- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عید کس طرح منائیں!

شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر کہتے ہیں، یہ لفظ ”عود“ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں لوٹنا، مفردات القرآن کے مصنف امام راغب الاصفہانی نے لکھا ہے کہ عید وہ ہے جو بار بار عود کرے یعنی لوٹ کر آئے، عربوں نے اس لفظ کو خوشی اور مسرت کے دن کے لیے مخصوص کرلیا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لیے خاص ہے، اللہ نے یہ چار دن خوشی اور مسرت کے قرار دیئے ہیں اور انہیں حدیث شریف میں ایام اکل و شرب (کھانے پینے کے دن) کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
رمضان کا بابرکت مہینہ ختم ہو رہا ہے اور اب عیدالفطر کی آمد کا شور ہے، اللہ کے نیک بندوں نے حسب توفیق اس مہینے کی برکتیں سمیٹ لی ہیں، روزے، تراویح، اعتکاف اور تلاوت کلام پاک جیسی عبادتوں سے اپنے نامہئ اعمال کا بوجھ بڑھالیا ہے، عید ان نیک بندوں کے لیے انعام کا دن ہے۔
ہر قوم کے کچھ خاص دن ہوتے ہیں جن میں اس قوم کے لوگ اپنے اپنے عقیدے اور رسم و رواج کے مطابق جشن مناتے ہیں، اچھا لباس پہنتے ہیں، اچھا کھانا کھاتے ہیں اور مل جل کر خوشی کا کچھ وقت گزارتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ دیکھا کہ مدینے کے لوگ دو تہوار مناتے ہیں اور دونوں میں کھیل تماشے کیا کرتے ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں، کہنے لگے کہ ہم جاہلیت کے زمانے میں دو دنوں کو کھیل کود کے دن کے طور پر منایا کرتے تھے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کردیے ہیں: (ایک) عیدالاضحی کا اور (دوسرا) عید الفطر کا دن۔ (ابوداؤد) اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام انسانی فطرت کے تقاضوں کی نفی نہیں کرتا بلکہ وہ ان کی تکمیل کرتا ہے، خوشی اور مسرت کا اظہار انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اس مقصد کے لیے دور جاہلیت میں اہل مدینہ دو دن خاص رکھتے تھے، اسلام نے ان دو دنوں کو اظہار مسرت کے دن کے ساتھ ساتھ عبادت کا رنگ بھی دے دیا، دونوں دنوں میں مسلمان عیدگاہ جاتے ہیں اور دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں، یہ دونوں تہوار اسلام کے توحیدی مزاج اور اس کی صاف ستھری تعلیمات کے عین مطابق ہیں، کیوں کہ عیدالفطر مسلمانوں کا قومی و ملی تہوار بھی ہے اور عبادت بھی ہے، اسی لیے فقہا نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی روشنی میں ان کے احکام بھی مرتب کر کے امت کے سامنے رکھ دیے ہیں، عید تو ہم منائیں گے ہی اگر اس دن کو شریعت کے حکم کے مطابق اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں منائیں تو یہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوگا اس طرھ ہم اس دن کے ہر لمحے کو عبادت بھی بنا سکتے ہیں اور دنیاوی لطف و مسرت کے ساتھ اخروی اجر و ثواب کے بھی مستحق ہوسکتے ہیں۔
اسلام خشک مذہب نہیں ہے، نہ وہ جسمانی اور ذہنی تفریحات کے خلاف ہے بلکہ آپ جائز حدود میں رہ کر ہر وہ کام کرسکتے ہیں جس سے آپ کے قلب و روح کو بھی تسکین ملے اور جسم کو بھی طمانیت کا احساس ہو، عیدالفطر کا دن ہماری زندگی میں ایک سال میں ایک بار آتا ہے، آپ شریعت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے اس دن کو یادگار بناسکتے ہیں، خوشی اور مسرت کا پورا پورا مظاہرہ کریں، اچھا پہنیں، اچھا کھائیں تفریحی مشاغل اختیار کریں، عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے ملیں جلیں، اس دن روزہ رکھنے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ بہ قدر وسعت و صحت خوب کھایا پیا جائے، اگر آج کے دن بھی روزہ رکھنے کا حکم ہوتا تو عید کی خوشی آدھی رہ جاتی، بغیر کھائے پیئے کسی تفریح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی ہے کہ اس دن نہائیں، دھوئیں، جو کپڑے سب سے اچھے ہوں وہ پہنیں، خوشبو لگائیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر کچھ بچیاں بیٹھی تھیں اور جنگ بعاث سے متعلق کچھ اشعار گا رہی تھیں۔ اسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول کے گھر میں یہ کیا گایا جارہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس وقت ہماری طرف سے کروٹ لیے لیٹے ہوئے تھے (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا) اے ابوبکر انہیں گانے دو، ہر قوم کے لیے تیوہار کا ایک دن ہوتا ہے، آج ہماری عید کا دن ہے۔ (بخاری: ۳۲۴/1)
یہ کوئی معمولی رات نہیں ہے، اگر چہ رمضان ختم ہوچکا ہے مگر یہ مہینہ بھی کچھ کم خیر و برکت کا نہیں ہے، یہ اس مہینے کی پہلی شب ہے، اس شب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے لیلۃ العید (چاند رات یا عید کی رات) کہتے ہیں، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے اس رات کے سلسلے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے عیدین کی راتوں میں خاص اجر و ثواب کی امید پر عبادت کی، اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن لوگوں کے دل (آخرت کے خوف سے) مردہ ہوچکے ہوں گے (ابن ماجہ)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کی راتوں میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن ہر طرح سے پرسکون ہوگا، حالاں کہ وہ دن بڑا سخت ہوگا اور اس کی دہشت سے گنہ گاروں کے دل کانپ رہے ہوں گے۔ بعض علماء نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس شخص کا دل دنیا کی محبت میں دیوانہ نہ ہوگا اور یہ شخص بری موت سے محفوظ رہے گا، اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اس رات کو عبادت میں گزارنا افضل ہے۔