- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

صدقہ فطر

اللہ تعالی کی توفیق سے رمضان المبارک کے روزے بہ خیر و خوبی پورے ہونے کو ہیں، ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ خدا کی بخشی ہوئی طاقت اور صحت سے رمضان کے روزے پورے کرسکا اور اس ماہ کی جو دوسری عبادتیں تھیں، ان کی ادائی سے بھی فارغ ہوا، مسرت کے ان لمحات کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے خدا کے حضور سجدہئ شکر ادا کیا جائے، عیدالفطر کی دوگانہ نماز دراصل اسی جذبہئ تشکر کا اظہار ہے، رمضان میں ہم نے جو عبادتیں کی ہیں اور ہم ان عبادتوں کی بجا آوری پر جو سجدہئ شکر ادا کررہے ہیں وہ سب بارگاہ خداوندی میں قبولیت سے سرفراز ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی رضا جوئی کے لیے کچھ اور نیک کام بھی کریں، تا کہ وہ خوش ہو کر ہماری رمضان کی محنت بھی قبول فرمالے اور ہماری یہ دوگانہ نماز بھی جو ہم عید کے دن ادا کرنے والے ہیں، اللہ کی رضا کا سب سے بہترین ذریعہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، ہم عیدالفطر منانے والے ہیں، یہ خوشی کا دن ہے، لیکن ہمیں اپنی خوشی میں اس طرح مست نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے غریب رشتہ داروں اور غریب پڑوسیوں کو بھول جائیں، ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں اور ان کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ان کی مالی مدد کی جائے تا کہ وہ بھی اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے اچھے لباس اور اچھے کھانے کا نظم کرسکیں، صدقہ الفطر صاحب حیثیت مسلمانوں پر اسی لیے واجب قرار دیا گیا ہے تا کہ غرباء بھی عید کی حقیقی خوشی سے محروم نہ رہیں۔
حدیث شریف میں صدقہ فطر کے مقصد، مصلحت اور حکمت پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر اس لیے واجب فرمایا ہے تا کہ اس سے روزوں میں ہونے والی لغویات اور گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور وہ مساکین کے رزق کا ذریعہ بھی بن جائے۔ بہ ہر حال صدقہ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی ہے اور غربا و مساکین کے تعاون کا ذریعہ بھی، اس لیے جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہو، ان کو چاہیے کہ وہ احساس ذمہ داری کے ساتھ بر وقت یہ واجب ادا کریں۔
صدقۃ الفطر واجب ہے، متعدد روایات سے اس کا وجوب ثابت ہوتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہئ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ ہم صدقہ فطر نکالا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخر میں ارشاد فرمایا اپنے روزے کا صدقہ نکالو۔ ایک روایت یہ ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کی گلیوں میں منادی بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نکالنے کی ہدایت کے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ (صدقہئ فطر سے) تمہارے امراء کا تزکیہ نفس ہوگا اور تمہارے فقراء کو اس سے زیادہ کر کے واپس جائے گا۔
صدقہئ فطر ہر اس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عیدالفطر کے دن ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھی سات تو لہ سونا یا ان کے بہ قدر زیور، نقد یا بنیادی ضروریات یعنی رہائشی مکان، استعمال کے کپڑے اور برتن و غیرہ سے زیادہ سامان کے مالک ہوں، مثلاً قیمتی کپڑے، برتن فرنیچر و غیرہ، جن کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی (چھ سو بارہ گرام چاندی) کے برابر ہوجاتی ہو، یا دکان میں اتنی ہی قیمت کا سامان ہو، بنیادی ضروریات سے زیادہ کی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ جس کے پاس رہائشی مکان، سامان خورد و نوش اور استعمالی کپڑوں کے علاوہ کرائے کے مکانات، زمین غیر ضروری کپڑے سال بھر سے زائد ضرورت کی اجناس اتنی مقدار میں ہوں کہ ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے، اس مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں، نہ مال کا تجارتی ہونا شرط ہے۔ (علم الفقہ، ص: ۵۱۶) زکوۃ اور صدقۃ الفطر کے فرق کو سمجھ لینا چاہیے، زکوۃ سونا، چاندی، روپے، مال تجارت پر واجب ہوتی ہے بہ شرط یہ کہ سال گزر جائے، جبکہ صدقہئ فطر کے وجوب کے لیے یہ ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کسی کے پاس حوائج اصلیہ سے زائد سامان بہ قدر نصاب زکوۃ عید کے روز موجود ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب ہوگا۔
جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے اس کو اپنی طرف سے ادا کرنا چاہیے، اپنی نابالغ اولاد اور خادم و نوکر کی طرف سے بھی ادا کرنا چاہیے، بالغ اولاد اگر تنگ دست اور محتاج ہوں تو ان کی طرف سے بھی ادا کرنا چاہیے، مگر یہ لازمی نہیں ہے، ادا کردے تو بہتر ہے، البتہ اگر وہ مال دار ہیں تب خود ادا کریں، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو اس کے مال میں سے ادا کیا جائے گا، لیکن اگر باپ نے نابالغ مال دار اولاد کی طرف سے ادا کردیا تو ادا ہوجائے گا، اگر کسی نے کسی عذر (سفر بیماری یا بڑھاپے) کی وجہ سے یا بلاعذر روزے نہیں رکھے تب بھی صدقہئ فطر واجب ہے اولاد کے ذمے والدین کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری نہیں ہے، اگر چہ وہ اولاد کی کفالت ہی میں کیوں نہ ہوں، ہاں اگر اولاد ان کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائے گا، یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی طرف سے صدقہئ فطر ادا کرنا نانا دادا پر واجب نہیں ہے، لیکن ادا کردے تو زیادہ بہتر ہے۔
جو شخص عیدالفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے اس پر صدقہ فطر واجب ہے، اب اگر کوئی بچہ صبح صادق سے پہلے پہلے پیدا ہوا تو اس کی طرف سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ فجر کے بعد ہوا تو اس کی طرف سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص صبح صادق سے پہلے پہلے مرجائے یا فقیر ہوجائے تو اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی کافر عید کی رات میں مسلمان ہوگیا اس پر صدقہ فطر واجب ہے، لیکن عید کی صبح میں مسلمان ہوا تو اس پر واجب نہیں ہے۔ صدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے دینا بہتر ہے، تا کہ جن غریب بھائیوں کو فطرے کی رقم یا سامان و غیرہ دیا جارہا ہے وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ رمضان ہی میں ادا کردیا جائے تا کہ غریب بھائی اپنی ضرورتیں پوری کرسکیں، اگر رمضان المبار میں ادا نہ کیا جاسکے تو عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے ادا کردینا چاہیے، اس لیے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ صدقہ فطر نماز کے لیے جانے سے پہلے ادا کردیا جائے۔