل کو سیاسی مسائل سے نہ ملائیں۔ ایران میں شیعہ و سنی اکٹھے رہتے ہیں اور سیاسی، معاشی اور ثقافتی امور میں ساتھ ہیں، لیکن دینی و مذہبی مسائل میں ہر شخص اپنے ہی مسلک کے مطابق عمل کرتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے سرکاری ٹی وی کے حکام سے کہا: سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کے ذمہ داران سے میری درخواست ہے کہ ان پڑھ لوگوں کو مولوی کے نام پر کیمرا کے سامنے نہ لائیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے اہل سنت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ علما اور حکام کو میرا مشورہ ہے کہ صحابہ و اہل بیت کی عزت کا خیال رکھیں اور پڑوسی کا احترام رکھیں؛ ایسی باتوں اور اقدامات سے پرہیز کریں جن سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
انہوں نے ایام محرم کے قریب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان تمام اقوام سے جو میری بات ان تک پہنچتی ہے درخواست کرتاہوں کہ محرم میں شیعہ حضرات کو مجلس عزا و ماتم منعقد کرنے دیں اور کسی رکاوٹ کے بغیر انہیں اپنے مسلک کے مطابق ماتم کرنے کی اجازت دیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں ’سردار حمیداللہ سردارزئی‘ اور ’حاجی انوشیروان تمندانی‘ کے انتقال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