- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

کورونا وائرس: انڈیا میں مسلمان مریضوں کے ساتھ مبینہ تفریق کیسے روکی جا سکتی ہے؟

انڈیا کی ریاست گجرات کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی ہسپتال اور طبی عملے کی طرف سے مسلمان مریضوں کے ساتھ ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق کے کچھ اور مبینہ واقعات سامنے آئے ہیں۔
تازہ ترین معاملہ ریاست جھارکھنڈ کے صنعتی شہر جمشید پور کا ہے، جہاں ایک 30 سالہ مسلم خاتون نے الزام لگایا ہے کہ مقامی سرکاری ہسپتال میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور مذہب سے جوڑ کر گالیاں دی گئی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ہسپتال کے عملے نے ان کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی ہوتی اور ان کا صحیح سے علاج ہوا ہوتا تو ان کے بچے کی جان نہیں جاتی۔

جمشید پور، جھارکھنڈ
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو لکھے ایک خط میں رضوانہ خاتون نے الزام لگایا ہے کہ 16 اپریل کو مقامی سرکاری ہسپتال کے عملے کی ایک رکن نے ’مجھے (میرے) نام اور مذہب سے جوڑ کر بھدی گالیاں دیں اور مجھے کہا کہ جو خون زمین پر گرایا ہے اس کو صاف کرو، جہاں جہاں (علاج) کرواتی ہو کورونا پھیلاتی ہو۔‘
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ’میں نے زمین پر گرے اپنے خون کو صاف کرنے میں دیر کر دی کیونکہ میری حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پورے بدن میں کپکپی ہو رہی تھی اسی درمیان اس خاتون (عملے کی رکن) نے چپل اتار کر مجھے بری طرح پیٹا۔ میں ہکا بکا رہ گئی۔‘
رضوانہ کے شوہر محمد شمیم نے مجھے جمشید پور سے فون پر بتایا کہ بچہ کھونے اور ذلت آمیز سلوک پیش آنے کی وجہ سے ان کی بیوی اب بھی صدمے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس معاملے میں مکمل انصاف چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کبھی کسی کے ساتھ ایسا کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔‘
رضوانہ نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر ہسپتال کے عملے نے سنجیدگی کے ساتھ میرا معائنہ کیا ہوتا تو ہمارے بچے کی موت میرے پیٹ میں نہیں ہوتی۔‘
جمشید پور کی ضلعی انتظامیہ نے معاملے کی تفتیش کے لیے 18 اپریل کی شام ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ہسپتال کے ڈپٹی سپرانٹینڈنٹ، ضلعی انتظامیہ کے ایک ایگزیکٹیو مجسٹریٹ اور متعلقہ تھانے (ساکچی) کے ایک پولیس افسر شامل تھے۔
بعد ازاں کمیٹی میں ایک خاتون (ایگزیکٹیو مجسٹریٹ) کو بھی شامل کیا گیا۔ جمشید پور کے ڈپٹی کمشنر روی شنکر شکلا نے مجھے بتایا کہ ’ہم نے جمعرات کو اس معاملے کی رپورٹ ریاست کے پرنسپل سیکریٹری ہیلتھ کو سونپ دی ہے۔‘
تاہم انھوں نے رپورٹ کے حوالے سے کسی بھی طرح کا تبصرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ کیا تحقیقات کی گئی ہیں یا اس کا نتیجہ کیا ہے۔

