- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت سلمان فارسی کا قبول اسلام

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل مجوسی تھے اور مجوسی نام ’مابہ‘ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہ نبوت سے سلمانؓ الخیر لقب ملا۔
آپ کے والد اصفہان کے ”جی“ نامی گاؤں کے باشندہ اور وہاں کے زمیندار و کاشتکار تھے، ان کو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت تھی کہ ان کو لڑکیوں کی طرح گھر کی چاردیواری سے نکلنے نہ دیتے تھے، آتش کدہ کی دیکھ بھال انہی کے متعلق کر رکھی تھی، چونکہ مذہبی جذبہ ان میں ابتدا سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلو رہا اور نہایت سخت مجاہدات کئے، شب و روز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے، حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہوگیا تھا جو کسی وقت آگ کو بجھنے نہیں دیتے تھے۔
ان کے والد کا ذریعہ معاش زمین تھی، اس لیے زراعت کی نگرانی وہ بذات خود کرتے تھے، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت خود نہ جاسکے اور اس کی دکھ بھال کے لیے سلمان ؓ کو بھیج دیا، ان کو راستہ میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہو رہی تھی، نماز کی آواز سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے نماز کے نظارے سے ان کے دل پر خاص اثر ہوا اور مزید حالات کی جستجو ہوئی اور عیسائیوں کا طریقہ عبادت اس قدر بھایا کہ بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ ”یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے“، چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کر اسی میں محو ہوگئے، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ ”اس مذہب کا سرچشمہ کہاں ہے“؟ انھوں نے کہا کہ ”ملک شام میں“، پتہ پوچھ کر گھر واپس آئے باپ نے پوچھا: ”اب تک کہاں رہے“؟ جواب دیا: ”کچھ لوگ گرجے میں عبادت کررہے تھے مجھ کو ان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا“۔ باپ نے کہا: ”وہ مذہب تمہارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں ہے“، جواب دیا: ”بخدا وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے“۔ اس جواب سے ان کے باپ کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو، اس لیے بیڑیاں پہنا کر مقید کردیا، مگر ان کے دل میں تلاش حق کی تڑپ تھی اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب ملک شام کے تاجر آئیں تو مجھ کو اطلاع دینا، چنانچہ جب وہ آئے تو ان کو خبر کردی، انہوں نے کہا: ”جب واپس ہوں تو مجھ کو بتانا“، چنانچہ جب کاروان تجارت لوٹنے لگا تو ان کو خبر کی گئی، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کر ان کے ساتھ ہوگئے، شام پہنچ کر دریافت کیا کہ ”یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے“؟ لوگوں نے بشب (پادری) کا پتہ دیا، اس سے جا کر کہا: ”مجھ کو تمہارا مذہب بہت پسند ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کر مذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کو اس مذہب میں داخل کرلو“۔
چنانچہ مجوسیت کے آتش کدہ سے نکل کر ”آسمانی بادشاہت“ کی پناہ میں آگئے، مگر یہ پادری بڑا بداعمال اور بداخلاق تھا، لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کرتا، جب وہ دیتے تو اس کو فقراء و مساکین میں تقسیم کرنے کے بجائے خود لے لیتا، اس طریقہ سے اس کے پاس سونے اور چاندی کے ساتھ مٹکے جمع ہوگئے، حضرت سلام اس کی حرص کو دیکھ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے تھے، مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مرگیا، عیسائی شان و شوکت کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین کرنے کے لیے جمع ہوگئے، اس وقت انہوں نے اس کا سارا اعمال نامہ ان لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا، لوگوں نے پوچھا: ”تم کو کیسے معلوم ہوا“؟ انہوں نے ان کو لے جا کر اس خزانہ کے پاس کھڑا کردیا، تلاشی لی گئی تو واقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے، عیسائیوں نے اس کی سزا میں نعش دفن کرنے کے بجائے صلیب پر لٹکا کر سنگسار کردیا، اس کی جگہ دوسرا پادری مقرر ہوا، یہ بڑا عابد و زاہد اور تارک الدنیا تھا، شب و روز عبادت الہی میں مشغول رہتا، اس لیے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اس سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخر تک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس سے کہا: ”میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف و محبت کے ساتھ رہا، اب آپ کا وقت آخر ہے اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کو کیا ہدایت ہوتی ہے“؟ اس نے کہا: ”میرے علم میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جو مذہب عیسوی کا سچا پیرو ہو، سچے لوگ مرکھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کو بہت کچھ بدل دیا ہے اور بہتیرے اصول تو سرے سے چھوڑ ہی دیئے ہیں، ہاں موصل میں فلاں شخص دین حق کا سچا پیرو ہے، تم جا کر اس سے ملاقات کرو“۔
چنانچہ اس پادری کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اور تلاش کرکے اس سے ملے اور پورا واقعہ بیان کیا کہ ”فلاں پادری نے مجھ کو ہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ ابلتا ہے اور میں آپ سے مل کر تشنگی بجھاؤں“، اس نے ان کو ٹھہرالیا، پہلے پادری درحقیقت بڑا متقی اور پاکباز تھا، اس لیے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے آئندہ کے متعلق اس سے بھی وصیت کی خواہش کی، اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔
چنانچہ اس کی موت کے بعد وہ نصیبین پہنچے اور پادری سے مل کر دوسرے پادری کی وصیت بتائی یہ پادری بھی پہلے دونوں پادریوں کی طرح بڑا عابد و زاہد تھا، حضرت سلمان یہاں مقیم ہو کر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے، ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فائدہ اٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آپہنچا، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے گزشتہ پادریوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہر مقصود کا پتہ بتایا۔
