- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

احکام اعتکاف

اعتکاف کی حقیقت
اللہ تعالی کا قُرب اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔

اعتکاف کی اقسام
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: واجب، سنت اور نفل۔

واجب اعتکاف
جب اعتکاف کی نذر اور منت مانی جائے تو اس کو واجب اعتکاف کہتے ہیں، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ (احکام اعتکاف، ردالمحتار، فتاویٰ محمودیہ، اعتکاف کے فضائل و احکام)
نوٹ: واجب اعتکاف کا رواج چونکہ بہت ہی کم ہے اس لیے اس سے متعلق مزید تفصیل کے لیے اہل علم سے رابطہ فرمائیں۔

نفل اعتکاف اور اس کے احکام
۱: اللہ تعالی کا قرب اور ثواب حاصل کرنے کے لیے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو نفلی اعتکاف کہتے ہیں، خواہ جتنی دیر بھی ہو۔ نفلی اعتکاف ایک مستقل عبادت ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی مسجد جانا ہو تو نفلی اعتکاف کی نیت کرلیا کرے، جتنی دیر وہ مسجد میں ٹھہرا رہے گا اس کو اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا، البتہ مسجد سے نکلنے کے ساتھ ہی یہ اعتکاف ختم ہوجائے گا۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف از مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب، فتاوی محمودیہ، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف)
۲: نفلی اعتکاف کے لیے کوئی وقت یا مدت مقرر نہیں، بلکہ دن میں ہو، رات میں ہو، جب بھی چاہے اور جتنی دیر بھی چاہے یہ اعتکاف کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اس کے لیے روزہ بھی ضروری نہیں اور اس اعتکاف میں سنت اعتکاف کی طرح پابندیاں بھی لاگو نہیں ہوتیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مسائل اعتکاف)
۳: یوں تو عام دنوں میں بھی نفلی اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے لیکن رمضان المبارک میں اس کا ثواب مزید بڑھ جاتا ہے، اس لیے اس مبارک مہینے میں اس کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف)

سنت اعتکاف اور اس کے احکام
سنت اعتکاف کی حقیقت
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کو سنت اعتکاف کہا جاتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار، مسائل اعتکاف)

رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی شرعی حیثیت
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے، البتہ حضرات فقہاء کرام نے اس کو سنت علی الکفایہ قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویسے تو ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اس فضیلت اور ثواب کے کام کو سرانجام دے لیکن اگر کسی مسجد میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کی جانب سے سنت ادا ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی بھی شخص اعتکاف کے لیے نہ بیٹھے تو سب پر سنت چھوڑنے کا وبال ہوگا۔ اس لیے مساجد کی انتظامیہ اور اہل محلہ اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ مسجد میں کوئی نہ کوئی اعتکاف کرنے والا ضرور ہونا چاہیے۔ (صحیح البخاری رقم: ۶۲۰۲ مع اعلاء السنن، احکام اعتکاف، امداد الاحکام، ردالمحتارعلی الدرالمختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)

رمضان کا سنت اعتکاف کتنے دن کا ہوتا ہے؟
رمضان کا سنت اعتکاف پورے آخری عشرے کا ہوتا ہے، اس لیے جو حضرات عشرے سے کم کے اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہیں تو ان کا اعتکاف نفلی کہلاتا ہے اور اس پر نفلی اعتکاف ہی کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
نوٹ: جو لوگ کسی وجہ سے پورے عشرے کا اعتکاف نہیں کرسکتے تو ان کو جتنے دن کا موقع مل رہا ہو تو وہ اتنے ہی دن نفلی اعتکاف کے لیے بیٹھ جائیں، کیوں کہ اس کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی طرح وہ حضرات جو دن کو کام کاج کی وجہ سے اعتکاف میں نہیں بیٹھ سکتے تو وہ رات کو ہی نفلی اعتکاف کرلیا کریں، اسی طرح چھٹی کے دنوں میں بھی اس نفلی اعتکاف کی فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف)

کون اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتا ہے؟
۱: ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو وہ اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتا ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مراقی الفلاح، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۲: اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے بالغ ہونا شرط نہیں ہے، اس لیے نابالغ لڑکا اگر سمجھ دار ہو تو وہ بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مراقی الفلاح، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)

سنت اعتکاف کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے؟
۱: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ۲۱ رمضان کی رات سے شروع ہوتا ہے، اور جب عید کا چاند نظر آجائے تو یہ اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۲: اعتکاف کے لیے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ۲۰ رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد آجائے تا کہ جب سورج غروب ہونے لگے تو یہ اعتکاف کی حالت میں ہو، اور جب عید کا چاند نظر آجائے تو یہ اعتکاف ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد مسجد سے نکل سکتا ہے، یاد رہے کہ جو شخص ۲۰ رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کے لیے نہیں بیٹھا بلکہ سورج غروب ہوجانے کے بعد بیٹھا تو اس کا اعتکاف سنت نہیں کہلائے گا، اب اگر اس کے باوجود بھی وہ بیٹھنا چاہے تو اس کا اعتکاف نفلی شمار ہوگا اور اس پر نفلی اعتکاف ہی کے احکام جاری ہوں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم: ۹۷۴۱، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)

اعتکاف کے لیے نیت کے احکام
۱: اعتکاف کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے کہ دل میں نیت کرے کہ میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔ دل میں نیت کافی ہے، البتہ زبان سے بھی یہ الفاظ ادا کرنا درست ہے لیکن ضروری نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۲: سنت اعتکاف کی یہ نیت ۲۰ رمضان کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کرنی ضروری ہے، اس لیے جس شخص نے مسجد آنے کے بعد بھی نیت نہیں کی حتی کہ سورج غروب ہوگیا تو اب اس کے بعد اس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، مسائل اعتکاف)