میرٹھ، اترپردیش
دوسری جانب اتر پردیش کے شہر میرٹھ میں ایک نجی کینسر ہسپتال نے باضابطہ ایک اشتہار جاری کر کے کہا کہ وہ ایسے مسلمان مریضوں کا علاج نہیں کریں گے جن کے پاس کورونا کا ٹیسٹ منفی آنے کی رپورٹ نہیں ہو گی۔
شہر کے ویلینٹس کینسر ہسپتال کی جانب سے کثیر الاشاعت ہندی روزنامہ دینک جاگرن میں 17 اپریل کو شائع کردہ اشتہار میں لکھا تھا:
’ہمارے یہاں بھی کئی مسلم مریض ضوابط اور ہدایات (جیسے ماسک لگانا، ایک مریض کے ساتھ صرف ایک تیماردار، صفائی کا دھیان رکھنا وغیرہ) پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور وہ عملے کے ساتھ بدسلوکی کر رہے ہیں۔
’ہسپتال کے عملے اور مریضوں کے تحفظ کے لیے ہسپتال انتظامیہ علاج کے لیے آنے والے نئے مسلمان مریضوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ خود اور ایک تیماردار کی کورونا وائرس انفیکشن (کووڈ 19) کا ٹیسٹ کروا کر اور رپورٹ منفی آنے پر ہی آئیں۔ کورونا وبا کے جاری رہنے تک یہ اصول مؤثر رہے گا۔‘
ضلع کے چیف میڈیکل آفیسر راج کمار نے اتوار کے روز یہ کہا کہ ہسپتال اس معاملے میں معافی مانگے بصورت دیگر ان کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔
چیف میڈیکل آفسر کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال نے ایسا کر کے طبی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر وہ معافی نہیں مانگتے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور ان کا میڈیکل لائسنس بھی منسوخ کر دیا جائے گا۔‘
دریں اثنا ضلعی پولیس نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے 19 اپریل کو ہسپتال کے مالک ڈاکٹر امت جین کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا۔
میرٹھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (رورل) اویناش پانڈے نے مجھے فون پر بتایا کہ ڈاکٹر جین کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 188 (امتناعی حکم کی خلاف ورزی)، 295 (مذہب یا عقیدہ کی توہین) اور 505 کی ذیلی شق نمبر تین (کسی برادری کو اکسانے کے لیے بیانات دینا) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سلسلے میں ان کو طلب کیا ہے اور سارے شواہد بھی اکٹھا کیے جا رہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں ہم نے ڈاکٹر جین کا مؤقف جاننے کے لیے انھیں کئی بار فون کیا مگر ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔

بھرت پور، راجستھان
جمشید پور میں پیش آنے والے حادثے سے قبل چار اپریل کو راجستھان کے بھرت پور ضلع کے ایک سرکاری ہسپتال پر الزام عائد ہوا تھا کہ ہسپتال نے ایک حاملہ خاتون کو مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے یہاں داخل کرنے سے منع کر دیا۔
پروینہ نامی مسلم خاتون کے شوہر عرفان خان کے مطابق بھرت پور کے زنانہ ضلع ہسپتال میں ڈاکٹروں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی حاملہ بیوی کو داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور انھیں جے پور جا کر علاج کروانے کو کہا۔
ان کے مطابق ان کی بیوی جے پور جانے کے لیے ایمبولینس میں سوار ہوئی اور اس کے کچھ ہی دیر بعد بچے کو جنم دے دیا لیکن نوزائیدہ نے جلد ہی دم توڑ دیا کیونکہ ڈیلیوری کے بعد دوبارہ بھرت پور کے ہسپتال جانے پر انھیں ایک بار پھر لوٹا دیا گیا۔
تاہم ریاستی وزیر سبھاش گرگ نے اس سے انکار کیا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کو جے پور جانے کے لیے کہا گیا۔ انھوں نے ضلعی انتظامیہ کو عرفان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی جانچ اور مناسب کارروائی کا حکم دیا۔
بعد ازاں اس سلسلے میں بھرت پور کے ضلعی کلکٹر نتھمل ڈڈیل کی ہدایت پر نگر وکاس نیاس (سٹی ڈیولپمنٹ ٹرسٹ) کے سیکریٹری، جن کا نام رپورٹ میں نہیں درج ہے، نے اپنے پرسنل اسسٹنٹ کے ساتھ ہسپتال کا دورہ کر کے ضلعی کلکٹر کو ایک سرسری رپورٹ سونپی ہے۔
چار اپریل کو جمع کردہ اس رپورٹ کے مطابق عرفان کا الزام غلط تھا اور ان کی اہلیہ کے ساتھ مسلم ہونے کی وجہ سے کوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔
بھرت پور کے ضلعی کلکٹر نے مجھے فون پر بتایا کہ ’ہم نے اس معاملے کی رپورٹ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو بھیج دی ہے اور ہماری طرف سے کیس ختم ہو چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ ہماری جانچ میں پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اس معاملے میں اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
دوسری جانب عرفان اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں ۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم اب بھی اپنی بات پر قائم ہیں۔ میری بیوی کے ساتھ غلط ہوا ہے، جس پر انصاف ہونا چاہیے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب جب تحقیقاتی رپورٹ نے آپ کے الزامات کو غلط قرار دیا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ ان کا کہنا تھا، ’ہمیں ابھی تک رپورٹ کی کاپی نہیں ملی ہے۔ البتہ جیسے ہی میری بیوی کی صحت بہتر ہوگی اور لاک ڈاؤن کھلے گا، ہم ایک بار پھر سے اس معاملے کو اٹھائیں گے۔‘

