- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

گناہوں سے انفرادی و اجتماعی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی کو مسلمانوں کے تمام مسائل، بحرانوں اور پریشانیوں کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے توبہ اور زندگی میں تبدیلی لانے پر زور دیا۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سورت الرعد کی آیت نمبر گیارہ سے اپنے تئیس اگست دوہزار انیس کا خطبہ شروع کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک ایک عظیم الشان بے مثال کتاب ہے جو حکمتوں سے مالامال ہے۔ اس عظیم کتاب میں ہمارے تمام سوالوں اور حاجتوں کے جوابات پائے جاتے ہیں، اگر ہمیں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا، اس کی وجہ ہماری علمی کمزوری ہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: گناہوں اور معاصی کی وجہ سے اللہ تعالی کی نعمتیں ہاتھ سے جاتی ہیں۔ بہت سارے لوگ جب اپنی جائیدادیں، دولت اور عہدہ کھوبیٹھتے ہیں، ان کی دنیا میں تبدیلی آتی ہے۔ ایسے حالات میں توبہ ہی واحد راستہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: کوئی بھی قوم جو اللہ کی نعمتوں کی قدردانی نہ کرے، اللہ تعالی اپنی نعمتیں ان سے چھین لیتا ہے۔ مسلمان اور غیرمسلم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ کی نعمتوں کی قدردانی چھوڑیں، وہ بھی مسائل و بحرانوں سے دوچار ہوجائیں گے۔ ہم سب کی انفرادی و اجتماعی مسائل کی جڑ اللہ کی نافرمانی و ناقدری ہی ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا:  فرعون کو اللہ تعالی نے مختلف قسم کی نعمتوں اور سہولیات سے نوازا تھا، اسے طاقت عطا فرمائی تھی۔ لیکن اس نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت کا مقابلہ کیا اور حرفِ حق ماننے سے انکار کیا، اللہ تعالی نے تمام نعمتیں اس سے چھین لی اور اسے رسوا کرکے ہلاک کردیا۔ یہ فرعون اور فرعونیوں کی سرکشی ہی تھی جس نے انہیں تباہ کرکے رکھا۔

مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: غزوہ احد میں صحابہؓ کا ایک دستہ کسی پہاڑی پر متعین تھاجن میں سے بعض نے اپنے امیر کی بات نہ مانی اور یہ سوچ کر کہ جنگ ختم ہوچکی ہے، گھاٹی چھوڑ کر نیچے چلے گئے۔ حالانکہ انہیں حکم تھا کسی بھی صورت میں گھاٹی نہ چھوڑیں۔ اسی لیے مسلمانوں کا لشکر جزوی طورپر شکست کھاکر پسپا ہوگیا اور نبی کریمﷺ زخمی ہوگئے۔

انہوں نے کہا: فسق و فجور اور معاصی سے انسان کو شکست کا سامنا کرنا پڑتاہے جبکہ اطاعت شعاری و فرمانبرداری سے سعادت و کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن جب معاشرے میں گناہ عام ہوجائے، اللہ تعالی اس معاشرے کو مشکلات و بحرانوں سے دوچار کرے گا۔ اگر مسلمان مختلف قسم کے مسائل، جنگ و لڑائی اور ناانصافی و بے رحمیوں سے نجات چاہتے ہیں، انہیں چاہیے اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں۔

مسلمان امتیازی رویوں اور خشک تعصبات سے دوری کریں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں توبہ اور گناہوں سے دور بھاگ کر اپنی حفاظت کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا: موجودہ حالات اور مسلمانوں کے مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ سب مسلمان اور مسلم برادریاں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں۔ دینی مدارس چاہے اہل تشیع کے ہوں یا اہل سنت کے، ان میں اور دونوں فریق کے علمائے کرام کو چاہیے اپنی برداشت کا گراف اونچا کریں اور تعصب، الزام تراشی اور عدم برداشت کو مٹادیں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: اسلام دین رحمت ہے؛ انتہاپسندی، تنگ نظری اور ذاتی رویوں سے اسلام کی نمائندگی کرنے سے لوگ یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ اسلام رحمت نہیں زحمت ہی ہے۔

انہوں نے مسلمانوں کو درختِ اسلام کی شاخیں یاد کرتے ہوئے کہا: مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ انہیں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دشمنی، عدم برداشت، امتیازی رویے، تنگ نظری، گستاخی اور دوسروں کی بے احترامی جیسی چیزیں ان کے درمیان سے ختم ہوجائیں۔ انہیں ایک دوسرے کو راحت پہنچانا چاہیے۔

جبری اعتراف لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں ملزموں سے ’جبری اعتراف‘ لینے کی مذمت کرتے ہوئے ایسے اقدامات کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے حال ہی میں ایرانی نیوکلیئر سائنسدانوں کے ٹارگٹ کلنگ کیس کی نئی تفصیلات کے انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: حال ہی میں نیوکلیئر سائنسدانوں کے قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والوں کے بارے میں میڈیا میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق ملزمان سے زبردستی اور ٹارچر کے بل بوتے جعلی اعتراف لیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اسلام کے مطابق کوئی بھی اعترافی بیان جو دباؤ اور اذیت و ٹارچر کے بل بوتے لیا جائے، ناقابل قبول ہے اور اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ جو لوگ زورزبردستی کرکے ٹارچر کے سہارے لوگوں سے اعتراف لیتے ہیں، ان کی شناخت اسلام ہی سے غلط ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: کچھ لوگ دیگر افراد کو اغوا کرکے ٹارچر کے بعد ان سے اعترافی بیان لیتے ہیں کہ اتنے پیسے ان سے چاہتے ہیں یا وہ فلاں جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں، ایسے اعترافات ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ جبری اعتراف لینا اسلامی شریعت کے خلاف ہے۔

مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: ہم سب کو اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی تعلیمات کی پیروی و اتباع کرنی چاہیے۔ اگر کوئی جج اعتراف لینے کے لیے ’تعزیر‘ کا حکم دیتاہے، اس کا یہ فیصلہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے اور اس طرح کے اعترافات اسلام میں نامعتبر ہیں۔ لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ داران سے ہمارا مطالبہ ہے کہ کسی بھی ادارے میں اس طرح کے واقعات کی اجازت نہ دیں۔

انہوں نے بعض پالیسیوں میں نظرثانی پر زور دیتے ہوئے کہا: ہم سب انسان ہیں اور ہوسکتاہے ہم سے غلطی سرزد ہوجائے، لہذا یہ اہم ہے کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرکے تبدیلی کی کوشش کریں۔

ممتاز عالم دین نے کہا: نئے چیف جسٹس کی آمد سے عدلیہ میں اصلاح اور اقتصادی بدعنوانیوں کے خلاف ایکشن لینے کے حوالے سے کوششیں دیکھنے میں آرہی ہیں جو خوش آئند اقدام ہے۔ تمام ادارے اور شعبے اپنی پالیسیوں میں نظرثانی و اصلاح و تبدیلی کے محتاج ہیں۔