- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

افغانستان: دو ’صدور‘ نے حلف اٹھا لیا، حلف برداری کی تقریب پر دولت اسلامیہ کا راکٹ حملہ

افغانستان کے دو سیاستدانوں، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ، جو دونوں صدارتی انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں، نے دو الگ تقریبات میں ملک کے صدر کا حلف اٹھا لیا ہے۔
افغانستان کے الیکشن کمشن نے گذشتہ برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے صدارتی محل میں نومنتخب صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں دھماکوں کی آواز سنی گئی جس کی وجہ سے نومنتخب افغان صدر نے کچھ دیر کے لیے اپنی تقریر روک دی۔
جب سینکڑوں لوگ اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک تھے، تو دو زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جس کی وجہ کئی لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
افعانستان کی وزارت داخلہ نے کہا کہ دھماکہ کی آوازیں اس راکٹ حملے کی تھیں جو کابل پر فائر کیے گئے۔ حکام نے بتایا کہ کابل پر چار راکٹ فائر کیے گئے جن میں ایک صدارتی محل کے قریب واقع سرینا ہوٹل کی دیوار سے ٹکرایا۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے بتایا کہ راکٹ حملے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے اور ایک پولیس افسر معمولی زخمی ہوا ہے۔
دولت اسلامیہ نے راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دولت اسلامیہ نے 2018 میں بھی ایک تقریب پر راکٹ داغے تھے جب صدر اشرف غنی تقریر کر رہے تھے۔ اس وقت حملے میں چھ عام شہری زخمی ہو گئے تھے۔
تاہم دو دھماکوں کی آواز آنے کے بعد صدر اشرف غنی نے اپنا خطاب جاری رکھا اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ: ‘میں نے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہے، میرا سینہ افغان عوام پر قربان ہونے کے لیے حاضر ہے۔’ یہ کہنے کے بعد وہ اپنی تحریر شدہ تقریر کے بقیہ حصہ کے جانب بڑھ گئے۔
افغانستان کے الیکشن کمشن کی جانب سے ملک کے صدارتی انتخابات کے سرکاری اور حتمی نتائج کا اعلان کیے جانے کے بعد سے وہاں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔
صداتی امیدوار اور گذشتہ دور کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے خود کو ملک کا صدر قرار دیا ہے اور آج جہاں ایک جانب کابل کے صدارتی محل ارگ میں نومنتخب صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برادری جاری تھی تو قریب ہی واقع سپیدار محل جو کہ پہلے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو کا دفتر تھا، میں عبداللہ عبداللہ نے بھی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان سے بھی ایک غیر سرکاری سیاسی وفد افغانستان کے نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے وہاں موجود ہے۔
وفد میں قومی اسمبلی کے اراکین اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں علی وزیر اور محسن داوڑ کے علاوہ افراسیاب خٹک، بشری گوہر، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور اور اصغر خان اچکزئی، پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین شامل ہیں۔

’ایک ملک میں دو صدر نہیں ہو سکتے‘
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ سیاسی رسہ کشی ’بین الافغان مذاکرات میں حکومت کی پوزیشن پر سخت اثرات مرتب کرے گی‘ جو کہ منگل سے شروع ہو رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار عطا نوری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘اگر وہ مذاکرات کی میز پر جیتنا چاہتے ہیں تو [آگے بڑھنے کا] واحد راستہ اتحاد ہے۔’
سنہ 2014 سے افغانستان کے صدر رہنے والے اشرف غنی نے دارالحکومت کابل میں واقع صدارتی محل میں اپنی تقریبِ حلف برداری منعقد کی۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد، افغانستان میں امریکہ کے ناظم الامور روس ولسن، نیٹو کمانڈر جنرل سکاٹ ملر، اور یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور ناروے کے سفرا بھی اس موقع پر موجود تھے۔
دوسری جانب عبداللہ عبداللہ نے اپنی تقریب کچھ ہی فاصلے پر موجود سپیدار محل میں منعقد کی جسے وہ گذشتہ حکومت میں بطور چیف ایگزیکٹیو اپنے دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
حالانکہ ان کی ٹیم نے اس سے قبل خلیل زاد کی مداخلت کے بعد کہا تھا کہ وہ اسے منسوخ کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تقریب منعقد کی گئی۔
زلمے خلیل زاد دونوں دھڑوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ افغانستان کے حالات سے بخوبی واقف افراد کو اس حوالے سے ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ دو مخالف انتظامیہ کا افغانستان کے لیے کیا مطلب ہوگا۔
ایک افغان شخص نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک ملک میں دو صدور نہیں ہو سکتے۔ دونوں کو حلف برداری منعقد کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے بات کر کے کوئی حل نکالنا چاہیے۔’
سیاسی مخالفت کا یہ نظارہ 32 لوگوں کی جان لینے والے حملے میں عبداللہ عبداللہ کے محفوظ رہنے کے چند دن بعد ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
یہ امریکہ اور طالبان کی جانب سے فروری کے اواخر میں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد دارالحکومت میں پہلا بڑا حملہ تھا۔