- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’صدی کی ڈیل‘ ظالمانہ اور جانبدارانہ منصوبہ ہے

اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما نے اکتیس جنوری دوہزار بیس کے خطبہ جمعہ میں امریکی صدر کی جانب سے اعلان کیے گئے امن منصوبے کو ’زبردستی مصالحت‘ اور جانبدارانہ و ظالمانہ ڈیل یاد کرتے ہوئے کہاان شاء اللہ یہ منصوبہ شکست سے دوچار ہوجائے گا۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی کہ مولانا نے زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتہ کے ناگوار واقعات میں ایک واقعہ صدر ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے ایک امن منصوبہ کا اعلان تھا جہاں اسرائیلی حکام کے علاوہ کچھ کمزور مسلمان بھی شریک تھے۔
انہوں نے مزید کہا: امریکی صدر اپنی نام نہاد ڈیل اور امن منصوبہ کو فلسطینی مسلمانوں کے سر پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ مصالحت اور قیامِ امن کا طریقہ نہیں ہے۔ جب صلح کرانا ہو، طرفین کا ہونا اور ان کی مرضی ضروری ہے۔ جب دونوں فریق سامنے ہوکر بات کریں گے اور کوئی فریق ثالثی کا کردار ادا کرے گا، تب حقیقی مصالحت کا امکان ہوگا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: تمام ثقافتوں خاص کر اسلامی اصول میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صلح اور ڈیل عادلانہ ہو، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ اس امن منصوبہ کی پردہ کشائی سے پہلے فریقین کو اعتماد میں لیا جاتااور اسرائیلی حکام کے علاوہ، فلسطینی رہ نماؤں کو بھی ان جلسوں میں شامل کیا جاتا۔
انہوں نے مزید کہا: امریکی صدر نے اس حال میں اپنے خیال میں مصالحت کرائی ہے کہ اس نے واضح طورپر اعلان کیا ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ہے اور وہ اسرائیل کی حمایت کرتاہے۔ یہ امن منصوبہ بھی اسرائیل کی حمایت اور اسی کے امن اور مفادات کو مدنظر رکھ کر بنایاگیا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ٹرمپ کا صلح پوری طرح جانبدارانہ ہے۔ اس منصوبہ میں بیت المقدس کو جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور مسلم برادری اس پر حساس ہے، یہودیوں کو دیا گیا ہے۔ فلسطین کے وسط میں آباد کی گئی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ شمار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں فلسطین قابض اسرائیل کے محاصرہ میں آتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ان شاء اللہ امریکا و اسرائیل کی صدی کی ڈیل شکست سے دوچار ہوجائے گی۔ چونکہ اس منصوبے کو فلسطینیوں اور عام مسلمانوں کے علاوہ دنیا کی تمام آزاد اقوام نے مسترد کیا ہے اور اسے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش قراردی ہے۔ زورزبردستی کرکے فلسطینیوں پر کوئی منصوبہ لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا نے کہا: یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ ایک مستقل ریاست فلسطین کے نام سے قائم ہوجائے اور ایک عادلانہ مصالحت ہوجائے جس سے سب کے حقوق کی پاسداری ممکن ہو۔

