- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حکومت سنی برادری کی رضامندی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے عیدالاضحی (31 جولائی 2020)کے موقع پر ایرانی بلوچستان کے مرکز زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے کہا: صدر روحانی اس حال میں ایران کی سنی برادری کو نظرانداز کررہے ہیں کہ دوبار منصب صدارت پر اہل سنت ہی کے ووٹوں سے فائز ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت اہل سنت کی رضامندی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اہل سنت ایران کی سماجی و دینی شخصیت نے زاہدان کی مرکزی عیدگاہ میں نماز عید سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا: صدر روحانی کی حکومت کا آخری سال ہے۔ اس حکومت سے اہل سنت ایران کی بعض شکایتیں اور تقاضے ہیں؛ امید ہے حکام توجہ دے کر کوئی حل نکالیں گے۔
انہوں نے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی سے چالیس سال سے زائد کا عرضہ گزرچکاہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد پڑچکی ہے۔ اہل سنت ایران جو ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہے، ہر قومی میدان میں اپنے دیگر ہم وطنوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے ہیں اور جارحانہ اقدامات کا جواب دے چکے ہیں۔ سیاسی میدان میں حاضر ہوکر اپنی ذمہ داریاں پوری کرچکے ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک اہل سنت ایران کی شخصیات نے باہمی گفت و شنید اور مذاکرہ کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے باجود انہیں بڑے عہدوں سے محروم رکھا گیا ہے؛ اہل سنت کو نائب صدر، وزیر، نائب وزیر اور صوبائی گورنر جیسے عہدوں سے دور رکھاجاتاہے۔ حالانکہ آئین کے لحاظ سے صرف صدر مملکت ریاست کے سرکاری مسلک (اہل تشیع) سے ہونا چاہیے؛ اگرچہ ہم آئین کی اس شق کے منتقد ہیں اور ہمارے خیال میں اس شق کو تبدیل کرنی چاہیے، لیکن دیگر جگہوں پر اہل سنت سے بھی کام نہیں لیا جاتاہے۔
انہوں نے کہا: حکومت نے ایک دو سفیر اہل سنت برادری سے متعین کیا ہے، لیکن دیگر اعلی عہدوں میں وہ غائب ہیں۔ حتی کہ صدر کے مشیر خاص جو سنی برادری سے منتخب ہوتے تھے، ان کا عہدہ بھی ختم کردیاگیاہے۔ اہل سنت کو محدود پیمانے پر بعض عہدوں پر متعین کیاجاتاہے، پھر انہیں برطرف کیاجاتاہے۔ جب سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت قائم ہوئی ہے،(تیس سے زائد صوبوں کے لیے) ایک سنی گورنر بھی متعین نہیں ہوا ہے۔
اہل سنت ایران کے سب سے زیادہ بااثر رہ نما نے کہا: اہل سنت کا شکوہ ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ متحد ہوکر صدر روحانی کو ووٹ دیا ہے، لیکن مختلف وزارتخانوں اور صوبائی محکموں میں انہیں جگہ نہیں مل رہی ہے، جن صوبوں میں اکثریت اہل سنت کی ہے، وہاں بعض محکموں میں تین سو ملازمین میں سے صرف پندرہ یا بیس اہل سنت ہیں۔ حکومت اہل سنت کی رضامندی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: اگر مختلف وزارتخانوں اور کابینہ میں اہل سنت کے لائق افراد سے کام لیاجاتا، یہ اسلامی جمہوریہ اور شیعہ علما کے لیے عزت کی بات ہوتی جو اس ریاست کی سربراہی کررہے ہیں اور یہ ان کی فراخدلی کی ایک مثال بن جاتی تھی۔ دوراندیشی اور فراخدلی کسی بھی مذہب، مسلک اور قوم کے لیے اعزاز اور شرف کی بات ہے۔

مسٹر روحانی اہل سنت کو نظرانداز کرنے کے ذمہ داروں کا پتہ بتائے
بات آگے بڑھاتے ہوئے زاہدان کی اہل سنت کی مرکزی عیدگاہ میں خطیب اہل سنت نے کہا: کچھ عرصہ قبل مرشد اعلی نے بندے کے خط کا جواب دیتے ہوئے اہل سنت کے حوالے سے حکام اور اداروں کو حکم دیا تھا ”کسی قسم کے امتیازی سلوک ایرانیوں میں روا نہ رکھیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی لسانی، نسلی اور مذہبی گروہ سے ہو“۔ لیکن افسوس کہ اس خط پر توجہ نہیں دی گئی اور اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ حکام نے اس خط کو پڑھا بھی ہے یا نہیں؟!
صدر روحانی کو خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمیں ابھی تک معلوم نہیں آپ کے سنی بہن بھائیوں کی مشکلات کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں؟ کیا اہل سنت کے لیے مخصوص جگہوں پر مخصوص پالیسیاں بنتی ہیں؟ یہ کہاں ہوتاہے، قم میں یا تہران میں؟ اہل سنت اس حوالے سے پریشان ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: صدر روحانی ان موانع کا پتہ بتائے جو سنی برادری کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کی وجہ ہیں۔ ہم ان سے بات چیت کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔ہم لڑائی نہیں چاہتے ہیں، ہمارا طریقہ ہی بات چیت اور افہام و تفہیم ہے۔اگر حکومت ذمہ داروں کا پتہ نہیں بتاتے ہیں، تو اہل سنت کو نظرانداز کرنے کی ذمہ داری صدر روحانی ہی کی حکومت اور ذات پر عائد ہوگی۔

سنی برادری عزت چاہتی ہے طاقت نہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان میں واضح کرتے ہوئے کہا: ہم اگر اہل سنت کو مختلف عہدوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، ہمارا مقصد اہل سنت کی عزت ہے، حصول طاقت اور اقتدار نہیں ہے۔ اہل سنت اپنا احترام اور جائز مقام چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اہل سنت کے لیے اعزاز کی بات ہوگی کہ اپنے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ اداروں اور محکموں میں ہوں۔
ممتاز سنی رہ نما نے کہا: ملک کے جغرافیائی حدود کے حوالے سے ہم بہت حساس ہیں۔ کسی بھی صورت میں اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں چھوڑیں گے۔ شدت پسندی کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن حکومت کو بھی چاہیے کہ اپنے رویہ میں تبدیلی لائے۔
انہوں نے کہا: ہم پر ملک کے باہر سے دشمن کے حملوں کی زد میں ہیں اور ملک کے اندر ہمیں متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ صدر محترم جتنااہل سنت پر زیادہ توجہ دیں گے، اتنا ہی زیادہ قومی اتحاد میں اضافہ ہوگا۔