- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حقیقی انقلاب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو لکھا: جنگ شروع کرنے سے پہلے اسلامی آئین کے مطابق یزدگرد کے سامنے صلح کی شرائط پیش کردی جائیں اور اس مقصد کے لیے سفیر مدائن (فارس کے دارالحکومت) بھیجے جائیں۔ یزدگرد کو اسلامی سفیروں کے آمد کی اطلاع ملی تو اس نے خاص طور پر دربار کو آراستہ کیا۔ اس نے سوچا کہ اتنی عظیم مملکت کے سفیروں کا استقبال ان کے شایان شان تُزُک و احتشام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب مسلم سفیر وہاں پہنچے تو ان کی حالت یہ تھی: طویل سفر کے سبب چہروں پر تھکاوٹ کے آثار، کندھوں پر بوسیدہ چادریں، ہاتھوں میں چابک، پاؤں میں موزے اور سواری کے گھوڑے دبلے پتلے گرد اڑاتے چلے آرہے تھے۔ یزدگرد یہ منظر دیکھ کر حیران ہوگیا: اتنی عظیم مملکت اور اس کے سفیروں کی یہ حالتِ زار، اسے ان سے بات کرنا بھی گوارا نہ تھی، لیکن جب اس کے اہل دربار نے اس پر زور دیا تو وہ با دلِ ناخواستہ ان سے ملنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ وفد دربار میں پہنچا تو ان کے رئیس نے حسبِ معمول شہنشاہ ایران سے کہا یا تو اسلام قبول کرکے ہم میں سے ہوجاؤ یا اسلامی مملکت کے اقتدار کی برتری تسلیم کرلو تا کہ تم بھی محفوظ رہو اور تمہارا ملک اور اس کے باشندے بھی اور اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر تلوار کے فیصلے کا انتظار کرو۔
یزدگرد نے یہ سنا تو غصہ کے مارے آگ بگولا ہوگیا، کہنے لگا: تم وحشی اور بدتہذیب عرب (فردوسی کے الفاظ میں) سوسمار کھانے والے، اونٹوں کا دودھ پینے والے گنوار اور تمہاری جرأت و جسارت کا یہ عالم! کیا تم بھول گئے ہو کہ تم جب معمولی سی سرکشی کیا کرتے تھے تو ہم (اہل فارس) خود تمہارے مقابلے میں آنا اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے، ہم اپنے باجگزار سرداروں کو حکم دیتے تھے اور وہ تمہاری گوشمالی کرکے تمہیں سیدھا کردیتے تھے۔ اب اگر بھوک اور افلاس نے تم لوگوں کو جنگ پر آمادہ کردیا ہے، تو ہم تمہارے لیے روٹی کپڑے کا بندو بست کردیتے ہیں، جاؤ! آرام سے بیٹھو، کیوں اپنی جان کے درپے ہو۔
رئیس وفد نے یزدگرد کی باتوں کو نہایت سکون و اطمینان سے سنا اور کہا: تم نے ہماری پہلی حالت کے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، ہم اس سے بھی زیادہ جاہل اور زبوں حال تھے لیکن خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت نے ہمارے اندر جو انقلاب برپا کردیا ہے، اس کا تمہیں علم نہیں، اب ہم ایک بدلی ہوئی قوم ہیں۔ میں ان تین شرطوں کو پھر سے دہرائے دیتا ہوں جو پہلے پیش کی گئی ہیں، بولو! کیا چاہتے ہو؟ یہ سن کر یزدگرد آپے سے باہر ہوگیا اور غیظ و غضب میں آکر بولا: اگر سفیروں کو قتل کرنا سفارتی اقدار کے منافی نہ ہوتا، تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ جاؤ اور جو تمہارے جی میں آئے کرو، لیکن جاتے جاتے ایک تحفہ ضرور لیتے جاؤ، یہ کہہ کر اس نے مٹی کا ایک ٹوکرا منگایا اور اسے رئیس وفد کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے ٹوکرا اٹھایا اور شاداں و فرحاں اپنے سپہ سالار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچے، ان کو سارا ماجرا سنایا اور اس کے بعد مٹی کا وہ ٹوکرا پیش کرتے ہوئے کہا: ”مبارک ہو، یزدگرد نے خود ہی اپنی زمین ہمارے حوالے کردی۔“ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ اس مٹی کے ٹوکرے میں فی الواقعہ سلطنت فارس کی سرزمین سمٹ کر آگئی تھی۔
الغرض لشکر اسلام مقابلے کے لیے نکلا اور دوسری جانب سے رستم مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ رستم کا لشکر کَرّ و فر والا تھا، ایک لاکھ اسّی ہزار فوج تھی، تقریبا تین سو جنگی ہاتھی فوج کے ہمراہ تھے اور آلات حرب و ضرب اور سامان جنگ کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس اہتمام کے باوجود رستم جنگ کو ٹالنا چاہتا تھا، وہ مجاہدین سے واقف تھا، اس لیے ان کے سامنے آنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا، چنانچہ اس نے مدائن سے قادسیہ تک تیس چالیس میل کا فاصلہ طے کرنے میں چھ ماہ صرف کردیے اور جب اس نے دیکھا کہ اب کوئی راہ فرار نہیں ہے اور یزدگرد کے حکم کی تعمیل کرنی ہی ہوگی، تو وہ قادسیہ کے قریب مقام عتیق میں خیمہ زن ہوگیا۔ اب بھی اس کی خواہش تھی کہ کسی طرح مقابلے کی نوبت نہ آئے، اس لیے اس نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ کسی سفیر کو بھیج دیں تا کہ اس سے مصالحت کی بات ہوسکے، چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر رستم کے پاس بھیجا۔
