- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سیاسی افکار

امام صاحب نے اپنی زندگی کے باون سال اموی خلافت اور اٹھارہ برس عباسی دور میں بسر کیے گویا آپ نے اسلام کی ان دو عظیم سلطنتوں کو بذات خود دیکھا۔ امام صاحب اس ساری صورتِ حال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
منقول ہے کہ جب حضرت زین العابدین (علی بن حسین رحمہ اللہ) کے بیٹے زید نے ۱۲۱ھج میں شام بن عبدالملک اموی کے خلاف بغاوت کی تو امام ابوحنیفہ نے فرمایا: زید کا جہاد کے لیے نکلنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدر کے دن نکلنے کے مشابہ ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ امویوں کے خلاف بغاوت کو شرعی نقطہ نظر سے جائز سمجھتے تھے۔
سنہ 122 ھ میں زید کے قتل ہوجانے سے ان کی بغاوت ختم ہوگئی۔ سنہ 125 ھ میں ان کے فرزند یحیی خراسان میں آپ کے جانشین ہوئے اور والد کی طرح قتل ہوئے۔ پھر عبداللہ بن یحیی اپنا خاندانی حق لے کر اٹھے اور یمن میں بنوامیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کی فوج سے لڑے۔ سنہ 130 ھ میں آپ نے اپنے آباء و اسلاف کی طرح شہادت پائی۔ ہشام بن عبدالملک اموی نے سنہ 125ھ میں وفات کی۔ اس کے بعد ولید بن یزید، ابراہیم بن ولید، مروان بن محمد یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔
خلیفہ مروان بن محمد کے عراقی عامل یزید بن عمر بن ہبیرہ نے امام اعظم کو بلا کر محکمہ قضا کے خزانہ کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کو تفویض کرنا چاہی در اصل وہ آزمانا چاہتا تھا کہ بنو امیہ سے آپ کی کتنی محبت ہے ابوحنیفہ نے انکار کردیا۔ ابنِ ہبیرہ نے یہ پیشکش نہ قبول کرنے کی صورت میں زد و کوب کا حلف اٹھایا پھر امام صاحب کو قید کردیا اور جلاد کو کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ جلاد متواتر کئی روز تک کوڑے مارتا رہا۔ مجبوراً ابن ہبیرہ نے رہائی کا حکم دیا۔ امام صاحب رہا ہوئے اور سوار ہو کر مکہ مکرمہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ سنہ 130 ھ کا واقعہ ہے۔ عباسی خلافت قائم ہونے تک آپ مکہ میں اقامت پذیر رہے اور خلیفہ ابوجعفر منصور کے عہد خلافت میں کوفہ آئے۔
سنہ 132 ھ میں سلطنت اسلام نے دوسرا پہلو بدلا۔ یعنی بنوامیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ عباسیوں نے خلفائے بنو امیہ کی قبریں اکھڑوا کر ان کی ہڈیاں تک جلادیں پھر کیا تھا آلِ عباس تاج و تخت کے مالک ہوئے۔ اس خاندان کا پہلا فرماں روا ابوالعباس سفاح تھا۔ اس نے چار برس کی حکومت کے بعد سنہ 136ھ میں وفات پائی۔ سفاح کے بعد اس کا بھائی منصور تخت نشین ہوا۔ پھر جب تک علویوں اور عباسیوں میں خصومت کا آغاز نہ ہوا، امام صاحب خاموش رہے۔ مگر جب علویوں اور عباسیوں میں ٹھن گئی تو آپ نے علویوں کی تائید کی چناں چہ جب ابراہیم نے منصور کے خلاف خروج کیا تو آپ کا میلان ابراہیم کی جانب تھا۔ حماد بن اعین کا بیان ہے ابوحنیفہ لوگوں کو ابراہیم کی مدد پر ابھارتے تھے۔ ادھر منصور کے بدباطن خواص و امراء امام صاحب کے خلاف اشتعال انگیزی اور تنفر کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرتے تھے۔
خطیب بغدادی روایت کرتے ہیں کہ ربیع جو خلیفہ منصور کا عرض بیگی تھا، امام ابوحنیفہ سے عداوت رکھتا تھا ایک دن خلیفہ منصور نے امام ابوحنیفہ کو طلب کیا۔ ربیع بھی حاضر تھا، منصور سے کہا: یاامیرالمومنین! یہ شخص آپ کے دادا یعنی عبداللہ بن عباس کی مخالفت کرتا ہے اس طرح کہ عبداللہ بن عباس فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھالے اور دو ایک روز کے بعد ان شاء اللہ کہہ لے تو یہ استثناء قسم میں داخل سمجھا جائے گا اور قسم کا پورا کرنا کچھ ضروری نہ ہوگا۔ یہ ابوحنیفہ اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں اور کہتے ہیں ان شاء اللہ کا لفظ قسم کے ساتھ ہو تو البتہ جزئی قسم سمجھا جائے گا ورنہ لغو اور بے اثر ہے۔
