- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

کرونا وائرس اور نبوی تعلیمات!

’’کرونا وائرس ‘‘ ایک ڈراؤنی وباء بن کر دنیائے انسانیت کا رُخ کیے ہوئے ہے۔
کئی ممالک میں وبائی مرض کی تشخیص بھی ہوچکی ہے اور متعدد انسانی جانوں کے ضیاع کی اطلاعات بھی ہیں، جبکہ کثیر تعداد کے متأثر ہونے کی خبریں بھی عام ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، چائنہ اور کوریا کی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران اور پاکستان میں بھی اس وبائی مرض کے خطرات وخدشات بڑی شدّت سے محسوس کیے جارہے ہیں اور اس کے لیے احتیاطی تدابیر اور حفاظتی احکامات بھی مختلف شکلوں میں سامنے آرہے ہیں۔ عوامی آگاہی کے لیے ریاستی ادارے، اطباء اور متعدد علماء کرام بڑی تندہی سے سرگرمِ عمل ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے ، آمین!
تاہم یہ بیماری کس قدر خطرناک ہے اور اس کے خطرات سے عوام الناس کس قدر دوچار ہوئے ہیں؟! اس کا صحیح اندازہ تو فی الحال نہیں ہوپا رہا، لیکن اس وبائی مرض کی آگاہی کا منظرنامہ انتہائی ڈراؤنا بن کر وباء سے پہلے ہی خود وباء بن کر معاشرے کو ذہنی و نفسیاتی موت مارے جارہا ہے، اس وباء کی آگاہی مہم نے چارسو سراسیمگی پھیلا رکھی ہے، انسانوں کے غیرضروری اجتماعات کے ساتھ ساتھ ضروری میل جول، بلکہ عبادات اور شعائرِ اسلامیہ سے بھی روکنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ آسمانی وباء سے پہلے اس کی آگاہی کو وبائی ہوّا بنانے میں ہمارے بعض دینی دانش وروں کا کردار بھی شامل ہے۔ ہمارے یہ حضرات وبائی امراض کے حوالے سے شرعی احکام وآداب کا یکطرفہ منظر نامہ پیش کرکے ہمارے خوف وہراس میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں، ان اہلِ علم کو چاہیے کہ وہ وبائی امراض کے حوالے سے کم از کم شریعتِ اسلامیہ کی پوری بات نقل فرمائیں۔
اہلِ علم جانتے ہیں کہ وبائی امراض، مختلف مصائب اور خطرات سے متعلق شرعی احکام اور نبوی تعلیمات وہدایات تقریباً چار قسم کی ہیں:
۱:- مستقبل کے حالات اور احوال کے بارے میں توکل (اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا) ایمانی کمال کی علامت ہے، جنت میں بلاحساب پہلے پہل داخلے کی بشارت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کے باوجود کوئی بلاء ، وباء یا مصیبت لاحق ہوجائے تو اس پر صبر کیا جائے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی معیت اور ناقابلِ ضیاع اجر کا وعدہ ہے۔ یہ مضمون حدیث کی کتابوں میں ’’باب التوکل والصبر‘‘ کے زیرِعنوان متعدد روایات کی صورت میں موجود ہے۔
۲:- تقدیرِ الٰہی پر بندۂ مومن کی راسخ الاعتقادی وہ مفید عقیدہ ہے جو بڑی سے بڑی مصیبت کو خدائی فیصلہ قرار دے کر ذہنی طور پر قبول کرنے، سہہ جانے اور مافات پر بے جا اشکہائے حسرت و ایاس بہانے سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جو چاہت ہے وہ پوری ہوکر رہے گی اور جس امر سے اللہ تعالیٰ کی چاہت متعلق نہ ہو تو وہ کائنات کے سارے اسباب کی یکجائی اور اکٹھ کے باوجود بھی ظہور پذیر یا اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ حدیث کی کتابوں میں ’’باب القدر‘‘ کے تحت اس مضمون کی تفصیلی حدیثیں موجود ہیں۔
۳:- اگر کوئی بیماری کسی کو واقعی لاحق ہوجائے تو ایسے مریض کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے، حوصلہ بڑھایا جاتا ہے، اسے مایوسی نہیں دلائی جاتی۔ مریض کو یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، بیماری گناہوں کی صفائی کے لیے ہوتی ہے۔ مریض اگر مرضِ وفات میں ہو تب بھی اسے خوش گوار زندگی کی اُمید دلانے والی باتیں کرنے کا حکم ہے۔ حدیث کی کتابوں میں ’’باب عیادۃ المریض‘‘ کے تحت یہ مضمون واشگاف الفاظ میں موجود ہے۔
