- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مولانا عبدالحمید: مظاہرین کے قاتلوں کے خلاف ایکشن لیاجائے

زاہدان (سنی آن لائن) ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے پیٹرول کی قیمت بڑھانے کے بعد حالیہ پرتشدد مظاہروں کے دوران متعدد افراد کی موت پر شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے مبینہ قاتلوں کے ٹرائل پر زور دیا۔
انہوں نے زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے ممتاز عالم دین مولانا فضل الرحمن کوہی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جو مشہد میں کمرہ عدالت سے جیل بھیج دیے گئے ہیں۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے چھ دسمبر دوہزار انیس کو ہزاروں نمازیوں سے خطاب کے ایک حصے میں کہا: حال ہی میں جب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، دو انتہائی ناگوار واقعات پیش آئے؛ ایک عوامی مقامات و اشیا کی تباہی اور دوسرا مظاہرین پر فائرنگ اور بڑے پیمانے پر ان کا قتل۔ احتجاج کرنے والوں کے قتل نے پوری قوم کو غمزدہ کیاجس کی خبریں اندرون و بیرون ملک میں گردش کرتی رہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مرشد اعلی کے فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا جس کے مطابق بے گناہ قتل ہونے والوں کو ’شہید‘ قرار دیا جائے گا اور ان کا دیہ ادا ہوگا۔ انہوں نے کہا: یہ درست اور عاقلانہ فیصلہ تھا جس سے بہت ساری سازشیں ناکام ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اس کے علاوہ ان عناصر کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہیے جنہوں نے نہتے مظاہرین پر فائر کھول کر انہیں قتل کیا تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی بہیمانہ حرکت اور سنگدلی کی جرات نہ کرسکیں۔ اگر پیٹرول کی قیمت آدھی کردی جائے، اس تدارک کی تکمیل ہوجائے گی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: پیٹرول کی قیمت بڑھانے سے ضروری اشیا کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرول سستا کرنا تمام عوام کا مطالبہ ہے جو سخت معاشی مسائل سے دست و گریبان ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کوہی کی رہائی پورے صوبے کے عوام کا مطالبہ ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں مولانا فضل الرحمن کوہی، خطیب پشامگ (ضلع سرباز) اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حکام کو تنقید کے سامنے برداشت بڑھانے کی نصیحت کی۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کوہی کی رہائی کو خطہ کے تمام لوگوں کا مطالبہ یاد کیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: مولانا فضل الرحمن کی گرفتاری کے حوالے سے عوام کی جانب سے ہم سخت دباؤ میں ہیں کہ کیوں خاموش ہیں؟ اس بارے میں کچھ عرض کروں گا۔
انہوں نے کہا: مولانا فضل الرحمن اپنے خاص انداز اور دیہی لب و لہجہ میں بعض مسائل کو بیان کرتے ہیں، ہوسکتاہے ان کے انداز بیان سے غلط تاثر لیا جائے۔ لیکن بندہ متعلقہ حکام کو یقین دلاتاہے کہ مولانا شرپسند نہیں ہے نہ ہی ریاست مخالف عناصر اور تنظیموں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ حتی کہ سرحدی علاقے میں رہ کر امن و امان کے قیام میں کردار ادا کرتے ہیں۔
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: مولانا فضل الرحمن بہت سارے دیگر علما کی طرح ملک میں جاری بعض پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جو تنقیدی موقف انہوں نے اپنایاہے، وہی موقف دیگر علمائے کرام کے بھی ہیں۔ ہم نے ان سے بات کی ہے کہ ذرا اپنا لب و لہجہ نرم رکھیں تاکہ اس کی برداشت سب کے لیے ممکن ہو۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ہم حکام کی پریشانیوں کو سمجھتے ہیں، لیکن ہم ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی برداشت بڑھائیں۔ خیر و برکت اور اتحاد اسی میں ہے کہ حکام، تمام ادارے، عدلیہ اور سنی برادری سمیت ہم سب اپنی برداشت کا گراف اوپر کریں، صبر و برداشت کے بغیر اتحاد حاصل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: خطہ اور صوبہ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کو فورا رہا کیا جائے؛ یہ اتحاد و بھائی چارہ کے مفاد میں ہے۔

حکام اہل سنت برادری کے قانونی مطالبات پر بھی توجہ دیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اگر حکام تنقید سے ناراض ہوتے ہیں، انہیں تصویر کی دوسری جانب بھی دیکھنا چاہیے؛ انقلاب سے چالیس سال گزرچکے ہیں لیکن ابھی تک تہران میں اہل سنت کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے جو ان کا پرانا مطالبہ ہے۔ بہت سارے شہروں میں جہاں اہل سنت اقلیت میں ہیں، خلاف قانون انہیں نماز جمعہ و عیدین پڑھنے سے روکا جاتاہے یا ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ کیا شیعہ وسنی بھائی بھائی نہیں ہیں؟
انہوں نے مزید کہا: چالیس سال گزرنے کے باجود ابھی تک کابینہ میں وزیر یا نائب صدر کے عہدوں کے لیے سنی برادری سے کام نہیں لیا جاتاہے۔ انقلاب کے بعد مسلح ادارے سنی برادری کے لیے شجرہ ممنوعہ بن چکے ہیں حالانکہ انقلاب سے پہلے مسلح اداروں میں اہل سنت سے بڑے پیمانے پر کام لیا جاتا تھا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: بین الصوبائی سفروں کے حوالے سے بھی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں، بعض سنی علما کو دیگر صوبوں میں سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا حکام ہمیں تنقید کرنے کا حق دیں۔ تمہیں (حکام) کو معلوم نہیں کہ کس قدر ہم (علما) عوام کی طرف سے دباؤ میں ہیں کہ کیوں ان کے مسائل و مشکلات بیان نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں کہا: ہم اتحاد و بھائی چارہ کی خاطر بعض مسائل کو سرِعام بیان نہیں کرتے ہیں تاکہ دشمن غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ اگر سنی برادری کے مسائل پر توجہ دی جائے، اس سے قومی اتحاد اور امن کو فائدہ پہنچے گا۔