- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

نکاح کو عذاب نہ بنائیے

نکاح کا عمل شریعت میں اتنا سادہ ہے کہ کسی اور دھرم میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مناسب رشتہ ملنے پر بالغ لڑکا اور لڑکی دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں، بس نکاح ہوگیا۔
مہر لازم ضرور ہے، مگر نکاح میں اس کا ذکر قطعی ضروری نہیں۔ اتنا سادہ عمل، مگر اب اتنا مشکل ہوچکا کہ اب اس پر عذاب کا گماں گزرتا ہے۔ لڑکی کے غریب اولیا آٹھوں پہر روتے ہیں۔ صبح سے شام غم و اندوہ میں گزار دیتے ہیں۔ ان کا سکون غارت ہے۔ ذہنی آسودگی کا دور دور تک واہمہ نہیں۔ زندگی اجیرن ہے۔ رشتہ مل نہیں رہا۔

نکاح کا عمل اتنا دشوار تو نہیں
آج کل کسی کی شادی ہو تو اصل کام میں صرف دو منٹ صرف ہوتے ہیں اور بس۔ مگر لوازمات اس قدر شامل ہوجاتے ہیں کہ بیان سے باہر۔ اس دو منٹ کے عمل کے لیے غریب والدین اپنی عمر عزیز کے خوش گوار لمحے کھوبیٹھتے ہیں۔ اولاً تو غریب ہی انہیں بڑھنے دیتی، پھر قسمت یاوری کرے تو ان کے پاس مطالبات کی ایسی طویل فہرست آجاتی ہے کہ بار بار کی مشقتوں کے باوجود ہنوز روزِ اول۔

لڑکے والوں کے مظالم
نکاح کو عبادت کے زمرے سے نکال کر عذاب کی صف میں لانے ذمے دار زیادہ تر لڑکے والے ہیں۔ رشتہ پیش ہو تو عموماً یہی ہوتا ہے کہ لڑکا داستانِ امیرحمزہ کی طرح مطالبات کی طول طویل فہرست رکھ دیتا ہے۔ اس کی فرمائشیں اس بے شرمی سے سامنے آتی ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کبھی لڑکا شریعت نواز ہوتا ہے اور ان خرافات سے بچتا ہے تو اس کے والدین زوردار دباؤ ڈال کر اسے قائل کر چھوڑتے ہیں، والدین کی بدتمیزیوں سے مجبور لڑکا ان کے مطالبات کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لڑکا بھی اسلام پسند ہوتا ہے، اس کے والدین بھی مذہبی پسند ہوتے ہیں، مگر ظالم معاشرہ اس کارِ خیر میں سدِ سکندری بن جاتا ہے۔ وہی لین دین کرواتا ہے اور لعنتوں کو دعوت دیتا ہے۔ غرض قصور واروں کی کمی کوئی نہیں۔

شادی کے موجودہ ارکان
جس طرح وضو میں چار چیزیں فرض ہیں، اسی طرح ہمارے معاشرے نے بھی شادی کے ارکان گھڑ لئے ہیں۔ شادی کا پہلا رکن سلامی ہے، دوسرا رکن گاڑی، جب کہ تیسرا رکن قارونی جہیز ہے اور چوتھا رکن بارات۔ جب تک یہ چاروں ارکان پائے نہ جائیں، شادی ہی ادا نہ ہوئی۔

