- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بھائی چارہ اور اُخوتِ اسلامی

قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘ (الحجرات:۱۰ )
ترجمہ:’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوتِ اسلامیہ اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ، وَلَا یَحْقِرُہٗ۔ اَلتَّقْوٰی ھَاہُنَا وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ۔‘‘ (صحیح مسلم،ج:۲،ص: ۳۱۷، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ)
ترجمہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘
گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے، یعنی سب کا ایک رب، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ہے جو کہ دینِ اسلام ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ایمان و تقویٰ کو فضیلت کی بنیاد بھی قرار دیا ہے اور یہ بتلادیا کہ انسان رنگ و نسل اور قوم و قبیلہ کے اعتبار سے نہیں، بلکہ ایمان اور تقویٰ جیسی اعلیٰ صفات سے دوسروں پر فوقیت حاصل کرتا ہے اور قوم و قبیلے صرف تعارف اور جان پہچان کے لیے ہیں، ارشادِ خداوندی ہے:
’’یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
ترجمہ: ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف شاخیں اور مختلف قبیلے بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اُس کے نزدیک تو تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے جو تم سب میں بڑا پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کو جانتا ہے اور سب کے حال سے باخبر ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات و احادیث سے واضح ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول a نے اُخوت کی بنیاد اسلام اور ایمان کو قرار دیا، کیوں کہ ایمان کی بنیاد مضبوط اور دائمی ہے، لہٰذا اس بنیاد پر قائم ہونے والی اُخوت کی عمارت بھی مضبوط اور دائمی ہوگی۔
اسلام ایک عالمی دین ہے اور اُس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اُخوت کی بنیادیں ہیں، سب کمزور ہیں اور اُن کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اُخوتِ اسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی۔
آج بھی مشرق و مغرب اور دُنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان جب موسم حج میں سرزمین مقدس حرمین شریفین میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دُوسرے سے اس گرم جوشی سے ملتے ہیں جیسے برسوں سے ایک دُوسرے کو جانتے ہوں، بلکہ بعضوں کو اس مسرت سے روتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے،حالاں کہ اُن کی زبانیں، اُن کے رنگ اور اُن کی عادات مختلف ہوتی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود جو چیز اُن کے دلوں کو مضبوطی سے جوڑے ہوئے ہے، وہ ایمان اور اسلام کی مضبوط رسی ہے۔
اُمت میں اُخوتِ اسلامی پیدا کرنے کے لیے محبت، اخلاص، وحدت اور خیر خواہی جیسی صفات لازمی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے اس صفت کو بطور نعمت ذکر فرمایا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْکُنْتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ إِخْوَانًا۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’اور اس کے اس احسان کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا ہے جب کہ تم آپس میں ایک دُوسرے کے سخت دُشمن تھے، پھر اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی، تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کے آپس کے تعلقات اور اُخوت و محبت کو ایک جسم کے مختلف اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’مثل المؤمنین فی توادھم و تراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی لہٗ سائر جسدہٖ بالسہر والحمٰی۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۲،ص: ۸۸۸، حدیث: ۶۰۳۶،باب رحمۃ الناس والبہائم )
ترجمہ: ’’ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متأثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
مسلمان دُنیا کے کسی خطۂ زمین میں آباد ہوں‘ وہ اُمتِ اسلامیہ کا ایک جزو ہیں۔ اگر وہ آرام و سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں تو پوری اُمت پُرسکون ہوگی اور اگر وہ کسی مصیبت یا ظلم کا شکار ہیں تو اُن کی تکلیف سے پوری اُمت بے چین اور تکلیف میں ہوگی اور اس صورت میں لازماً وہ اس کے ازالہ کی فکر کرے گی اور اُس کے لیے ہر ممکن وسائل اختیار کرے گی۔
اُمت کا اتحاد اور اُخوت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول a کو بہت عزیز ہے، اسی لیے قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں جا بجا اُس پر بہت زور دیا گیا ہے اور اختلافات اور تفریق سے روکاگیا ہے۔ اسلام نے اس اُخوت کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا حکم دیا ہے اور ایسے تمام اسباب اور تصرفات سے روکا ہے جو اُسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۰۳) ترجمہ: ’’اور مضبوط پکڑو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘
اُمت کے اتحاد اور اُخوت کے رشتہ کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید اور اُس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑیں، وہ تعلیمات جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اُمت کے سامنے پیش فرمایا ہے، اُس پر ایمان لائیں اور اُس کی ہدایات پر چلیں اور نبی کریم a کی سنت اور سلف صالحین کے راستہ پر چلیں، یہی کامیابی کا راستہ ہے اور اسی سے اُمت میں اتحاد اور اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔
یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی، ہاں! چھوٹ سکتی ہے، اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہیں گے تو کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابلِ اختلاف ہوجائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم نئی زندگی حاصل کرتی ہے۔
اُمتِ اسلامیہ کا اتحاد اور اُخوت یہ وہ عظیم قوت ہے جس سے اعداء اسلام ہمیشہ خائف رہتے ہیں اور اس قوت کو کم زور کرنے کے لیے سازشیں کرتے ہیں۔گویا اُخوتِ اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دُوسرے مسلمان بھائی کے غم، دُکھ اور خوشی میں برابر کا شریک ہو، چاہے وہ مسلمان مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا۔
اُخوتِ اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دُوسرے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو، جو بھلائی وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، وہ اپنے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لایؤمن أحدُکم حتی یحب لأخیہ مایحب لنفسہٖ۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۱،ص: ۶، حدیث:۱۳)
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں تو آپ a نے مسلمان بھائی کی ایذاء رسانی کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار قسم کھاکر فرمایا: بخدا وہ شخص مؤمن نہیں جس کے شر سے اُس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔
اُخوتِ اسلامی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم وسیلہ آپس میں محبت کے ساتھ ملنا ملانا اور ایک دُوسرے کو دُعاء و سلام دینا بھی ہے، جس سے دل صاف ہوتے ہیں اور محبت بڑھ کر اُخوتِ اسلامی میں قوت کا ذریعہ بنتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لن تدخلوا الجنۃ حتی تؤمنوا ولن تؤمنوا حتی تحابوا أَوَ لا أدلکم علی شئی لو فعلتموہ تحاببتم ، أفشوا السلامَ بینکم۔‘‘ (صحیح مسلم،ج:۱،ص: ۵۴، باب بیان لایدخل الجنۃ الاالمؤمنون)
ترجمہ:’’تم ہرگز جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ۔ اور اُس وقت تک تم ایمان والے نہیں بن سکتے، جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اُسے بجالاؤ تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:) آپس میں کثرت سے سلام پھیلاؤ۔‘‘
بہرحال قرآن کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے اور اس اُخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دیا ہے اور اس محبت اور اتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے۔ اس اُخوت کو قائم رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اپنانا جن سے یہ اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے، جیسے: خیر خواہی، محبت، اخلاص، ایثار، ملنا ملانا، صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعاء پیش کرنا وغیرہ۔
لہٰذا اُمت کے زُعماء اور قائدین چاہے وہ سیاسی ہوں یا دینی، اُن کا فرض ہے کہ اُمت کے اس اتحاد اور اُخوت کو مضبوط کریں اور اُس کے اسباب کو ترقی دیں اور اختلاف و انتشار سے اُمت کو دور رکھیں اور اُن اسباب کا ازالہ کریں، جن سے اُمت کے قلوب میں بُعد اور نفرت اور اُس کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔
اسی طرح اُمت کے قائدین کا یہ بھی فرض ہے کہ اُمت کے اس اتحاد اور اخوت میں کوئی رسم و رواج رُکاوٹ بن رہے ہوں تو ایسے رُسوم و رواج پر پابندی لگائیں، چاہے اُسے کتنا ہی مذہبی اور تقدس کا رنگ دے دیا گیا ہو، اس لیے کہ ان رُسوم و رواج کے بالمقابل اُمت کی وحدت اور اُخوت ہم سب کو زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ نیز ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اندر صفتِ ایمان پیدا کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۱،ص: ۶، باب المسلم من سلم المسلمون )
ترجمہ: ’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ ہوں اور اصلی مہاجر وہ ہے جس نے برائیوں کو چھوڑ دیا ہو۔‘‘
دوسری روایت میں فرمایا:’’ اور قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اُس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
اُخوتِ اسلامی کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں ایک دوسرے کو حقیر جاننا اور اس کا مذاق اُڑانا بھی ہے، اس لیے قرآن کریم نے اس سے بھی ایمان والوں کو روکا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّنْ نِّسَائٍ عَسٰی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
ترجمہ:’’اے ایمان والو! نہ تو مردوں کی کوئی جماعت دُوسرے مردوں کی کسی جماعت کامذاق اُڑائے، کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اُڑارہے ہیں اُن سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، یہ ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اُڑانے والی ہیں، اُن سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور نہ آپس میں ایک دُوسرے کو طعنہ دیا کرو اور نہ ایک دُوسرے کو برے لقب سے پکارا کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں گے۔‘‘
اگر دو مسلمان بھائیوں یا دو مسلمان جماعتوں میں اختلاف اور جھگڑے کی صورت پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:۱۰)
ترجمہ:’’ ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
یعنی صلح اور جنگ کی ہر حالت میں یہ ملحوظ رہے کہ دو بھائیوں کی آپس کی لڑائی ختم ہوکر مصالحت میں بدل جائے، دُشمنوں اور کافروں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے۔ جب دو بھائی آپس میں لڑ پڑیں تو یوں ہی اُن کو اُن کے حال پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ اصلاح ذات البین کی پوری کوشش کی جائے اور ایسی کوشش کرتے وقت خدا سے ڈرتے رہو کہ کسی کی بے جا طرف داری یا انتقامی جذبہ سے کام لینے کی نوبت نہ آجائے۔اللہ تعالیٰ اُمتِ اسلامیہ کو بھائی بھائی بننے اور اس اُخوت کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین