- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

امربالمعروف و نہی عن المنکرسے مسلمان عزت و مقبولیت پائیں گے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے گیارہ اکتوبر دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں دعوت الی اللہ کی اہمیت اور اس کے طریقوں پر خطاب کرتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں کی عزت و مقبولیت کا ذریعہ یاد کیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے سورت آل عمران کی آیت نمبر 110 کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر در حقیقت اسلام کی بنیادوں اور تمام آسمانی ادیان و مذاہب میں بنیادی حیثیت کے حامل ہے۔ جب بھی کسی قوم نے اپنی اس ذمہ داری پوری کی ہے، اس سے دین الہی بھی قائم رہی ہے اور اللہ تعالی نے اس قوم کی عزت و مقبولیت میں بھی اضافہ فرمایا ہے۔ لیکن جب مختلف اقوام نے سستی دکھائی اور دعوت کا کام چھوڑدیا، ذمہ داری کا احساس ہی باقی نہ رہا، پھر انہیں شکست، گناہوں کی یلغار اور دشمنوں کی ثقافتی و عسکری جیسے مسائل کا سامنا ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ کے بعد اللہ تعالی نے نبوت کا دروازہ بند کرکے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری امت مسلمہ پر ڈالا ہے۔ دراصل امت اس مہم میں آپﷺ بلکہ تمام انبیا علیہم السلام کا جانشین ہے۔ لہذا ن ہی پیغمبروں کی طرح ظلم و فساد، ناانصافی اور تمام معاصی کے خلاف مزاحمت کرے اور اچھائیوں کی طرف بلائے۔ جب یہ امت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، اللہ تعالی ہر قسم کی رحمتوں اور برکتوں کو ان پر نازل فرماتاہے۔
شیخ الحدیث و صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: قرآن پاک سے یوں معلوم ہوتاہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر سب کی ذمہ داری ہے؛ یہ کسی خاص طبقے یا برادری کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن امت میں ایک خاص جماعت دعوت کے کام کے لیے فارغ ہونی چاہیے جس طرح ہمارے دور میں جماعت دعوت و تبلیغ اس عظیم کام کے لیے وقف ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اصلاحِ معاشرہ کا کام کسی مخصوص گروہ اور طبقے کے بس کی بات نہیں ہے، اسی لیے سب لوگ اس کارِ خیر میں شریک ہوجائیں۔ دنیا کی حکومتیں، خاص طورپر دینی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خدا کے قانون کی مخالفت سے روکیں۔
مولانا عبدالحمید نے دعوت الی اللہ کے مثبت اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر مسلم سماج کے تمام طبقے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، بلاشبہ پورا معاشرہ اصلاح و تزکیہ کی راہ پر گامزن ہوجائے گا اور سب کو گناہوں سے نجات ملے گی۔ معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی ہوگی اور معاشرہ اچھائیوں کی طرف جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: آج ہرسو فساد، غفلت اور اللہ کی نافرمانی پھیلی ہوئی ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داریاں سماج کے حوالے سے پوری نہیں کرتے ہیں۔ ذمہ داری کا احساس ہی باقی نہیں رہاہے۔ گھروالوں، عمائدین، علمائے کرام اور اساتذہ کی ذمہ داریاں بھاری ہیں اور نئی نسل کی تربیت کے لیے سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ محنت کرکے اپنا کردار ادا کریں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ حکیمانہ اور خیرخواہانہ دعوت کا اچھا اثر رہتاہے۔ لہذا حق بات کہنے سے گریز مت کریں اور شرمندگی کا احساس کیے بغیر حق کی بات عادلانہ انداز میں بتائیں۔ ہمیشہ حکمت و بصیرت کے ساتھ حرفِ حق زبان پر لائیں جس سے اللہ راضی ہوتاہے۔