ارکان اربعہ کی تشریح
سلامی کا مطلب ہے شادی کی فیس۔ آپ اسے لڑکے کی قیمت بھی کہہ سکتے ہیں۔ کوئی رشتہ لڑکے کے پاس پہونچے تو سلامی سے ہی بات شروع ہوگی۔ یہ رقم درجات کے اعتبار سے بڑھے گی اور گھٹے گی۔ لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے تو اس کی سلامی سات، آٹھ لاکھ روپے سے کم نہ ہوگی۔ متوسط ہے تو اس کی قیمت چار، پانچ لاکھ روپے ہیں، اور اگر جاہلِ مطلق ہے تو ڈیڑھ دو لاکھ روپے تو کہیں نہیں گئے۔ لڑکی والے مال دار ہوں تو لڑکے کا ریٹ وہ خود ہی اونچا لگاتے ہیں، اتنا اونچا کہ لڑکے والوں کے پاس قبولیت کے سوا کوئی راستہ نہ بچے۔ دس، بارہ لاکھ روپے تک سلامی کے عنوان سے لٹا ڈالتے ہیں۔ گاڑی شادی کی رکنِ ثانی ہے، لڑکا اپنی قابلیت کے لحاظ سے گاڑی کی مانگ رکھتا ہے۔ اعلیٰ اور متوسط لڑکے چار پہیے کی مانگ رکھتے ہیں اور ادنیٰ لڑکے موٹر سائیکل کی۔ رہی سائیکل، تو وہ بے چاری تو کبھی کی مرحومہ بن چکی۔ رکنِ ثالث قارونی جہیز ہے۔ جہیز میں گھر کے تمام ضروری اشیا شامل ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی۔ لکڑی کے سارے سامان تخت، الماری و غیرہ تو پہلے ہی سے جہیز کے ارکانِ اعظم تھے، اب ٹی وی، فریج، واشنگ مشین، مکسر اور بجلی سے چلنے والے تمام لوازمات بھی ان میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ سارا مال لڑکے اور اس کے گھر والوں کی ملکیت بن جاتا ہے۔ لڑکی کا کوئی اختیار اس پر باقی نہیں رہتا۔ جہیز کے یہ مطالبات بالعموم لڑکے والوں کی طرف سے ہوتے ہیں، مگر کبھی لڑکی والے بھی اپنی دولت کی نمائش اور شوکت کے اظہار کے لیے خود ہی بھیج دیتے ہیں۔ شادی کا رکنِ رابع بارات ہے۔ شادی کے دن لڑکے کے گھر سے اس کے اہل خانہ، دوست احباب اور پڑوسی و اہلِ بستی کے افراد پر مشتمل ایک بھاری جمعیت دولہا کے ساتھ روانہ ہوتی ہے۔ یہ کہنے کو مہمان ہوتے ہیں، مگر کسی تخریب کار تنظیم کے اراکین کی طرح نظر آتے ہیں۔ پورے طمطراق اور زور و شور کے ساتھ نکلیں گے۔ دہشت گردی کی تصویر بنے ہوئے۔ بارات میں سو افراد کی دعوت ہو تو ساڑھے تین سو افراد ٹپک پڑیں گے، شادی کے یہ ارکان اتنے خطرناک ہیں کہ لڑکی والوں کا تو دیوالیہ ہی نکل جاتا ہے۔ شادی سے پہلے رشتے کی تلاش میں شکستہ اور خستہ والدین شادی کے بعد انتہائی مفلوک الحال ہوجاتے ہیں۔ سچ کہیے تو یہ والدین مستحق زکوۃ بھی بن جاتے ہیں۔

