- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رشتہ نکاح میں عورت کا اختیار اور معاشرتی رویے

اسلامی تصور معاشرت کی رو سے نکاح ایسا رشتہ ہے جو مرد اور عورت کی آزادانہ مرضی اور فیصلے سے قائم ہوتا ہے اور اس کے قائم رہنے کا جواز اور افادیت اسی وقت تک ہے جب تک دونوں فریق قلبی انشراح اور خوش دلی کے ساتھ اس کو قائم رکھنے پر راضی ہوں۔
کسی وجہ سے ناچاقی پیدا ہونے کی صورت میں قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ دونوں خاندانوں کے ذمہ دار حضرات مل کر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں اور موافقت کے امکانات تلاش کریں۔(النساء، آیت ۳۵) تاہم اگر یہ واضح ہوجائے کہ رشتہ نکاح سے متعلق حدود اللہ کو قائم رکھنا میاں بیوی کے لیے ممکن نہیں تو قرآن نے ہدایت کی ہے کہ ایسی صورت میں اگر طلاق لینے کے لیے بیوی کو شوہر کے لیے ہوئے مالی اخراجات کی تلافی کے لیے کچھ رقم بھی دینی پڑے تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں۔ (البقرۃ، آیت ۲۹۹) دوسری جگہ قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر علیحدگی کے فیصلے میں ہی بہتری نظر آرہی ہو تو فریقین کو مستقبل کے متعلق بے جا خدشات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی وسعت اور حکمت سے دونوں کے لیے مناسب بند و بست کردے گا۔ (النساء، آیت ۱۳۰)
قرآن کی ان تعلیمات کی روشنی میں ہمارے ہاں کئی طرح کے معاشرتی رویے اصلاح کے متقاضی ہیں۔ سب سے پہلے تو رشتے کے انتخاب میں خاتون کی پسند اور مرضی کو بنیادی اہمیت دینے کو ابھی تک ہمارے ہاں معاشرتی قدر کی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی اور اس حوالے سے عموماً جاگیردارانہ سماج کے بنائے ہوئے رویے اور روایات مستحکم ہیں۔ پھر اگر رشتہ نکاح میں کوئی رخنہ پیدا ہوجائے اور میاں بیوی کے لیے نبای کرنا مشکل ہوجائے تو بھی ایک انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہوئے فریقین کو خوش اسلوبی سے علیحدگی کا موقع دینے کے بجائے دونوں خاندانوں کا پورا زور اور دباؤ اس پر مرکوز ہوتا ہے کہ ایسانہ ہونے دیا جائے۔ خاص طور پر اگر رشتہ خاندان اور برادری کے اندر قائم ہوا ہو تو دونوں خاندانوں کے باہمی تعلقات کے جڑنے یا ٹوٹنے کو اس ایک رشتے کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر اگر خاتون علیحدگی کے بعد واپس ماں باپ یا بھائیوں کے گھر آجائے تو اسے ایک غیرضروری پرگلے پڑجانے والی ذمہ داری تصور کیا جاتا اور اسی کے مطابق مطلقہ کے ساتھ برتاو اختیار کیا جاتا ہے۔
یہ تینوں رویے دینی و اخلاقی لحاظ سے غلط اور قابل اصلاح ہیں۔
خاتون کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کرنے کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ایسا نکاح اگر جبراً کیا جائے تو وہ قانوناً منعقد ہی نہیں ہوتا یا عورت کی درخواست پر عدالت اسے فی الفور کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عموماً اس ضمن میں والدین معاشرتی دباؤ سے کام لیتے ہوئے بچیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے فیصلے کو ان کا حق سمجھتے ہوئے قبول کرلیں، ورنہ ان کی طرف سے معمول کے تعلقات اور حسن معاشرت کی امید نہ رکھیں۔ یہ دباؤ عموماً موثر ثابت ہوتا ہے اور بے شمار خواتین اپنی زندگی کے ایک نہایت بنیادی حق سے اس دباؤ کے تحت دست بردار ہوجاتی ہیں۔