چنانچہ اس کی موت کے بعد انہوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے پادری سے مل کر پیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہوگئے، کچھ بکریاں خرید لیں، ان سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر و شکر کے ساتھ روحانی غذا پادری سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانہ حیات بھی لبریز ہوگیا، تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی پوری سرگذشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کو آمادہ ہیں، اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جایئے، اس نے کہا: ”بیٹا! میں تمہارے لیے کیا سامان کروں؟ آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے، جس سے ملنے کا تم کو مشورہ دوں، البتہ اب اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جو ریگستان عرب سے اٹھ کر دین ابراہیم کو زندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا، اس کے علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا اور صدقہ اپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، اگر تم اس سے مل کر سکو تو ضرور ملنا“۔
اس پادری کے مرنے کے بعد حضرت سلمان رضی اللہ عنہ عرصہ تک عموریہ میں رہے، کچھ دنوں کے بعد بنو کلب کے تاجر ادھر سے گذرے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ”اگر تم مجھ کو عرب پہنچا دو تو میں اپنی گائیں اور بکریاں تمہاری نذر کردوں گا“، وہ لوگ تیار ہوگئے، اور زبان حال سے یہ شعر:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
پڑھتے ہوئے ساتھ ہولیے۔
لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کر دھوکا دیا اور ان کو ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کر ڈالا مگر یہاں کھجور کے درخت نظر آئے، جس سے تو آس بندھی کی شاید یہی وہ منزل مقصود ہو، جس کا پادری نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن ہی قیام کیا تھا کہ یہ امید بھی منقطع ہوگئی، آقا کا چچازاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو اس کے ہاتھ بیچ دیا، وہ ان کو اپنے ساتھ مدینہ لے چلا اور سلمان غلامی در غلامی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے، ہاتفِ غیب تسکین دے رہا تھا کہ یہ غلامی نہیں ہے:
اسی سے ہوگی ترے غم کدہ کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
درحقیقت اس غلامی پر جو کسی کی آستان ناز تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں، جوں جوں محبوب کی منزل قریب ہوتی جاتی تھی کشش بڑھتی چلی جاتی تھی اور آثار و علامات بتاتے تھے کہ شاید مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب ان کو پورا یقین ہوگیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے۔
اس وقت آفتاب رسالت مکہ پر پر تو افگن ہوچکا تھا، لیکن جور و ستم کے بادلوں میں چھپا تھا، سلمان رضی اللہ عنہ کو آقا کی خدمت سے اتنا موقع نہ ملتا تھا کہ خود اس کا پتہ لگاتے آخر انتظار کرتے کرتے وہ یوم مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالمتاب مدینہ کے افق پر طلوع ہوا، حرمان نصیب سلمان رضی اللہ عنہ کی شب ہجر تمام ہوئی اور صبح امید کا اجالا پھیلا، یعنی سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے، سلمان رضی اللہ عنہ کھجور کے درخت پر چڑھے کچھ درست کر رہے تھے، آقا نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اس کو چچازاد بھائی نے آکر کہا: ”خدا بنی قیلہ کو غارت کرے سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں جو مکہ سے آیا ہے، یہ لوگ اس کو نبی سمجھتے ہیں“، سلمان رضی اللہ عنہ کے کانوں تک اس خبر پہنچنا تھا کہ یار ائے ضبط نہ رہا، صبر کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت پر سے فرش زمین پر آجائیں، اسی مدہوشی میں جلد از جلد درخت سے نیچے اترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے ”تم کیا کہتے ہو؟“ آقا نے اس سوال پر گھونسہ مار کر ڈانٹا کہ ”تم کو اس سے کیا غرض؟ تم اپنا کام کرو“، اس وقت سلمان رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے۔
لیکن اب صبر کسے تھا، کھانے کی چیزیں پاس تھیں، ان کو لے کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ”میں نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے برگزیدہ بندہ ہیں اور کچھ غریب الدیار اور اہل حاجت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، میرے پاس چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ اس کا کون مستحق ہوسکتا ہے اس کو قبول فرمایئے“، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو کھانے کا حکم دیا مگر خود نوش نہ فرمایا، اس طریقہ سے سلمان رضی اللہ عنہ کو نبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہوگیا کہ وہ صدقہ نہیں قبول کرتا، دوسرے دن پھر ہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ”کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں، آج یہ ہدیہ قبول فرمایئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا، خود بھی نوش فرمایا اور دوسروں کو بھی دیا۔
تیسری بار جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں تشریف فرما تھے، وہاں آپ اپنے کسی صحابی کی تدفین میں شریک تھے، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر دو چادریں تھیں، انھوں نے قریب پہنچ کر سلام کیا اور گھوم کر پشت کی جانب آگئے کہ شاید وہ خاتم نبوت دیکھ سکیں جس کو عموریہ میں ان کے مرشد نے بتایا تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی پشت مبارک کی طرف نظر اٹھائے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقصد سمجھ گئے اور پشت پر سے چادر سرکا دی، اس طریقہ سے دوسری نشانی یعنی مہر نبوت کی بھی زیارت کرلی اور با چشم پر نم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بوسہ دینے کو جھکے اور اسے بے ساختہ چومنے لگے اس وقت ان کی آنکھوں سے مسرت کے آنسو جاری تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سامنے آؤ، سلمان رضی اللہ عنہ نے سامنے آکر ساری سرگذشت سنائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دلچسپ داستان اتنی پسند آئی کہ اپنے تمام صحابہ کو سنوائی، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اتنے مرحلوں کے بعد دین حق سے ہم آغوش ہوئے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قبول اسلام از عبدالعلیم ندوی- ص: ۱۱۵-۱۲۰