شادی کے بعد کی رسومات
ارکانِ اربعہ کی ادائیگی کے بعد شادی تو خیر ہوگئی، مگر ابھی کچھ واجبات باقی ہیں۔ واجباتِ شادی بھی چار ہیں۔ نمبر ایک: اسراف، یعنی فضول خرچی، نمبر دو: نو روز، نمبر تین، نمک چکھائی، نمبر چار: چھوٹی سلامی۔
واجب نمبر ایک تو عام ہے، لڑکے والے خود بھی فضول خرچی کرتے ہیں اور لڑکی والوں پر بھی دباؤ بناتے ہیں۔ لڑکے والے کا شادی نامہ دیکھیے تو فضول خرچی کا شاہ کار نظر آئے گا۔ رنگین، دبیز اور خوش رنگ کاغذ، مہنگی اور حسین چھپائی۔ بارات میں گاڑیوں کی بہتات۔ دولہے کی گاڑی آرائش و زیبائش میں مثالی۔ بارات کی روانگی، درمیانِ سفر اور پھر بارات گاہ پہونچ کر گرج دار پٹاخے۔ پٹاخوں کی آوازیں ایسی خوفناک کہ محسوس ہو کارگل محاذ پر بیٹھے ہیں۔ تا ہم اسراف کا تعلق لڑکے والوں سے کم اور لڑکی والوں سے زیادہ ہے۔ شاہ خرچیوں کا سارا بار غریب لڑکی والوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ انہیں تو لڑکی کا گھر بسانا ہے، اس لیے وہ ہر کڑوی گولی اور ہر زہر پینے کوتیار رہتے ہیں۔
شادی کے بعد لڑکی اپنی سسرال چلی جاتی ہے اور چوتھے دن میکے آتی ہے۔ لڑکی کے ساتھ اس کا دولہا بھی ہوتا ہے۔ لڑکی میکے میں اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نو روز قیام کرسکتی ہے۔ اسی مناسبت سے اس رسم کا نام ’’نو روز‘‘ ہے۔ نو روز کی یہ رسم اب سکڑ کر چار پانچ دنوں تک محدود رہ گئی ہے، مگر اس کا نام اب بھی نو روز ہی ہے۔ اس دوران لڑکی والوں پر شاہ خرچی کا جو بوجھ پڑتا ہے، خدا کی پناہ! یہ ایک الگ عذاب ہے۔ غریب والدین تو اس رسم میں تو گویا مر ہی جاتے ہیں۔ تینوں وقت زور دار ضیافت۔ گوشت، مچھلی اور مختلف مرغن پکوان۔ صبح شام ایک لنگر چل رہا ہے۔ خشک میوہ جات کا اہتمام الگ۔
واجبِ سوم ’نمک چکھائی‘ ہے۔ نو روز میں لڑکا آئے گا تو نمکین اشیا پہلے دن اس وقت تک نہیں کھائے گا جب تک اس کا مطالبہ خاطر خواہ پورا نہ ہو ۔ نمکین اشیا میں گوشت مچھلی اور ہر وہ چیز شامل ہے، جس میں نمک پڑتا ہے، لڑکے کی مانگ اس وقت اولاً چار پہیے کی ہوگی۔ اب یہ لڑکی والوں پر منحصر ہے کہ لڑکے کو اتار کر کہاں تک لے آتے ہیں۔ کم از کم بیس ہزار روپے تو لازمی ہی ہیں۔ لڑکی والے ان کا منہ مانگی مراد پوری کریں گے تو داماد صاحب کھانا کھائیں گے، ورنہ انہیں مناتے رہیے، وہ مانیں گے نہیں۔
’چھوٹی سلامی‘ کا مطلب یہ ہے کہ نو روز کے بعد لڑکا اپنی اہلیہ کو لے کر گھر جانے لگے تو اسے پھر فیس پیش کرنی ہے۔ یہی فیس چھوٹی سلامی ہے۔ اب یہ لڑکی والوں کا ظرف ہے کہ کیا دیتے ہیں۔ ان واجبات اربعہ کے بغیر شادی رنگ نہیں پکڑتی۔

شادی پر ہندوانہ رنگ کا غلبہ
شادی کی رسومات، فرائض اور واجبات کو دیکھیے تو کہیں سے کہیں تک محسوس نہیں ہوگا کہ کسی مسلم برادری میں شادی چل دہی ہے۔ گانے بجانے سے لے کر شور شرابے تک۔ رسومات و خرافات میں لڑکے والے تو ظالم اور مفسد ہیں ہی، لڑکی والے بھی کم مجرم نہیں ہیں۔ دونوں جگہ ہندوانہ تہذیب کا غلبہ۔ گیت، اپٹن، مانجھا، چومائی، دریا کھدائی اور نہ جانے کیا کیا!! ہر ایک پر ہندوانہ چھاپ۔ شادی بیاہ جو ایک خالص ایمان کی تکمیل کا سبب تھی، ایمان کی تباہی کی ضامن بن گئی۔

لڑکے والوں کے ناجائز نخرے
لڑکے والوں کے کچھ مظالم کا اوپر ذکر ہوا۔ یہاں چند اور پیشِ خدمت ہیں۔ شادی سے پہلے ان کا ایک بڑا مطالبہ یہ ہے کہ لڑکی بے حد حسین و جمیل ہو۔ ماڈرن طرزِ زندگی رکھتی ہو۔ وہ پڑھی لکھی بھی خوب ہو، کم از کم بارہویں پاس تو ہو ہی، اس تعلیم کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ گھر کی فضا خوش گوار بنے اور آنے والی نسلیں تہذیب و شرافت کی نقیب ہوں، بلکہ اس کا واضح ترین مقصد معاش کی مضبوطیہے، تا کہ گھر کا بوجھ صرف شوہر پر نہ پڑے، عورت بھی اس میں حصہ دار بنے۔ لڑکی تعلیم یافتہ ہوگی تو آفس سنبھال سکتی ہے۔ ملازمت کرسکتی ہے۔ گھر گھر جا کر ٹیوشن پڑھا سکتی ہے۔ غیر تعلیم یافتہ عورت ظاہر ہے کہ وہ یہ خدمات انجام نہیں دے سکتی۔ اس میں دنیا داروں کی قید نہیں، دین داروں میں بھی یہ رجحان اپنی جڑ پکڑ چکا ہے۔

