- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اردگرد سے سکیورٹی ہٹا لی گئی

اسلام آباد میں لال مسجد سے ملحقہ خواتین کے مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے مدرسہ سیل کیے جانے اور وہاں سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے الزامات سامنے آنے کے بعد پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مسجد کے اردگرد تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو ہٹا لیا گیا ہے۔
جامعہ حفصہ نامی اس مدرسے اور لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے مسجد کے احاطے میں زیرِ تعلیم طالبات کا مسئلہ حل کرنے کے لیے منگل تک کا وقت مانگا ہے۔
خواتین کا مدرسہ سِیل کرنے کے الزامات تین دن قبل سامنے آئے تھے اور سنیچر کو جامعہ حفصہ کی پرنسپل امِ حسان نے دعویٰ کیا تھا کہ ضلعی انتظامیہ نے گذشتہ دو روز سے نہ صرف لال مسجد کی طرف جانے والے راستے کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر رکھا ہے بلکہ طالبات کی رہائش گاہوں کو بھی تالے لگا دیے ہیں۔
ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ انتظامیہ نے اس عمارت کے گیس کے کنکشن بھی کاٹ دیے ہیں اور وہاں محصور 150 طالبات کو کھانا پہنچانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی اور نہ ہی کسی کو ان سے ملنے دیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جامعہ حفصہ کی طالبات گذشتہ ساڑھے تین ماہ سے اس جگہ پر دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن اس دوران کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں۔
اس سلسلے میں اسلام آباد کے سٹی سرکل کے پولیس افسر عامر نیازی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ لال مسجد کا کوئی بھی حصہ خواتین کے لیے مختص نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے حکم ملا تھا کہ وہ جگہ کو سِیل کر دیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
اُنھوں نے کہا تھا کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی جائے وقوعہ پر تعینات کیا گیا ہے۔
اتوار کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او غلام رسول کا کہنا ہے کہ اب لال مسجد کے اردگرد تعینات کی گئی سکیورٹی کو ہٹا لیا گیا ہے اور پولیس اہلکاروں کو نیب راولپنڈی کے دفتر تک محدود کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ لال مسجد اسلام آباد کے سیکٹر جی سِکس میں واقع ہے اور اسی علاقے میں نیب کا دفتر بھی ہے جہاں پر ان دنوں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں۔
ایس ایچ او نے کہا کہ لال مسجد کے باہر سکیورٹی ایک دو روز کے لیے لگائی گئی تھی۔
غلام رسول کا بھی کہنا تھا کہ لال مسجد کی عمارت کے جس حصے کو تالہ لگایا گیا وہاں پر طالبات نہیں رہتیں بلکہ اس سے ملحقہ حصے میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بقول عمارت کے جس حصے کی تالہ بندی کی گئی وہاں پر مفتی حضرات بیٹھا کرتے تھے۔
جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے ترجمان حافظ احتشام نے بھی سکیورٹی ہٹائے جانے کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اُنھیں ضلعی انتطامیہ کی طرف سے سنیچر کو رات گئے ایک پیغام موصول ہوا کہ لال مسجد کے باہر سے سکیورٹی ہٹا لی گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے فون کر کے یہ بھی کہا کہ لال مسجد کے احاطے میں موجود زیر تعلیم طالبات کے معاملے کو حل کرنے کے لیے آئندہ دو روز میں مذاکرات ہوں گے۔
اس بارے میں موقف لینے کے لیے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون میں خواتین کے مدرسے موجود ہیں جہاں پر طالبات کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ2007 میں لال مسجد میں فوجی آپریشن کے دوران ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے بقول خواتین بھی شامل تھیں۔ تاہم ضلعی انتظامیہ اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