- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بھارتی مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل

بعض تاریخی روایت کے مطابق عہد فاروقی ہی میں مسلمان ہندوستان میں قدم رکھ چکے تھے، وہ ایک تاجر کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے تھے، لیکن اس وقت مسلمانوں کے اندر دعوتی جذبہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ جہاں جاتے اور جس کام کے لیے جاتے، دین حق کی امانت بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے اور لوگوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچاتے، مسلمانوں کا یہ گروہ جنوبی ہند کے مالابار علاقہ میں بحیثیت تاجر وارد ہوا، اب بھی اس کے بعض شواہد موجود ہیں، پھر بنواُمیہ کے عہد میں ہی سمندری قزاقوں کی سرکوبی اور سندھ کے باشندوں کو ظالم حکمراں سے نجات دلانے کے لیے ۷۱۳ء میں محمد ابن قاسم رحمہ اللہ پہنچے، انھوں نے ظالم حکمرانوں پر قابو پایا اور مقامی باشندوں پر حسن اخلاق کے ایسے نقوش چھوڑے کہ ان کے واپس ہونے کے بعد بھی عرصہ تک لوگوں نے ان کا مجسمہ بنا کر پرستش کی، محمد بن قاسم اگرچہ فوج کے جلو میں آئے تھے، لیکن انھوں نے فولاد کی تلوار سے زیادہ اخلاق کی تلوار سے کام لیا اور اس کی وجہ سے بڑے پیمانہ پر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، چنانچہ سندھ کا علاقہ جو پاکستان میں ہے، اس کی غالب اکثریت اس وقت سے آج تک حلقہ بگوش اسلام ہے۔
پھر اس کے بعد ۹۷۷ء میں مغرب کی طرف سے عجمی نژاد نو مسلم قبائل ہندوستان کی طرف بڑھے اور مختلف خاندانوں نے یہاں آکر حکومت کی، یہ اگر چہ مسلمان تھے، لیکن ایک آدھ فرماں رواؤں کو چھوڑ کر دعوتی جذبے سے محروم تھے، انھوں نے اشاعت اسلام کی بجائے خوبصورت اور پُرشکوہ عمارتوں کی تعمیر پر توجہ دی، اگرچہ اس سے عوام کو فائدہ ہوا، کیوں کہ اس زمانے میں یہ مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک ذریعہ تھا، اسی طرح انھوں نے ملک کی بھلائی کے بہت سے کام کیے جیسے: زراعت کو ترقی دینا، آب پاشی کا انتظام، سڑکوں کی تعمیر، مواشی کی پرورش کے شعبہ میں ترقی، اس زمانے کے معیار کے لحاظ سے صنعتوں کو بڑھانا و غیرہ، لیکن انھوں نے دعوتِ دین کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی، انھوں نے تمام رعایا کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا، اسی لیے مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں بہت کم بغاوت کے واقعات ملتے ہیں، تا ہم جیسا کہ حکمرانوں کا رواج رہا ہے، ان سے بعض اوقات زیادتیاں بھی ہوئی ہیں اور یہ اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں اور غیرمسلموں کے ساتھ بھی، تا ہم یہ پورا دور امن و امان اور اطمینان کا دور رہا۔
مسلمانوں کے بعد انگریز آئے، انھوں نے تمام ہندوستانیوں پر بڑے مظالم ڈھائے، مگر مسلمان ان کے ظلم و جور کا زیادہ شکار ہوئے، کیوں کہ وہ ان کو اپنا حریف خیال کرتے تھے، لیکن ہندوؤں اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر بھی ستم ڈھائے گئے، یہاں تک کہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر آزادی کی لڑائی لڑی، تقریباً ۲۰۰ سال کی جد و جہد کے بعد انگریز اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ہر حکمراں کی خواہش ہوتی ہے کہ رعایا میں اتحاد نہ ہو، کیوں کہ رعایا کا باہمی اختلاف حکمرانوں کے تخت اقتدار کو مستحکم کیے رہتا ہے، چنانچہ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیانی منظم طور پر نفرت پیدا کی اور اس مقصد کے لیے مسلم دور کی تاریخ مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، انگریزوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک فرقہ پرست پر برہمن لابی مل گئی، جس نے آر ایس ایس کی صورت اختیار کی، اگر آر ایس ایس کی موجودہ فکر کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ ہے: مسلم دشمنی۔ کیوں کہ ہندوؤں کو متحد کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور فارمولا نہیں ہے، آر ایس ایس ۱۹۴۷ء میں اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانا چاہتی تھی، لیکن جمہوریت پسند قدآور لیڈروں کی موجودگی کی وجہ سے اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور گاندھی جی کے قتل نے ملک میں اس کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کردی، مگر انھوں نے کچھ کُھلے اور چُھپے منصوبے بنائے، مختلف مقاصد کے لیے ادارے قائم کیے، اپنے تربیتی کیمپ لگاتے رہے، اس کے لیے انھوں نے بعض عالمی واقعات و تجربات کا مطالعہ بھی کیا، خاص کر نازی ازم اور اسرائیل کی پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اسرائیل کے نفرت انگیز شدت پسند طرز عمل کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا۔