مسلمانوں کے اختلافات کی وجہ سے ’صدی کی ڈیل‘ کی راہ ہموار ہوگئی
صدر دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ستر سال تک فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کے بعد امریکا و اسرائیل کو جرات ہوئی کہ نام نہاد صدی کی ڈیل سے پردہ کشائی کریں، چونکہ انہیں پتہ ہے مسلمان اور مسلم ممالک آپس کی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: عین ممکن ہے کہ سامراجی طاقتوں نے مسلم ممالک میں اختلافات اور دوریاں پیدا کرکے ایسی کسی ڈیل کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ فلسطینیوں پر ایسا ظالمانہ منصوبہ نافذ کرائیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: افسوس کی بات ہے کہ آج کل مسلم ممالک ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور آپس کے اختلافات نے انہیں دور کردیا ہے۔ اسی لیے ایک یا دو ملکوں کے احتجاج و اعتراض میں کوئی اثر نہیں ہے۔ اگر یہ ممالک متحد ہوکر بیک آواز صدائے احتجاج بلند کرتے، صورتحال مختلف ہوتی۔ افراد کے احتجاج بھی عالمی طاقتوں کے لیے بے اثر چیز ہے اور ہم احتجاج کرکے محض دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: مسلم اقوام اور ممالک کو چاہیے آپس میں متحد رہیں۔ ایسے حالات میں دعا کرنی چاہیے اور اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔
فلسطینی قوم کو مخاطب کرکے ممتاز عالم دین نے کہا: اکہترسال گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ اور یورپین طاقتوں نے فلسطینی قوم کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مسلم ممالک بھی آپس کے اختلافات و منازعات میں مصروف ہیں۔ لہذا فلسطینی قوم کو میرا پیغام ہے کہ مردوزن اللہ کی جانب رجوع کریں، پابندی سے نماز پڑھیں اوراللہ کی شریعت پر عمل پیرا ہوجائیں جس کے پاس سب سے بڑی قوت اور طاقت ہے۔

چین میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ مسلمانوں پر ظلم کی سزا ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے زاہدانی سنی شہریوں سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے چینی حکومت اور قوم کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے سینکیانگ ریاست کے مسلمانوں کے حق میں ظلم و جبر سے کام لیا اور ٹارچر دے کر شہید کیا، بچوں کو ماں باپ سے الگ کرکے مخصوص کیمپوں میں رکھا تاکہ ان کا عقیدہ تبدیل کریں اور مسلمانوں کو چین سے ختم کریں۔ اب وہاں کرونا نامی وائرس وہاں پھیل چکا ہے جس سے پورا چین خوف و اضطراب میں مبتلا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اس خطرناک وائرس کے پھیلاو کو عذاب الہی یاد کرتے ہوئے کہا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے چین کو عذاب سے دوچار کیا ہے۔ یہ لوگوں کے حقوق ضائع کرنے اور ظلم و جبر کا پھل ہے۔ پوری دنیا نے چینی مسلمانوں کے مصائب پر احتجاج کیا، لیکن چینی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اور اب عذاب الہی ان پر آں پڑا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم چینی حکام کو وارننگ دیتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم وستم سے دستبردار ہوجائیں اور مسلم قیدیوں کو رہا کریں۔ اللہ کی جانب واپس لوٹیں اور جن پر ظلم کیا ہے، ان سے معافی مانگیں اور کوتاہیوں کا ازالہ کریں تاکہ اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: جولوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ غریبوں اور مظلوموں کا کوئی یارومددگار نہیں، وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ تعالی کسی حجاب و مانع کے بغیر براہ راست مظلوموں کی آہ و نالہ سنتاہے اور ظالموں کو پکڑ کر عذاب سے دوچار فرمائے گا۔ ظالم لوگ ایک ایسی عظیم ذات کے مقابلے میں آتے ہیں جو سب سے بڑا طاقتور ہے۔

بزرگوں کی تعریف و ثنا میں غلو سے بچنا چاہیے
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یوم وفات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کے فضائل پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا: شیعہ و سنی مسلمانوں کو میری نصیحت ہے کہ بزرگانِ دین اور مقدس ہستیوں کی تعریف و ثنا میں غلو اور افراط سے بچیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت کی اتنی ہی تعریف و مدح کریں، جتنا ان کا مقام ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ جو افضل الانبیا تھے، ان کا ارشاد اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ میرے حق میں غلو و افراط سے کام نہ لیں جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی ؑ کے حق میں غلو کیا، بلکہ مجھے اللہ کا بندہ اور رسول سمجھیں۔ یہی اعتدال کی راہ ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں اسلامی فرقوں کی مقدسات کی توہین سے پرہیز پر نصیحت کرتے ہوئے سب کے احترام پر زور دیا۔