- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مولانا پالن پوریؒ کا فیض ایران میں

اس میں دو رائے نہیں کہ حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری رحمہ اللہ مایہء ناز عالم دین اور اعلی پایہ کے متقی فقیہ، محدث، مفسر اور اصولی تھے۔ آپ کی تصنیفات سے اندازہ ہوتاہے کہ کس قدر آپ مختلف دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ یقینا اہل علم کا وجود کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے بے مثال غنیمت ہے۔ ان کے انتقال سے بطورِ خاص اہل علم یتیم بن جاتے ہیں۔ ہرچند دیگر علما و فضلا موجود ہوں، پھر بھی مولانا پالن پوری جیسے زبردست محققین کے چلے جانے سے اہل علم کو بڑا نقصان پہنچتاہے۔
یہ انتہائی خوش آیند بات ہے کہ برصغیر میں عام طورپر کتابیں لکھنے کا رواج ہے اور رسالوں کے ذریعے صحافت کے میدان میں بھی اہل علم اور دینی مراکز سرگرم ہیں۔ مولانا پالن پوری رحمہ اللہ ایک کثیرالتصنیف عالم دین تھے۔ ہمارے یہاں ایران کے مشرقی علاقوں کے علمی حلقوں میں حضرت کی بعض کتابیں بطور خاص مشہور ہیں اور علما و طلبا ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ تفسیر ہدایۃ القرآن اور حجۃ اللہ البالغہ کی شرح رحمۃاللہ الواسعۃ اہل علم کے زیر مطالعہ رہتی ہیں۔
دارالعلوم زاہدان میں نصابی سرگرمیوں کے علاوہ دو درس قرآن قائم ہوتے ہیں جن میں علما و فضلا کے علاوہ عام شہری بھی شریک ہوتے ہیں۔ پہلا دورہ صدر جامعہ حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم کا ہے جو روزانہ پورے سال میں جاری رہتاہے۔دوسرا دورہ ترجمہ و تفسیر جامعہ کے سالانہ تعطیلات میں شعبان و رمضان کو منعقد ہوتاہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے اس دورے کے استاذ مولانا عبدالغنی بدری دامت برکاتہم ہیں۔ آج چھبیس رمضان کو اس دورے کا اختتامی درس منعقد ہوا۔ شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آخری درس کے دوران خطاب کرکے فرمایا: میں اپنے درس کی تیاری میں حضرت پالن پوری ؒ کی تفسیر سے استفادہ کرتاہوں۔
اس سے قبل مولانا عبدالغنی بدری، دارالعلوم زاہدان کے استاذ الحدیث اور ناظم تعلیمات، نے بھی ایک تعزیتی پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی اپنے درس قرآن کے دوران ہدایۃ القرآن کو مطالعہ میں شامل کرتے ہیں۔
دارالعلوم زاہدان کے شعبہ تخصصات کے نصاب میں حجۃ اللہ البالغہ شامل ہے جسے مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی پڑھاتے ہیں۔ آپ بھی ضرور رحمۃاللہ الواسعۃ سے استفادہ کرتے ہوں گے۔
دارالعلوم زاہدان کے بانی حضرت مولانا عبدالعزیز قدس اللہ سرہ خود اکابر علمائے دیوبند کے شاگرد اور فیض یافتہ تھے۔ ان کی کاوشوں سے دارالعلوم دیوبند کا فیض یہاں خوب پھیل چکاہے اور پھیلتاچلاآرہاہے۔اکابر دیوبند کی متعدد کتابیں فارسی میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور ایران و افغانستان میں مشہور ہیں۔ امید ہے یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے اور دنیا کے دیگر علاقوں اور ملکوں کی طرح ایران بھی اس فیض سے فائدہ اٹھائے۔