آخر وہ ۷۰ سال کی کوششوں کے بعد قصر اقتدار کی مختلف سیڑھیوں سے چڑھتے ہوئے آج اس کے بام و در پر قابض ہوچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس ملک کی ہر چیز زعفرانی رنگ میں رنگ جائے، شاید اگر انسانوں کو جسمانی طور پر رنگا جاسکتا تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے، موجودہ صورت حال یہ ہے کہ کمیونسٹوں کا قلعہ ٹوٹ چکا ہے اور ہندوستان میں جو سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولر کہا کرتی تھیں، انھوں نے ہتھیار ڈال دیا ہے، اب اس وقت فرقہ واریت کے مقابلے میں کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے، جو کھڑی ہونے کو تیار ہو، نفرت اور تشدد کا رُخ پوری طرح اقلیتوں کی طرف ہے اور بالخصوص مسلمانوں کی طرف، کیوں کہ بعض اقلیتیں تو ملک کے دستور کے لحاظ سے ہندوؤں کے زمرے میں شامل کردی گئی ہیں، رہ گئے مسلمان اور عیسائی، تو عیسائی پوری طرح اکثریتی فرقہ پرستی کے سامنے سر بسجود ہیں اور انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے ’ہندوتوا‘ کو قبول کرلیا ہے، اس لیے اب مسلمانوں کو بظاہر تنہا ہی اس لڑائی کو لڑنا اور اپنی شناخت کو باقی رکھنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس پس منظر میں چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں۔
مسلمانوں میں اپنے دین اور اپنی شریعت پر ثابت قدمی پیدا کی جائے، ہمارا یقین ہے کہ اسلام دین حق ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن ہے، اس لیے ہمیں دین کے معاملہ میں پوری طرح ثابت قدم رہنا چاہیے، مسلمان اس سے کہیں بڑے بڑے امتحان سے گزر چکے ہیں، وقتی طور پر وہ کچھ دشواریوں سے ضرور دو چار ہوئے، لیکن ایمان پر ثابت قدمی اور دین پر جماؤ کی وجہ سے ان کی شناخت اور پہچان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہ عہد صحابہ سے ہوتا رہا ہے، غزوہئ اُحد کے موقع پر ابوسفیان نے مشرکین مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو چیلنج دیا کہ وہ آئندہ سال دوبارہ بدر کے میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیلنج کو قبول فرمایا، چنانچہ آئندہ سال آپ ۷۰ مسلمانوں کے ساتھ بدر کے میدان میں پہنچے، ابوسفیان بھی مشرکین مکہ کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلا اور ’مرالظہران‘ نامی مقام تک آیا، اللہ تعالی نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا اور اس نے واپسی کا ارادہ کرلیا، مگر خیال آیا کہ اگر مسلمان بدر پہنچے اور ہم نہیں پہنچے تو بہت شرم کی بات ہوگی، اس نے ایک تدبیر کی کہ نُعیم ابن مسعود اشجعی (جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) مکہ جارہے تھے، ان سے کہا: چوں کہ اس سال بہت قحط ہے، اس لیے ہم واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں، لیکن اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نکلے اور میں نہیں نکلا تو مسلمانوں کی ہمت بڑھ جائے گی، اس لیے تم ان کو سمجھاؤ کو وہ مقابلے پر نہیں آئیں اور اس کے بدلہ ہم تم کو دس اونٹ دیں گے، جب نعیم آئے تو دیکھا کہ مسلمان سفر کی تیاری کررہے ہیں، انھوں نے مسلمانوں سے غزوہئ احد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے تمہارے گھر آکر تمہارے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا، اب اگر تم ان کی طرف جاؤ گے تو تم میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تو ضرور نکلوں گا، چاہے تنہا نکلنا پڑے۔
اس وقت بھی یہی صورتِ حال ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں متحد ہوگی ہیں اور وہ مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں، گاؤکشی، جے شری رام اور وندے ماترم کہلانے کے عنوان سے جابجا مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں، نامنصفانہ قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں، بعض جگہ مسلمانوں کا بائیکاٹ بھی کیا جارہا ہے، یہ سب مشرکین مکہ کے رویہ کے بازگشت ہے، اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور پیش آتے رہیں گے، لیکن اس دین حق کے لیے اللہ کے پیغمبروں نے تکلیفیں اُٹھائیں اور ان کے رفقاء نے جان و مال کی مصیبت کو برداشت کیا، بائیکاٹ کی صعوبتوں کو سہا، لیکن ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ رہا: ”حسبنااللہ و نعم الوکیل“ یہی کیفیت آج کے حالات میں بھی مسلمانوں سے مطلوب ہے۔ یہ بات علماء، مذہبی قائدین اور مسلم سماج کی نمائندہ شخصیتوں کو عام مسلمانوں تک پہنچانی ہوگی، انھیں ان صحابہ کی یاد دلانی ہوگی، جنھوں نے ناقابل تصور مشقتوں کو برداشت کیا، لیکن ان کے قدم میں کوئی تزلزل نہیں آیا، آج بھی برما اور چین جیسے ملکوں میں ایمان پر قائم مسلمانوں کی مثالیں موجود ہیں، اگر ہم مسلمانوں کو یہ نہیں سمجھا پائے تو ہم ایمان کی حفاظت اور حق پر ثابت قدمی کے سب سے اہم فریضہ کو ادا نہیں کر پائیں گے۔