رستم نے بھی (یزدگرد کی طرح) نہایت شان و شوکت کے ساتھ دربار کو آراستہ کیا، سونے کا تخت بچھایا اور اس کے چاروں طرف حریر و اطلس اور رومی قالینوں کا فرش بچھایا، اوپر سنہری شامیانے لگائے گئے جن کی جھالریں موتیوں کی تھیں، لیکن آج اسے کچھ اور ہی طرح کے انسانوں کا سامنا تھا، اللہ کی راہ میں شہادت جن کی تمنا اور منزل تھی۔ حضرت ربعی رضی اللہ عنہ اپنے مخصوص سکندرانہ جلال اور قلندرانہ اداؤں کے ساتھ دربار میں پہنچے۔ ایک خندہ استغنا سے گرد و پیش پر نظر ڈالی۔ فرش پر اپنا نیزہ گاڑ کر اس کے ساتھ گھوڑا باندھا اور نہایت بے تکلفی سے تخت کے ایک طرف رستم کے برابر بیٹھ گئے۔ اہل دربار نے روکنا چاہا تو آپ نے کہا: ہمارے ہاں اس کی سخت ممانعت ہے کہ ایک شخص خدا بن کر بیٹھ جائے اور باقی انسان اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں،رستم نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ان سے مت الجھو۔ یہاں بھی اسی انداز کے سوال و جواب ہوئے جو یزدگرد کے دربار میں ہوئے تھے، دورانِ گفتگو رستم نے حضرت ربعی رضی اللہ عنہ سے کہا: تمہاری تلوار کا نیام بہت بوسیدہ ہے، آپ نے جواب دیا: سپاہی کا مقصد تلوار اور اس کی دھار سے ہوتا ہے نہ کہ اس کے نیام سے، تم نے اس تلوار کی دھار کو نہیں دیکھا، اسے دیکھو گے تو سمجھ میں آجائے گا کہ یہ کیا ہے، پھر اس نے کہا: تمہارے نیزے کا پھل بہت چھوٹا سا ہے، یہ لڑائی میں کیا کام دیتا ہوگا، انہوں نے کہا: وہی کام جو ایک چنگاری نیستاں (پورے جنگل کو آگ لگانے) کے لیے دیتی ہے، یعنی جس طرح ایک چنگاری پورے جنگل کو جلا ڈالتی ہے، ہمارے مجاہد اور ہمارے ہتھیار لشکر اعداء کو تہس نہس کرنے میں وہی کام انجام دیتے ہیں۔
سفارت کاری کا سلسلہ تین دن تک جاری رہا، لیکن مصالحت کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی، کیونکہ اہل توحید اور اہل حق کے نزدیک حق اور باطل کے درمیان سودا بازی، کچھ لو اور کچھ دو والا معاملہ نہیں ہوسکتا۔ باطل اپنے مقام سے جتنا بھی چاہے سرک جائے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، وہ باطل ہی رہتا ہے، لیکن حق اگر اپنے مقام سے ذرہ برابر بھی سرک جائے تو وہ حق نہیں رہتا، باطل ہوجاتا ہے۔ غلط جواب سینکڑوں ہوسکتے ہیں، صحیح جواب ایک ہی ہوتا ہے، یہی سبب ہے کہ حق و باطل میں مفاہمت نہیں ہوسکتی، یہی اسلام کا پیغام ہے، یہی دین کی اساس ہے، پس سفیر اسلام باطل کے ساتھ مفاہمت کے لیے آمادہ نہ ہوئے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
اس کا نتیجہ قادسیہ کا لرزا دینے والا معرکہ تھا۔ ایرانی لشکر کے مقابلے میں اسلامی لشکر کل تیس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا، جن کے پاس وہی بوسیدہ نیاموں والی تلواریں اور چھوٹی انیوں والے تیر اور نیزے تھے، لیکن ان کے سینوں میں دھڑکنے والے وہ بیقرار دل تھے، جن کے شوق شہادت کا عالم دیدنی تھا۔ معرکہ کار زار گرم ہوا۔ سپہ سالار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو عِرق النساء کی شدید تکلیف تھی جس کی وجہ سے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں نہیں آسکتے تھے۔ پس وہ میدان جنگ کے ایک سرے پر ایک عمارت میں لیٹے ہدایات دے رہے تھے، تین دن کے زبردست معرکے کے بعد اہل فارس کو شکست ہوئی، رستم مارا گیا اور سلطنت فارس کا خاتمہ ہوا۔
پس حقیقی انقلاب وہی ہے جو زیر دست کو بالا دست بنادے اور بالادست کو قانون کا تابع بنادے، انسانیت کو احترام ملے، بندوں کی خود ساختہ خدائی کا خاتمہ ہو اور حاکمیت الہیہ کے مناظر و مظاہر چہار سو نظر آئیں۔ انقلاب محض چہروں کی تبدیلی کا نام نہیں ہے، اس میں نظام بھی بدلتا ہے اور منتظم بھی بدل جاتے ہیں، انقلاب جاری نظام میں پیوند کاری یا مفاہمت کا نام نہیں ہے، بلکہ اسے جڑ سے اکھیڑ کر نئی اساس پر قائم کرنے کا نام ہے، اسی کو اسلامی اصطلاح میں تجدید و احیائے دین اور جدید اصلاح میں نشاۃ و نہضت کہتے ہیں۔ ہم جس تبدیلی کے تجربے سے گزر رہے ہیں، وہ محض چہروں کی تبدیلی ہے، بلکہ اکثر چہرے بھی پرانے ہیں، مقتدرہ کی ساخت بھی وہی ہے، نظام آئین و قانون میں کوئی جوہری تبدیلی بھی نہیں ہے، اس لیے اس کے ثمرات نظر نہیں آرہے۔