صوبائی و ملکی حکام متعصب افراد کے سامنے ڈٹ جائیں
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ’نفاذِ عدل‘ پر زور دیتے ہوئے صوبائی و ملکی حکام کو تنگ نظر اور متعصب افراد کے سامنے ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔
مولانا عبدالحمید نے نفاذِ عدل پر تاکید کرتے ہوئے کہا: عدل و انصاف دین کے اہم ارکان میں شامل ہے جس کا نفاذ انبیا علیہم السلام اور دین کا مطلوب و مقصود تھا۔ نفاذ عدل ذاتی، جماعتی، مسلکی اور خاندانی مسائل سے بڑھ کر زیادہ اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: عدل و انصاف کا نفاذ کسی ملک اور ریاست سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ سب کی مصلحت اور بقا کا راز عدل ہی میں ہے۔ کسی بھی قسم کے ذاتی، خاندانی اور جماعتی رجحان کو عدل کے سامنے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ جس طرح اللہ کا حکم آیاہے، اسی طرح عدل نافذ ہونا چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: قرآن پاک کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوتاہے کہ انسانوں میں ہمیشہ ایک جماعت درست راستے پر گامزن رہتی ہے جس کی تلاش ہے عدل و انصاف نافذ ہو۔ یہ پیغمبروں اور ہر قوم کے بڑوں پر مشتمل جماعت ہے، لیکن اس کے برخلاف ایک ایسی جماعت بھی ہے جو لسانی و مذہبی رجحانات کو ترجیح دیتی ہے، یہ لوگ دوراندیش نہیں ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے سورت الروم آیت نمبر ساٹھ میں نبی کریم ﷺ کو ان لوگوں کے سامنے صبر کرنے کا حکم دیاگیا ہے جو آپ ﷺ کو اوچھا بنانے کی کوشش کررہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی نے حضرت موسی و ہارون علیہماالسلام کو سورت یونس میں مخاطب کرکے فرمایا ہے: تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور بے عقلوں کے رستے نہ چلنا۔ کسی خطہ اور ملک کے حکام کو بھی چاہیے ایسے افراد کی بات نہ مانیں جو تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہوچکے ہیں۔ ورنہ اس کا نقصان ان کی وحدت، ریاست اورحکومت کو پہنچے گا۔ لہذا چھوٹے درجے کے بیوروکریٹس مرشد اعلی اور صدر مملکت کی پیروی کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اس قوم کا کیا حال بنے گا جس کے بڑے اپنے چھوٹوں کی پیروی کریں اور لسانی و جماعتی اور مسلکی تعصب کا شکار ہوکر عدل و انصاف کو پاؤں تلے روندیں۔ تنگ نظر اور متعصب افراد کی اتباع کسی بھی قوم اور ملک و ریاست کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے کہا: ایک پیش امام کی حیثیت سے بندہ کے لیے شیعہ سنی کا کوئی فرق نہیں ہے۔ میرے نزدیک دونوں انسان ہیں اور ان کے عقائد کا ان کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے، سب کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
ممتاز سنی عالم دین نے مزید کہا: میرا عقیدہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب اور مسالک و اقوام کو ایک ہی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، سب کے حقوق کی پاسداری ضروری ہے۔عہدوں کی تقسیم میں لوگوں کے لسانی، مسلکی اور مذہبی تعلق پر توجہ دینے کے بجائے ان کی صلاحیتوں اور دیانتداری کو دیکھاجائے۔

اہل سنت بطور خاص میرٹ کو نظرانداز کرنے سے نالاں ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ہمارا شکوہ اور بہت سارے لوگوں کی شکایت بھی ہے کہ ملک میں عہدوں کی تقسیم میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جاتاہے۔ حالانکہ سینئر حکام کو چاہیے صرف لوگوں کی صلاحیتوں کو دیکھیں؛ یہ نقطہ نظر عدل و انصاف کے مطابق ہے اور اسی سے اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: شیعہ و سنی علمائے کرام اور دانشوروں کو چاہیے مذہبی و لسانی تعلقات سے بالاتر ہوکر صرف لوگوں کے استعداد، تخصص اور صلاحیتوں کو دیکھیں۔ اللہ تعالی کی رضامندی اور عدل کا تقاضا اسی میں ہے۔ اس کے بغیر اللہ کی نصرت نصیب نہیں ہوسکتی ہے۔
شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان کے صدر نے صوبہ سیستان بلوچستان کے حکام کو مخاطب کرکے کہا: صوبائی حکام اور ڈائریکٹرز لسانی و مسلکی نگاہوں سے بالاتر ہوکر لوگوں کے ٹیلنٹ دیکھیں اور میرٹ ہی کی بنیاد پر ان سے کام لیں۔ امن و اتحاد اور ملک و ریاست کی بقا کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا: صوبے کے مرکز میں سب قومیتیں اور مسالک کے لوگ بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں اور یہاں ایک دوستانہ فضا قائم ہے۔ ان میں عدل کا نفاذ ان کے اتحاد کو مزید گہرا بنادے گا اور اس سے دشمن بھی مایوس ہوکر رہیں گے۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے وزارت تعلیم کے صوبائی ڈائریکٹر (حمیدرضا رخشانی) کی موجودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: نئی نسل کی تربیت اور تعلیم معاشرے کے اہم ترین امور سے ہے۔ تعلیم تمام اقوام اور حکومتوں کا ذہنی مشغلہ بن چکی ہے جو اس میدان میں پیسہ لگاکر سرمایہ کاری کرتی ہیں۔