- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عاشورا و اربعین میں ماتم اہل سنت کی فقہ میں نہیں ہے

نامور سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے اسلامی اتحاد کو قرآن و سنت کے مطابق یاد کرتے ہوئے کہا: عاشورا اور چہلم منانا اہل تشیع کے ساتھ خاص ہے اور فقہ اہل سنت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت نے ایران میں شیعہ سنی کے اچھے تعلقات اور برادرانہ تعلقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمارے بھائی چارہ کی جڑیں قرآن و سنت میں ہیں جنہوں نے ہمیں اتحاد و بھائی چارہ کی دعوت دی ہے۔
انہوں نے تاکید سے کہا: قومیتوں اور مسالک کے برادرانہ تعلقات سیاسی نہیں ہیں جو وقتی مفادات کی خاطر ہوں، یہ ایک دینی بھائی چارہ ہے جس کی جڑیں دین اسلام میں پیوست ہیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مرشد اعلی ایران کی ایک مجلس میں خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہمارے مشترکہ امور اور مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ مختلفہ مسائل تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ ہماری اخوت و بھائی چارہ کی اساس بھی مشترکہ امور پر ہے۔ ہم سب کو مشترکہ امور پر توجہ دے کر اختلافی مسائل کو چھیڑنے کے بجائے، انہیں ہر مسلک و فرقہ کے پیروکاروں کے لیے چھوڑدینا چاہیے۔

اتحاد المسلمین کا مطلب مسالک کا ادغام نہیں ہے
اتحاد اسلامی کے مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران میں بانیء انقلاب سے لے کر مرشد اعلی سمیت تمام اعلی ذمہ داران اور شیعہ و سنی علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتحاد المسلمین کا مطلب ہرگز دو مسلکوں کا آپس میں ادغام اور یکجا ہونا نہیں ہے کہ کسی مسلک کے پیروکار دیگر مسلک کے مخصوص عقائد و اعمال کی پیروی کریں۔ ہر مسلک کے اختلافی مسائل کو اسی مسلک کے لیے چھوڑدینا چاہیے۔
مولانا نے مزید کہا: اہل بیت نبی ﷺ سے محبت تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے۔ سب مسلمان ان اکابر سے پیار کرتے ہیں۔

عاشورا و چہلم میں ماتم اہل تشیع کے ساتھ خاص ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: عاشورا اور حضرت حسینؓ کے چہلم پر ماتم کرنا شیعہ بھائیوں کے مخصوص عقائد میں شامل ہے، لیکن کچھ چھوٹے درجے کے ذمہ داران کی تلاش ہے کہ اہل سنت کو بھی ان تقریبات میں شریک کرائیں۔ اس سے اتحاد کو فائدہ نہیں، الٹا نقصان پہنچے گا۔ جب لوگوں کو کسی عمل یا عقیدہ پر مذہبی اور فقہی وابستگی سے ہٹ کر بجالانے کا کہا جائے یا انہیں مخصوص تقاریب میں شریک کرایاجائے، ان کا ضمیر انہیں ملامت کرے گا اور وہ وسوسے کا شکار ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا: جو فتویٰ ہے، اسی پر عمل کرنا تقویٰ کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی بات شیعہ مسلک میں نہ ہو اور وہ اپنے مسلک کے خلاف کسی اور مقصد کے لیے اس پر عمل کرے، یہ تقویٰ کے خلاف ہوگا۔ اسی طرح اہل سنت کو اپنے ہی عقائد کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اسی صورت میں ہمارا اتحاد مزید مستحکم ہوگا۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: تمام اداروں اور محکموں کو ہماری نصیحت ہے کہ لوگوں کو ان کے مسلک کے خلاف امور پر عمل کرنے اور اکسانے سے گریز کریں، اس سے اتحاد کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ہر مسلک کے پیروکاروں کو اپنے ہی مسلک کے مطابق عمل کرنے دیں۔