مذہب کی بنیاد پر تفریق کی وجہ؟
مذہب کی بنیاد پر تفریق اور امتیاز پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر گائناکولوجسٹ ڈاکٹر پونیت بیدی کہتے ہیں کہ ’ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا، تقسیم کے وقت بھی ایسا ہوا تھا۔ بعد میں بھی ایسے معاملات دیکھنے کو ملے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’دراصل، ڈاکٹروں کو بھلے ہی بھگوان کا روپ مانا جاتا ہو لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم عام لوگوں سے کم فرقہ پرست نہیں ہیں بلکہ طبی صنعت بہت حد تک تفریق اور امتیاز پر قائم ہے۔‘
ڈاکٹر بیدی کا کہنا ہے کہ ’جب تک طبی اخلاقیات اور ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت کارروائی نہیں ہوگی یہ سب ایسا ہی چلتا رہے گا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایسے معاملات میں الزامات اس لیے بھی ثابت نہیں ہو پاتے کیونکہ اکثر اوقات تحقیقات داخلی طور پر ہوتی ہیں اور کوئی ایک دوسرے کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے ان معاملات کی تحقیقات آزادانہ طریقے سے ہونی چاہییں۔‘
وہ آگے کہتے ہیں ’دوسرے ممالک، خاص طور پر برطانیہ وغیرہ میں اگر کوئی ڈاکٹر طبی اخلاقیات کی ایک بار خلاف ورزی کرتا تو زندگی بھر کے لیے اس کا لائسنس رد کر دیا جاتا۔ مگر ہمارے یہاں شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق اس سلسلے میں میڈیکل کونسل آف انڈیا کو فعال اور غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہوگا تب جا کر کہیں حالات میں بہتری ممکن ہے۔

اس سب کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
ایک اور ڈاکٹر اور پروگریسو میڈیکوز اینڈ سائنٹسٹس فورم (پی ایم ایس ایف) کے قومی صدر ہرجیت سنگھ بھٹی مذہب کی بنیاد پر امتیاز اور تفریق کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے تعلق سے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے بارے میں غلط معلومات، افواہوں، پروپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کو مانتے ہیں۔
ڈاکٹر بھٹی کہتے ہیں ’جس طرح سے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو کورونا کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس کا اثر ڈاکٹروں اور طبی عملے پر ہونا لازم ہے۔ آخر کار، وہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں، خبریں پڑھتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کے ساتھ ساتھ جھوٹی اطلاعات وصول کرتے ہیں۔ ایسے میں، ان کا ڈرنا کسی حد تک فطری ہے۔ ہر ڈاکٹر اور طبی عملے کے رکن میں اس سے لڑنے کی ہمت اور صلاحیت نہیں ہوتی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر ہم حالات کو فوری طور پر قابو میں کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے گمراہ کن اطلاعات اور پروپیگینڈا پر قابو پانا ہوگا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’یہ گمراہ کن اطلاعات اور پروپیگنڈا میڈیا اداروں کے علاوہ حکومت اور ان کے نمائندوں کی طرف سے بھی پھیلایا جا رہا ہے۔‘
ڈاکٹر بھٹی آگے کہتے ہیں کہ ’اس پروپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کا اثر صرف مسلمانوں پر ہی نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی وجہ سے کئی سارے ڈاکٹر بھی اس کی زد میں آچکے ہیں، ان پر حملہ ہوا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس کو صرف ایک ہی شخص روک سکتا ہے اور وہ ہیں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی۔ وہ مزید کہتے ہیں ’سب سے پہلے تو وزارت صحت کو تبلیغی جماعت کے متعلق الگ سے ڈیٹا ریلیز کرنا بند کر دینا چاہیے۔ میڈیا کو ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ اس کی رپورٹنگ کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ خود وزیرِ اعظم مودی کو عوام کو مسلسل بتانا چاہیے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا کسی مذہب یا اس کے ماننے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ساتھ ہی ان کو اپنی کابینہ اور پارٹی ارکان کو ہدایت دینی ہوگی کہ وہ گمراہ کن اطلاعات، افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا بند کریں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، حالات پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ وزیرِ اعظم صرف ایک ٹویٹ کر کے سب کچھ درست نہیں کر سکتے۔‘