اسی رویے کا اظہار نکاح کے بعد علیحدگی کے امکان کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے اور خواتین کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے لیے کسی بھی طرح کی جائز یا ناجائز صورت حال سے سمجھوتا کیے اور کسی بھی طرح کی زیادتی یا ناانصافی کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور یہ کہ علیحدگی کی صورت میں خود خاتون کا خاندان اس فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔
قرآن مجید نے اہل خاندان کے اس رویے کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کے منافی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایک دفعہ طلاق ہوجانے کے بعد میاں بیوی دوبارہ گھر بسانے پر باہم رضامند ہوں تو عورت کے اہل خانہ کو اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ (البقرۃ، آیت ۲۳۲) ظاہر ہے کہ اس اخلاقی اصول کا اطلاق خاتون کی طرف سے علیحدگی کے فیصلے پر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اصلاح و سازگاری کی بساط بھر کوششوں کے باوجود اگر خاتون رشتے کو قائم نہ رکھنا چاہتی ہو تو خاندان کی طرف سے اس پر بے جا دباؤ ڈالا جانا ایک غیراخلاقی اور غیرشرعی رویہ ہے۔
مطلقہ خواتین کے ضروری اخراجات کو بوجھ اور اپنی ذمہ داری کے دائرے سے خارج تصور کرنا بھی اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی رو سے ایک ناروا انداز فکر ہے۔ سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اے سراقہ، کیا میں تمھیں سب سے افضل صدقہ کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے کہا کہ یارسول اللہ، ضرور بتایئے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری وہ بیٹی جو (شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد) واپس تمہارے پاس آجائے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔ (ابن ماجہ، حدیث ۳۶۹۰)
اس ضمن میں صحیح اخلاقی رویے کی عکاسی درج ذیل دو مثالوں سے ہوتی ہے:
چند سال قبل ایک دوست نے اپنی ہمشیرہ کے متعلق مشورہ طلب کیا جو اپنے سسرال میں ناروا سلوک کا شکار تھی، لیکن تمام تر مشقت اور تذلیل اس لیے گوارا کر رہی تھی کہ والدین کے وفات پا جانے کے بعد اسے دوبارہ بھائیوں پر بوجھ نہ بننا پڑے۔ دوست نے کہا کہ ہمشیرہ کی طرف سے علیحدگی کی خواہش یا مطالبہ ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وجہ صرف یہ خوف ہے، سو ایسی صورت میں انہیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو ایک بھائی کی حیثیت سے انہیں مکمل اخلاقی حمایت دینی چاہیے اور یہ اعتماد دلانا چاہیے کہ اگر ان کے لیے اپنی عزت نفس اور عرفی حقوق کے ساتھ اس رشتے کو قائم رکھنا ممکن نہیں تو اس فیصلے میں آپ پوری طرح ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور مجھے یقین ہے کہ یہ فیصلہ ان کے اور ان کی ہمشیرہ کے لیے کہیں بہتر ثابت ہوا ہوگا۔
میں اپنے جوار میں ایک کنبے کو جانتا ہوں جس کے سربراہ کے، نشے کا عادی ہونے کی وجہ سے کھانے کمانے کی ساری ذمہ داری گھر کی خواتین پر ہے۔ ماں اور اس کی جوان بیٹیاں سارا دن لوگوں کے گھروں کا کام کاج کر کے اپنی ضروریات کا بند و بست کرتی ہیں۔ ایک بیٹی شادی کے بعد شدید علالت کا شکار اور اپنے ماں باپ ہی کے گھر میں زیر علاج ہے۔ اس کا شوہر تقاضا کرتا ہے کہ وہ واپس آکر اس کے ساتھ رہے اور گھریلو ذمہ داریاں سنبھالے، لیکن یہ غریب خواتین اسے واپس نہیں بھیج رہیں کہ ان کی بچی کو خود دیکھ بھال اور تیمارداری کی ضرورت ہے جو اسے شوہر کے گھر میں میسر نہیں ہوگی۔