۴:- اگر کسی قوم یا علاقے میں کوئی وبائی مرض آجائے تو ایسے علاقے کے باسیوں کے لیے الگ احکام ہیں اور دوسرے علاقوں سے یہاں آنے والوں کے لیے الگ احکام ہیں۔ باہر سے آنے والوں کے لیے حکم ہے کہ وہ از راہِ احتیاط، تحفظِ عقیدہ کی خاطر ایسے علاقے اور قوم کا رُخ نہ کریں، کیونکہ اگر کوئی اتفاقاً ہی سہی تقدیرِ الٰہی کی بنیاد پر ہی اگر وبائی مرض کا شکار ہوجائے تو ایسے موقع پر کوئی ضعیف الاعتقاد مسلمان وبائی مرض کے مؤثر حقیقی ہونے کا خیال نہ کر بیٹھیں، حالانکہ تمام اشیاء اور ان کی ہر نوع کی تاثیرات اللہ کے حکم، ارادے اور مشیت کے تابع ہیں، خود تو بے حقیقت ہیں،نظریاتی وفکری مسلمان کی نظروفکر کہیں مؤثرِ حقیقی یعنی باری تعالیٰ کی بجائے ظاہری سبب کی طرف جاسکتی ہے، اس لیے شریعت نے وبائی امراض کے زیرِاثر قوموں اور علاقوں کے اختلاط سے منع فرمایا ہے۔
جہاں تک وباء زدہ علاقے کے مقامی لوگوں کے لیے ہدایات کا تعلق ہے، ان ہدایات کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ پختہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی بھی بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتی: ’’لاعدوٰی ولاطیرۃ‘‘ جیسی حدیثوں میں اس کا بیان ملتا ہے، اگر مسلمان راسخ العقیدہ بن کر اس نظریئے سے چمٹا رہے گا تو یقینا وہ وبائی مرض کے موہوم مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جذام میں مبتلا شخص کو اپنے ساتھ بٹھایا اور انہیں اپنے ساتھ کھانا کھلایا تھا۔
مگر اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی موجود ہے کہ مجذوم سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بچنے کے لیے بھاگتے ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی متعدی وبائی بیماری کا حقیقی اثر نہ سہی مگر ظاہری سبب کے درجے میں اثر انداز ہونے کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ایسی وبائی بیماریوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی شریعت کے منافی نہیں، بلکہ شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہے۔
پس کسی وبائی مرض، اس کے منفی اثرات اور اس سے بچاؤ کی حفاظتی تدبیریں نارمل انداز میں بیان کرنا، بتانا اور ان پر عمل کرنا تعلیماتِ نبوی کا حصہ ہیں، ایسا ضرور ہونا چاہیے۔ جو اہلِ علم اس آگاہی مہم اور احتیاطی تدابیر کے اظہار وبیان میں مناسب کردار ادا کررہے ہیں ان کا کردار بھی قابلِ قدر ہے، دینی تبلیغ ہے، مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے حضرات وبائی مرض کے ڈراؤنے پہلو کو مزید ڈراؤنا بنانے کے بجائے نبوی تعلیمات تک محدود رہیں اور نبوی تعلیمات میں سے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ قضاء وقدر ، تسلی اور دلاسے کے شرعی پہلو کو بھی ضرور بیان فرمائیں۔
جبکہ سرکاری حکام اور ریاستی اداروں کے لیے شرعی حکم اور دینی نصیحت یہ ہے کہ وہ بھی اپنی آگاہی مہم اور احتیاطی تدابیر کو شریعتِ اسلامیہ کے ذکر کردہ احکام وآداب کے تابع رکھیں۔ اس حوالے سے بے جا جبرواکراہ سے گریز کریں، بالخصوص عبادات، دینی شعائر اور کتابِ شفاء (قرآن کریم) کے تعلیمی حلقوں میں ذرا بھر رخنہ اندازی نہ کریں، بلکہ روحانی علاج کے طور پر قرآنی تعلیم کے حلقوں، خانقاہوں اور دینی مدارس کے الٰہی ونبوی زمزموں کا فوری احیاء واہتمام کروائیں، ایسے حلقوں کی بندش کے خاتمے کا فوری اعلان کریںاور ہر جگہ اجتماعی دعاؤں کے لیے احکامات جاری کریں۔
جو اہلِ علم‘ حکامِ وقت کا قرب یا اُن تک رسائی رکھتے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ کرونا وائرس کی بابت سرکاری رویّے، اس موقع پر علماء کے بیانات اور عالم رؤیا کے سیاحوں کے خوابوں کے حوالے سے جس حد درجے کے احتیاط کی ضرورت ہے، وہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے رسالے ’’بذل الماعون في فضل الطاعون‘‘ میں مذکور ہے، اس کے متعلقہ حصے خود بھی پڑھیں اور ان افادات کی روشنی میں حکام کو بھی نصیحت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو ہر قسم کی وباؤں اور مصیبتوں سے نجات دے اور محفوظ رکھے۔ آمین