امام صاحب نے کہا امیرالمومنین! ربیع کا خیال ہے کہ لوگوں پر آپ کی بیعت کا کچھ اثر نہیں ہے۔ منصور نے کہا: یہ کیوں کر کہا؟ امام صاحب نے کہا: ان کا گمان ہے کہ جو لوگ دربار میں آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں، گھر پر جاکر ان شاء اللہ کہہ لیا کرتے ہیں جس سے قسم بے اثر ہو جاتی ہے اور ان پر شرعاً کچھ مواخذہ نہیں رہتا۔ خلیفہ منصور ہنس پڑا اور ربیع سے کہا کہ تم ابوحنیفہ کو نہ چھیڑا کرو۔ ان پر تمہارا داؤ نہیں چل سکتا۔
امام صاحب دربار سے نکلے تو ربیع نے اُن سے کہا: ”تم میرا خون کرنا چاہتے تھے؟“ امام صاحب نے فرمایا: ”نہیں بلکہ تم ہی میرا خون بہانا چاہتے تھے۔میں نے تمہیں بھی بچالیا اور خود بھی بچ گیا۔“ پھر امام صاحب نے اپنے قریب والوں سے فرمایا: ”یہ آدمی مجھے باندھنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے ہی باندھ دیا۔“
ابوالعباس جو منصور کے دربار میں معزز درجہ رکھتا تھا۔ امام صاحب کا دشمن تھا اور ہمیشہ ان کو ضرر پہنچانے کی فکر میں رہتا تھا۔ ایک دن امام صاحب کسی ضرورت سے دربار میں گئے۔ اتفاق سے ابوالعباس بھی حاضر تھا۔ لوگوں سے کہا: آج ابوحنیفہ میرے ہاتھ سے بچ کر نہیں جاسکتے۔ امام صاحب کی طرف مخاطب ہوا اور کہا کہ ”ابوحنیفہ! امیرالمؤمنین یعنی خلیفہ منصور کبھی کبھی ہم لوگوں کو بلا کر حکم دیتے ہیں کہ اس شخص کی گردن مار دو۔ ہم کو مطلق معلوم نہیں ہوتا کہ وہ شخص واقعہ مجرم ہے یا نہیں۔ ایسی حالت میں ہم کو اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے یا انکار کردینا چاہے؟“
امام صاحب نے کہا: ”تمہارے نزدیک خلیفہ کے احکام حق ہوتے ہیں یا باطل؟“ منصور کے سامنے کس کی تاب تھی کہ احکام خلافت کی نسبت ناجائز ہونے کا احتمال ظاہر کرسکتا۔ ابوالعباس کو مجبوراً کہنا پڑا کہ حق ہوتے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا: ”تو پھر حق کی تعمیل میں پوچھنا کیا؟“ پھر امام صاحب نے اپنے قریب والوں سے فرمایا: ”یہ آدمی مجھے باندھنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے ہی باندھ دیا۔“
جب خلیفہ منصور نے قضا کے عہدہ کی پیشکش کی تو امام صاحب نے صاف انکار کردیا تھا اور کہا کہ میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا۔ منصور نے غصہ میں آکر کہا: ”تم جھوٹے ہو۔“ امام صاحب نے کہا: ”اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور سچا ہے کہ میں عہدہ قضا کے قابل نہیں کیوں کہ جھوٹا شخص قاضی مقرر نہیں ہوسکتا۔“
بہرحال اہل بیت کی طرف آپ کا صرف سیاسی میلان ہی نہ تھا بلکہ ان سے علمی تعلق بھی رکھتے تھے۔ مثلاً حضرت زید بن علی زین العابدین رحمہ اللہ المتوفی سنہ 122ھ سے آپ کا علمی رابطہ تھا اور وہ آپ کے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔
آپ محمد باقر رحمہ اللہ اور جعفر صادق رحمہ اللہ سے روایت کرکے ہیں جیسا کہ مسند ابی حنیفہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے۔
آخر کار آپ کا خاتمہ بھی حب اہل بیت، زہد و تقویٰ اور حق و صداقت سے وابستگی پر ہوا۔
اہل بیت سے میلان و محبت کے باوجود صحابہ سر بڑا حسنِ ظن تھا چناں چہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو صفِ اول میں جگہ دیتے تھے۔ حضرت عثمان کے حق میں بر سرِ عام شہر کوفہ میں دعاء رحمت کیا کرتے تھے۔ (حیات حضرت امام ابوحنیفہ)
ایک بار کسی نے سوال کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے باہمی اختلافات کے متعلق دریافت کیا: آپ کیا کہتے ہیں؟ فرمایا کہ قیامت میں جن باتوں کی پرسش ہوگی مجھ کو ان کا ڈر لگا رہتا ہے ان واقعات کو خدا مجھ سے نہ پوچھے گا اس لیے ان پر توجہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
خیرالقرون میں مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے ان کو اسلام کا ایک ضروری مسئلہ قرار دینا اور پر بحثوں کا دفتر تیار کرنا ایک فضول کام ہے۔ اسی کی طرف امام صاحب نے اشارہ کیا ہے۔