- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مؤمن اور منافق کی آزمائش میں فرق

عَن کَعب بن مالک رضی الله عنه قَالَ: قال رسولُ اللهِ صلی الله علیه وسلم: “مَثَلُ المُؤمِنِ کَمَثَلِ الخَامَةِ مَنَ الزَّرعِ تُفِیئُها الّریاحُ تَصرَعُها مَرَّةً وَ تَعدِلُها حَتّی یَأتِیَهُ أجَلُه، وَ مَثَلُ المُنافِقِ مَثَلُ الأرزَةِ المِجذِیَةِ الَّتی لَا یُصِیبُهَا شَیءٌ حَتّی یَکُونَ اِنجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً.” (المسلمک 7095)
(”حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤمن کی مثال کھیتی کے نرم و نازک پودے کی سی ہے کہ جسے ہوا اِدھر اُدھر جھکاتی رہتی ہے، کبھی اس کو زمین سے لگادیتی ہے تو کبھی سیدھا کھڑا کردیتی ہے، حتیٰ کہ اس کا مقررہ وقت (موت یا کامیابی) آجاتا ہے۔ اور منافق کی مثال صنوبر کے مضبوط جڑوں والے درخت کی طرح ہے، اس پر (ایسی) کوئی مشکل نہیں آتی (یعنی ہوا کے چلنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا) حتی کہ ایک ہی دفعہ میں وہ جڑوں سے اُکھڑ کر گِر جاتا ہے۔“)
خدمت خلق، سماجی تبدیلی اور غلبہ دین کی جد و جہد میں مصروف سچے مؤمن اور دھوکے باز منافق کی آزمائش کا تجزیہ اس حدیث مبارکہ میں یوں کیا گیا ہے کہ مؤمن کی زندگی مشکلات، تکلیفوں اور آزمائشوں سے بھری پڑی ہوتی ہے۔ نہایت کٹھن راستوں سے گزر کر وہ منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے۔ کبھی ذاتی زندگی کے مسائل آڑے آتے ہیں تو کبھی قومی دشمنوں کی طرف سے سازشیں ایسے روکتی ہیں کہ پہاڑ ہل جائیں۔ (القرآن 46:147) یہ مشکلات اسے بعض اوقات اس حد تک لاچار اور ناتواں کردیتی ہیں کہ منزل آنکھوں سے اوجھل ہونے لگتی ہے۔ حالات کی ناؤ ہچکولے لے رہی ہوتی ہے۔ مگر دل اللہ کی طرف متوجہ ہو کر مدد کا طلب گار ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد آجاتی ہے اور منزل مراد مل جاتی ہے یا اسی رضا اور تسلیم کی حالت میں اس کی موت کا وقت آجاتا ہے۔ جب کہ منافق کی کامیابی اور خوشی بہ ظاہر دائمی نظر آی ہے اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن اچانک اللہ کی تقدیر غالب آتی ہے اور اس کو ایسی آفت گھیرتی ہے کہ اُسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے، جیسے صنوبر کا تنا بالکل جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہو۔
اس حدیث سے اہلِ حق کو یہ نصیحت مقصود ہے کہ انھیں اپنے دشمنوں کی طاقت، دولت اور ان کی چلت پھرت سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی مشکلات اور آزمائشوں سے دل برداشتہ ہونا چاہیے۔ ہر حال میں پروردگار کی طرف رجوع رہے اور اپنی منزل کو سامنے کرھ کر تنگی اور خوش حالی، مشکل اور آسانی میں استقلال کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ ایک دن اللہ تعالی مقصد میں یا تو کامیابی دے دیتے ہیں یا پھر ایمان کی سلامتی کی ساتھ موت آجاتی ہے اور آخرت سنور جاتی ہے۔ مؤمن کی ان دو صورتوں میں حقیقی کامیابی ملتی ہے کہ اُسے دنیا کے اندر اپنے دینی مقصد میں کامیابی ملتی ہے یا اسی کوشش اور جد و جہد کے راستے پر چلتے ہوئے وہ اللہ سے ملاقات کرتا ہے۔