مزارات کی زیارت کے لیے پیدل چلنا، قافلہ بنانا فقہ اہل سنت میں نہیں ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بعض مزارات کی جانب پیدل چلنے اور قافلوں کی تشکیل پر اہل سنت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: اگرچہ قبروں کی زیارت کے حوالے سے حدیث میں ترغیب آئی ہے، لیکن اولیاء اللہ کے مزاروں کی زیارت کے لیے پیدل چلنا اور قافلے تشکیل دے کر اسے باعث ثواب سمجھنا اہل سنت کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور ماضی میں بھی ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ شیعہ حضرات جو ایسا کرتے ہیں، اپنے ہی مسلک اور فقہ کے مطابق عمل کرتے ہیں، لیکن جو لوگ ایسے امور کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں، انہیں اپنے ہی حال پر چھوڑدینا چاہیے۔ کسی بھی ادارے کو اپنے اثرو رسوخ اور پوزیشن سے ایسے مذہبی امور میں مداخلت کے لیے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔

قرآن پاک روح و جسم کی صحت کے لیے بہترین رہنما ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطبہ جمعہ کے پہلے حصے میں بعض روحانی امراض کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بدگمانی اور تکبر کو دیگر گناہوں کی جڑ یاد کی اور قرآنی رہنمائیوں کی نشاندہی کی جو روح و جسم کے لیے مفید ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے سورہء حجرات کی آیت بارہ سے اپنے بیان کا آغاز کرتے ہوئے کہا: انسان کے جسم و روح صحت کے محتاج ہیں۔ عقلمند شخص اپنے روحانی و جسمانی امراض کے علاج کے لیے منصوبہ بندی کرتاہے اور ماہر ڈاکٹروں اور اطبا سے مشورت لیتاہے۔
انہوں نے بدگمانی کو ایک خطرناک مضرِ صحت بیماری یاد کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک ہر قسم کی بیماریوں کے علاج کے لیے رہ نمائی فراہم کرتاہے۔ بدگمانی خطرناک روحانی امراض میں شامل ہے جو بندے کی روحانیت ختم کردیتی ہے۔ اللہ تعالی کے یہاں یہ ایک بڑا گناہ ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔
مولانا نے مزید کہا: اگر بدگمانی وسوسے کی حد تک ہو، اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔ لیکن اگر بندہ اپنی بدگمانی کو پروان چڑھاکر تجسس کا آغاز کرے اور غیرذمہ دارانہ رویہ اپنائے، اس پر مواخذہ ہوگا۔ ہم لوگوں کے وکیل، چوکیدار یا ذمہ دار نہیں ہیں کہ ان کے نجی معاملات دیکھ لیں۔ اگر کسی کے دل میں وسوسہ آیا، فورا اسے دفع کرے۔ کسی کو گناہ کی جگہ سے آتے جاتے دیکھنے کی صورت میں اس کی مناسب تاویل کریں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: بدگمانی بعض دیگر گناہوں کا باعث بنتی ہے، مثلا بدگمانی کی وجہ سے لوگ دشمنی کا آغاز کرتے ہیں، پھر سوشل میڈیا میں الزام تراشی کرتے ہیں اور غیبت و عیب جوئی پر اتر آتے ہیں۔ قرآن پاک نے ہمیں بدگمانی سے منع کیا ہے، پاک و صاف لوگوں کے حوالے سے بدگمانی رکھنا گناہ اور جرم ہے۔
انہوں نے کہا: غیبت اور لوگوں کے عیوب کے پیچھے پڑنا خطرناک گناہ ہیں جو انسان کو جہنم تک لے جاتے ہیں۔ لوگ ان معاصی کو معمولی سمجھتے ہیں، لیکن یہ مہلکات میں شامل ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام نے ایک دوسری روحانی بیماری کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: تجسس اور غیبت کی جڑ تکبر ہے۔ متکبر لوگ خود کو بڑے اور پاک و مقدس سمجھ کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ دسیوں گناہ تکبر ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ تکبر ہی کہ وجہ سے شیطان ملعون ہوکر ہمیشہ کے لیے اللہ کی رحمت سے محروم ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ تواضع کی صفت پیدا کریں، خود کو دوسروں سے کم سمجھیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہرجگہ اعلان کریں کہ ہم سے زیادہ برا دنیا میں کوئی نہیں! دل میں یہی سوچیں کہ ہم دوسروں سے کمتر ہیں۔ اپنے لیے خاص مقام اور عزت تلاش نہ کریں۔ اگر کسی کو خدمت و بندگی کا موقع ملا ہے، اسے اللہ کا فضل سمجھے۔