رسمِ منگنی
لڑکے یا لڑکی کی طرف سے ایک دوسرے کے پاس پیغامِ نکاح بھیجا جاتا ہے، یہ ایک پرانا طریقہ ہے اور قرآن و حدیث سے ثابت۔ اسی کا نام عربی میں ’’خطبۃ‘‘ ہے اور اردو میں یہی عمل ’منگنی‘ کہلاتا ہے۔ آپ اسے ’شادی کی تمہید‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک مبارک اور مسنون عمل ہے۔ احادیث کا ذخیرہ اس کے ذکر سے بھرا پڑا ہے، مگر معاشرے کی ستم ظریفی تو دیکھئے، یہ مسنون عمل بھی رسومات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس رسم میں جو جو خرافات ہوتی ہیں ان کے تصور سے ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ دونوں طرف سے مہمانوں کی بھیڑ ایک دوسرے کے گھر اکٹھی ہوتی ہے۔ جم کر اخراجات ہوتے ہیں۔ دعوتیں اڑائی جاتی ہیں۔ ہر مرحلے کی طرح یہاں بھی لڑکی والوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ شادی کی تمہید میں شادی کا کم از کم چوتھائی حصہ تو صرف ہو ہی جاتا ہے۔ اس رسم کی خاص بات یہ ہے کہ لڑکے والے لڑکی کو چلا کر دیکھتے ہیں۔ کہیں لنگڑی اور عیب دار تو نہیں؟ بعض علاقوں میں رانوں تک ننگا کیا جات اہے، کہیں کوئی داغ تو نہیں؟ بالوں کی لمبائی پر نظر رکھنے کے لیے سر بھی برہنہ کیا جاتا ہے۔ لڑکی سے غیرمحرم لوگ انٹرویو بھی لیتے ہیں، کہیں یہ گونگی تو نہیں؟ پڑھوا کر اور لکھوا کر دیکھتے ہیں، کہیں جاہل تو نہیں؟ ایک رسم اور دیکھنے میں آئی ہے۔ حال ہی میں ارریہ کے ایک اردو صحافی کے گھر منگنی کی خبر اخبارات میں چھپی تھی۔ فوٹو بھی شائع ہوا تھا۔ لڑکی کو بیس، پچیس افراد کے درمیان بٹھا کر کھلا چہرہ رکھا گیا تھا۔ لوگ اسے بے محابا دیکھ رہے تھے۔ بعضے گھور رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل قطعی مذہبی نہیں ہوسکتا، مگر یہ ساری خرابیاں چل رہی ہیں۔ پنپ رہی ہیں۔ راج کررہی ہیں، لیکن افسوس کہ کوئی کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں۔

منگنی سے پہلے اور منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کے باہمی تعلقات
نکاح کے باب میں اب ایک رسمِ بد اور چل پڑی ہے۔ دونوں جانب سے رشتے کی منظوری کی بعد مرد اپنی منگیتر سے باتیں کرتا ہے، ہر دن اس سے رابطہ کرتا ہے، اس سے گھنٹوں باتیں ہوتی ہیں، باہمی گفتگو میں صرف آوازوں کا تبادلہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ ویڈیو کالنگ کے ذریعے ایک دوسرے کی رونمائی بھی ہوتی ہے۔ گفتگو کا انداز وہی بے تکلفانہ، جو میاں بیوی میں ہوتا ہے، نہ لڑکی کے اہل خانہ منع کرتے ہیں، نہ لڑکے کے ذمے دار اور اولیا آڑے آتے ہیں بلکہ اب تو یہ بھی ہو رہا ہے کہ رشتہ طے ہوتے ہی مرد اپنی مخطوبہ (منگیتر) کو ایک عدد موبائل بھی دے دیتا ہے، بوقت ضرورت ریچارج بھی کراتا رہتا ہے۔ لڑکی اپنے مخطوب (ہونے والے شوہر) کو شوہر ہی سمجھتی ہے اور مرد اپنی مخطوبہ کو بیوی۔ یہ بدعت غیرمہذب گھرانوں کے علاوہ مہذب گھرانوں میں بھی چل پڑی ہے۔ نہ لڑکے کے والوں کو شرم، نہ لڑکی والوں کو حیا، حالانکہ یہ جاہلی عمل اور کھلا ہوا حرام ہے۔ جب تک نکاح نہیں ہوجاتا، دونوں ایک دوسرے کے لیے غیرمحرم ہیں، بات چیت کی کوئی اجازت شریعت نہیں دیتی۔

