- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

نفاذِ عدل کے بارے قرآن کا خطاب سب سے پہلے حکومتوں کو ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیس دسمبر دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں نفاذِ عدل کی اہمیت اور اتحاد و امن سے اس کا تعلق واضح کرتے ہوئے حکومتوں کو عدل و انصاف کے نفاذ کا حکم دینے والی قرآنی آیات کی اولین مخاطب قرار دیا۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کا آغاز قرآنی آیت: «لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ» [الحدید: 25] کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: نفاذِ عدل و انصاف کے احکامات کے سب سے اہم اور پہلے مخاطب حکومتیں ہیں۔

انہوں نے کہا: اللہ تعالی کے یہاں ظلم اور ناانصافی کفر سے بڑھ کر برا اور نفرت انگیز ہے۔ یہ جو کہاجاتاہے کہ حکومت کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم و جبر کے ساتھ نہیں، بالکل درست بات ہے۔ ناانصافی کسی بھی ریاست اور حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: سب حکام جو کسی حکومت اور ریاست کا عنان ان کے ہاتھوں میں ہے، انصاف کا خیال رکھیں اور عوام کو یکساں نگاہوں سے دیکھیں، مسلم اور غیرمسلم کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں انصاف سے کام لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا: عدلیہ اپنی ذمہ داریوں کے پیش نظر نفاذ عدل کے سلسلے میں قرآن کے اولین مخاطب ہیں۔ جج حضرات کو چاہیے فیصلہ کرتے ہوئے طرفین کے مسلک و مذہب اور لسانی یا خاندانی تعلق کو مدنظر مت رکھیں اور ان تعصبات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کریں۔

اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے مزید کہا: سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اتحاد اور قومی امن صرف نفاذِ عدل سے ممکن ہے۔ جب نگاہیں، افکار اور کردار انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوں، پھر اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے اور اسی صورت میں پائیدار امن اور اتحاد کی فضا قائم ہوجائے گی۔

اسلامی شریعت میں عقیدہ، اخلاق اور کردار میں انصاف پر تاکید آئی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: پیغمبروں کی رسالت اور آسمانی کتابیں بھیجنے کا ایک اہم مقصد نفاذ عدل ہی تھا۔ اللہ کو جتنا ظلم و ناانصافی ناپسند ہے، اتنا ہی عدل و انصاف اس کو پسند ہے۔ اللہ تعالی تمام انسانوں سے عدل چاہتاہے۔ عادلانہ سوچ، عادلانہ کردار اور افکار اپنانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا: ظلم اور ناانصافی کا مطلب بہت بڑا ہے جو متعدد گوشوں کو احاطہ کرتاہے۔ بندہ اور اس کے پروردگار کے درمیان عدل کا مطلب ہے درست عقیدہ رکھنا۔ بہترین عقیدہ وہی ہے جو قرآن وسنت سے ملتاہے۔ اللہ کو ایک جاننا اور شرک سے پرہیز کرنا۔ غیراللہ کو خدا ماننا یا خدائی صفات دینا ظلم اور سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ بلکہ ریاکاری اور دکھاوے کے لیے کوئی نیک کام کرنا بھی ظلم ہے۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے اعمال میں انصاف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ہمیں اپنے اعمال و کردار میں بھی انصاف کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی کے احکامات بجالاتے ہوئے ہمیں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے؛ نماز و روزہ اور زکات جیسی عبادات میں سستی و کوتاہی اللہ تعالی کے حق میں ناانصافی و بے عدالتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: حقوق الناس کا خیال رکھنا انصاف کے زمرے میں آتاہے۔ والدین، شوہر یا بیوی، اولاد، رشتے دار، پڑوسی اور دیگر افراد کے حق میں کوتاہی کرنا ظلم و ناانصافی ہے۔ ہر میدان میں عدل و انصاف اللہ کو پسند ہے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: آج بہت ساری خواتین کو اپنے حقوق کے بارے میں شکایتیں ہیں۔ شوہروں کو چاہیے بیویوں کے بارے میں عدل و انصاف اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں بہترین وہی ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتاہے اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ تم سب سے بڑھ کر بہتر ہوں۔

انہوں نے مزید کہا: جو حضرات اپنے گھروالوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے ساتھ نیک چلن رکھتے ہیں، اللہ کے یہاں ان کے لیے اجر وثواب ہوگا۔ حدیث کی رو سے جس طرح کسی مرد اور خاتون کے ناجائز تعلقات گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ان کے باہمی جائز تعلقات سے اجر و ثواب ملے گا۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ ظالم ہیں اور اللہ تعالی ظلم پر سزا دے گا۔ اللہ کے احکامات سے عدول کرنا ظلم و ناانصافی ہے۔ جو عقیدہ، عمل اور کردار صراط مستقیم اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہو، وہ ظلم ہی ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: سب سے بڑا ظلم گناہ و معصیت ہے جس کے منفی اور خطرناک اثرات افراد اور معاشرے پر ظاہر ہوجائیں گے۔ گناہوں سے ہر معاشرے میں فساد پھیل جائے گا۔