- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عید کے دن سب سے بڑی عبادت قربانی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے نو اگست دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں عشرہ ذوالحجہ کے باقی ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے پر زور دیتے ہوئے عید کے دن جانور کی قربانی کو سب سے بڑی عبادت یاد کی۔
ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ قربانی کا گوشت اور نہ ہی اس کا خون اللہ کو پہنچتاہے، بلکہ تقویٰ تہماری جانب سے پہنچتاہے۔ جو شخص مستطیع ہو اور زکات کے نصاب کا مالک، اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
عشرہ ذوالحجہ کے باقی ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ تعالی اپنی خاص رحمتیں اور برکتیں ان شب و روز میں بڑھادی ہے۔ یہ رحمتیں سب ہی کے لیے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمیں سمجھداری و ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس سنہری موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ اس طرح خوابِ غفلت میں گہری نیند سورہے ہیں کہ قرآن و حدیث انہیں جگاسکتے ہیں نہ علما کی نصیحتیں، قبر اور حساب و کتاب کے بغیر کوئی چیز انہیں اس گہری نیند سے نہیں جگاسکتی۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: یہ شب و روز ہماری اصلاح و توبہ کے لیے ہیں۔ اللہ کے لیے کچھ وقت فارغ کریں۔ اپنی اخلاقی و عملی کمزوریوں کے ازالے کے لیے محنت کریں اور یومِ عرفہ کے روزہ کو مت بھولیں۔
انہوں نے قربانی کو عید کے دن سب سے اہم عبادت یاد کرتے ہوئے کہا: قربانی ذبح کرنا سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ ایام عید میں ایک قربانی کا ثواب دیگر ایام میں ہزاروں جانور کی خیرات سے بھی زیادہ ہے۔ لہذا جو قربانی کرسکتے ہیں، ضرور اس کا اہتمام کریں اور اس عظیم عبادت کے اجر عظیم سے محروم نہ رہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: کوشش کریں قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کریں؛ ایک حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ کریں اور دو تہائی اپنے لیے اور اپنے اہل خانہ و مہمانوں کے لیے رکھیں۔
انہوں نے حاضرین کو یاد دلائی کہ حسب سنت عید کے روز مناسب نئے کپڑے پہن لیں یا صاف کپڑے پہن کر عطر لگاکر جلدی عیدگاہ پہنچ جائیں۔ نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات تشریق کو ایک بار بلند آواز سے کہیں۔ چلتے پھرتے ان تکبیرات کا اہتمام کریں اور اللہ کی یاد میں مشغول رہیں۔

بھارت نے مسلمانوں کے اختلافات کا فائدہ اٹھایا
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے بھارتی حکومت کی جانب سے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بھارت کے اس اقدام کو مسلمانوں اور مسلم ممالک کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ قرار دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: انڈین حکومت نے جموں اینڈ کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق پر توجہ دیے بغیر ان علاقوں کی خودمختاری کو ختم کردیاہے اور اپنی فوج کی مزید نفری بھیج کر وہاں کرفیو نافذ کررکھاہے۔ ہم بھارتی حکومت کے اس اقدام کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: جموں اور کشمیر کے باشندے کئی عشروں سے مصائب اور ہلاکت خیز شکنجوں کا سامنا کررہے ہیں اور انڈین حکومت سے آزادیوں کے حصول میں مشکلات و رکاوٹیں آڑے آچکی ہیں۔ اتنے لمبے عرصے کے بعد بھی عالمی برادری اس مسئلے کو تدبیر کے ساتھ حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
انہوں نے مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو بھارتی اقدامات کے پیچھے موثر یاد کرتے ہوئے کہا: مسلمانوں اور مسلم ممالک کے باہمی اختلافات ہمارے سب سے بڑے مسائل میں شامل ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلم ممالک مختلف جگہوں پرجہاں مسلمان مسائل سے دوچار ہیں، متفقہ موقف اختیار نہیں کرسکتے ہیں۔ایک طرف سے مسلم ممالک کے اختلافات اور فرقہ وارانہ جھڑپیں اور دوسری طرف مسلمانوں میں انتہاپسندی کے رجحانات نے اسلام دشمنوں کو اس فضا سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ہے تاکہ مسلمانوں کے خلاف فیصلے کریں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: اس سے پہلے دشمن نے فلسطین، میانمار اور چین میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاکر وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم مزید تیز کردیاہے۔ اب انڈین حکومت اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھارہی ہے اور کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے بعض مسلم ممالک کی جانب سے چینی حکومت کے اقدامات کی حمایت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ ہمارے لیے انتہائی حیرت و تعجب کا باعث بنا کہ بعض مسلم ممالک نے چینی حکومت کے اقدامات کی حمایت کی ہے جو وہاں کی مسلم اقلیت برادری کے خلاف اٹھائے گئے ہیں، حالانکہ جو کچھ چین میں ہورہاہے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک واضح ظلم ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی سپریم کونسل کے رکن نے کہا: اگر مسلمانوں میں اتحاد ہوتا اور مسلم ممالک آپس میں متحد ہوتے اور کچھ انتہاپسند گروہ جہاد کے نام سے غلط فائدہ اٹھاکر انتہاپسندی کا شکار نہ ہوتے، آج دنیا کی طاقتیں ’وار آن ٹیرر‘ کے بے بنیاد اور بے ہودہ بہانے پر مسلمانوں اور مسلم ممالک کو مشکلات سے دوچار نہیں کرسکتیں۔