لڑکی والوں کی ناسمجھیاں
یہاں یہ بھی عرض کردیا جائے کہ لین دین کے معاملے میں غلطی صرف لڑکے والوں کی نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات لڑکی والے بھی شریک جرم ہوتے ہیں۔ ان کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ رشتے کے لیے ایسے لڑکے تلاش کریں گے جو دنیا پرست ہو، بہت مال دار ہو، بڑے شہر میں مکان یا فلیٹ کا مالک ہو، بڑا تعلیم یافتہ ہو، بڑا خاندانی ہو، جب لڑکی والے ان مطالبات پر اڑے رہیں گے، تو لڑکی کی عمر ضائع تو ہوگی ہی۔ شریعت کہتی ہے کہ جب بچے بچیاں بالغ ہوجائیں اور ان کا کفومل جائے تو نکاح میں ذرا بھی تاخیر نہ کی جائے، ورنہ بچوں کے گناہ کا سارا وبال والدین پر ہی پڑے گا۔ اس سلسلے میں اصل وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی میں یا تو خاندان دیکھا جاتا ہے، یا مال، یا حسن، یا پھر دین ۔ تم دین داروں کو ترجیح دیا کرو!
اب دین داروں کو کون پوچھتا ہے، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، سب کی نظر مال پر ہوتی ہے۔
لڑکی والوں کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ ایسے لڑکوں کو ڈھونڈتے ہیں جو جہیز اور سلامی و غیرہ لے۔
اگر کوئی لڑکا یا اس کے اہلِ خانہ لین دین پر آمادہ نہ ہوں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکا ضرور عیب دار ہوگا۔
لڑکی والوں کی تیسری ناسمجھی یہ ہے کہ بارات کا مطالبہ خود رکھتے ہیں اور نیت یہ ہے کہ گاؤں والے شادی کی دھوم دھام دیکھیں اور خوب واہ واہی کریں۔ والدین کا یہ ساراعمل مجرمانہ اور غیرمومنانہ ہے۔ افسوس کہ یہ بیماریاں بھی عام ہوچکیں۔

سادہ شادی کا ڈھونگ
اب لڑکے والوں کی ایک اور بدمعاشی کا ذکر ضروری ہے۔ بعض لڑکے مسنون شادی کا ڈھونگ رچتے ہیں، دو چار افراد کے ساتھ لڑکی والوں کے ساتھ جائیں گے، مسجد میں سادہ طریقے سے نکاح ہوگا اور سادگی کے ساتھ رخصتی بھی کرا لائیں گے، کوئی لین دین نہ ہوگا، لیکن شادی کے چند ہی دنوں کے بعد ان کی ظالم طبیعت جاگ جاتی ہے اور سسرال والوں کے سامنے لمبے مطالبات رکھ دیتی ہے۔ ایسے کئی افراد میری نظروں میں ہیں جنہوں نے سادگی کے بعد اس کا زور دار بدلہ لیا اور لڑکی والوں پر جھپٹ پڑے۔ گاڑیاں مانگیں، سلامی کی فرمائش کی، فرنیچر کا مطالبہ کیا اور نہ دینے پر دھمکیاں بھی دیں۔ جہلا ہی نہیں، علما بھی۔ بہار میں آپ سادہ شادی کی تحقیق کرلیں، سب کے پیچھے یہی کہانی ہوگی، الا ماشاء اللہ!