یہ دونوں مثالیں اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا درست نمونہ ہیں اور معاشرتی کی دینی و اخلاقی تربیت کے ذمہ دار طبقوں کو اس طرح کے اچھے نمونے لوگوں کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ اور روایت کی معروضی تعبیر
تاریخ کا مطالعہ اور تعبیر معروضی نہیں ہوسکتی، یہ ایک پیش پاافتادہ حقیقت ہے۔ یہی بات روایت کے مطالعہ کے بارے میں درست ہے، کیونکہ وہ بھی تاریخ ہی کی ایک جہت ہے۔ ہم تاریخ کا مطالعہ اپنے حال کو ایک تناظر دینے اور اپنے موجودہ مواقف کو جواز فراہم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ، ول ڈیوراں کے بقول: تاریخ سے ہر نقطہ خیال کے حق میں یا اس کے خلاف یکساں طور پر استدلال کشید کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ کا عمومی مطالعہ کرنے والا ایک مورخ نسبتاً زیادہ غیر جانب دار ہوسکتا ہے، لیکن فکری، نظریاتی، سیاسی اور مذہبی بحثوں میں استعمال کی جانے والی تاریخ تعبیرات ہمیشہ اور بلااستثناء مذکورہ حقیقت کا مظہر ہوتی ہیں۔
اس کے دو مضمرات اہم ہیں۔
ایک یہ کہ کسی بھی بحث میں تاریخ کی (اور اسی طرح روایت کی) جو تعبیر پیش کی جارہی ہو، اس کو سمجھنے کے لیے پیش کردہ تاریخی استدلال کی اہمیت ثانوی اور پیش کرنے والے کے موجودہ موقف کی اور ان نتائج و اثرات کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے جو اس تعبیر سے حال میں حاصل کرنا مقصود ہے۔ چونکہ حاملین تعبیر کا موجودہ موقف اور مطلوبہ نتائج یہ طے کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کو کس طرح دیکھیں، اس لیے ان کے استدلال کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے والوں کے لیے بھی اس نکتے کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے منفک کرنا زیربحث تعبیر اور استدلال کی تفہیم کو اس کے ایک بنیادی عنصر سے محروم کردیتا ہے۔
دوسرا یہ کہ تاریخی تعبیر جس موقف کی تائید میں پیش کی جارہی ہے، اس موقف کی قدر پیمائی اصلاً ان دلائل کی روشنی میں کی جانی چاہیے جو وہ وضع موجود میں اپنے حق میں رکھتا ہے یا پیش کرسکتا ہے۔ فیصلہ کن حیثیت انھی دلائل کو حاصل ہوگی، جبکہ ان کے ساتھ ضمنی موید کے طور پر تاریخی تعبیر پر مبنی استدلالات کو بھی وزن دیا جاسکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ تاریخی تعبیرات پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے مواقف وہ ہوں گے جو وضع موجود سے اپنے حق میں زیادہ قائل کن دلائل پیش نہیں کرسکتے۔ چونکہ کسی بھی موقف کو ایک واقعاتی و عملی تناظر درکار ہوتا ہے، اس لیے اس نقصان کی تلافی کی غرض سے تاریخ کی طرف رجوع کیاجاتا اور ایک بڑی حد تک فرضی تناظر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تا ہم جیسا کہ واضح کیا گیا ہے، ایسی کسی بھی بحث میں تاریخ کی تعبیر کو متعین رخ دینے والی اصل چیز وہ پوزیشن ہوتی ہے جو حال میں اختیار کی گئی ہے اور اپنی بنیادی توضیح کا تقاضا وضع موجود میں ہی کرتی ہے۔