اعتکاف کون سی جگہ درست ہے؟
۱: اعتکاف صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد ہی میں ہو، یہی وجہ ہے کہ مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف کرنا درست نہیں۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، امداد الاحکام، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۲: اعتکاف کے لیے سب سے افضل جگہ مسجد الحرام ہے، پھر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی، پھر اس کے بعد کسی بھی جامع مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے، اور جامع مسجد میں اعتکاف کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز کے لیے باہر جانا نہیں پڑتا۔ ویسے تو اعتکاف ہر اس مسجد میں بھی جائز ہے جس میں صرف پنچ وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے ہو اور جمعہ نہ ہوتا ہو، البتہ جس مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا نہیں کی جاتی وہاں اعتکاف جائز تو ہے لیکن افضل نہیں، البتہ اگر کسی کو جامع مسجد اور پنج وقتہ نماز والی مسجد میسر نہ ہو تو وہ ایسی مسجد ہی میں اعتکاف کو غنیمت جانے۔ (سنن ابی داؤد رقم: ۲۴۷۵، مصنف عبدالرزاق رقم: ۸۰۰۹، احکام اعتکاف، ردالمحتار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ، احسن الفتاویٰ)

مسجد کی شرعی حدود اور ان سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت
۱: اعتکاف چونکہ مسجد میں ہوا کرتا ہے اس لیے معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد کی شرعی حدود سے واقفیت حاصل کرے، کیوں کہ اس سلسلے میں ذرا سی بھی کوتاہی اعتکاف کو فاسد کرسکتی ہے، اس لیے اعتکاف شروع کرنے سے پہلے مسجد کی انتظامیہ یا بانی سے مسجد کی شرعی حدود معلوم کرلینی چاہیے کہ کون کون سی جگہیں عینِ مسجد میں داخل ہیں اور کون کون سی جگہیں داخل نہیں۔
اہم گزارش: مساجد کی انتظامیہ کو چاہیے کو وہ اعتکاف سے قبل ہی مسجد کی شرعی حدود کو تعیین اور نشاندہی کرلیں تا کہ اس معاملے میں معتکفین کے لیے سہولت رہے۔
۲: ویسے تو مسجد اس پورے احاطے کو کہا جاتا ہے جو مسجد کے لیے وقف ہوتا ہے لیکن اعتکاف کا تعلق صرف عین مسجد ہی کے ساتھ ہے۔ عین مسجد سے مراد وہ تمام جگہ ہے جس کو مسجد کے بانی نے خاص مسجد قرار دی ہو، جو نماز کے لیے مخصوص ہو، جس میں چپل پہن کر نہ چلا جاتا ہو اور جہاں جُنبی شخص کا داخلہ جائز نہ ہو؛ اعتکاف صرف اسی جگہ جائز ہے۔ مسجد کی ان حدود کے علاوہ جو جگہ مسجد کے احاطے میں ہو تو لیکن عینِ مسجد میں شامل نہ ہو تو وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا، جیسے وضوخانہ، غسل خانہ، مسجد کا گودام، امام اور مؤذن کا کمرہ، جنازہ گاہ و غیرہ؛ یہ جگہیں عموماً عین مسجد سے خارج ہوا کرتی ہیں، البتہ ان میں سے اگر کسی جگہ سے متعلق مسجد کے بانی نے صراحت کی ہو کہ یہ جگہ عین مسجد میں شامل ہے تو اس صورت میں وہاں جانے سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

۳: درجہ ذیل جگہیں عموما مسجد میں داخل ہوا کرتی ہیں:
(الف) مسجد کا محراب، اندرونی ہال، برآمدہ، صحن اور چھت، اسی طرح ہر وہ جگہ جس کو مسجد کے بانی نے عین مسجد قرار دی ہو تو وہ بھی مسجد ہی کا حصہ شمار ہوگی، معتکف کے لیے وہاں جانا جائز ہے، البتہ اگر ان میں سے کسی جگہ کو مسجد کے بانی نے عین مسجد سے خارج رکھا ہو تو ایسی صورت میں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(ب) مسجد کی چھت چونکہ مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے اس لیے اعتکاف کی حالت میں وہاں جانا جائز ہے، البتہ اگر چھت پر جانے کے لیے راستہ عین مسجد سے باہر بنایا گیا ہو تو اس کے ذریعے چھت پر جانا جائز نہیں۔ یہی حکم اس مسجد کا بھی ہے جو کئی منزلہ ہو کہ اگر اوپر جانے کا راستہ مسجد کی شرعی حدود کے اندر ہی ہو تو اوپر کی منزلوں میں جانا جائز ہے، اور اگر راستہ مسجد سے باہر ہو تو ایسی صورت میں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(ج) معتکف کے لیے پوری مسجد اعتکاف کی جگہ ہے، اس لیے عین مسجد میں جس جگہ وہ جانا چاہے جاسکتا ہے، جس جگہ بھی اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھ سکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، امداد الاحکام، مسائل اعتکاف، ردالمحتار، فتاویٰ محمودیہ)

معتکف کے لیے چادریں لگانے کا حکم
۱: معتکف اعتکاف کے لیے جس جگہ بیٹھنا چاہے وہاں اپنے ارد گرد چادریں لگا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی چادر لگائے بغیر ہی اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مسائل اعتکاف)
۲: معتکف نے اپنے لیے جو جگہ مخصوص کی ہو تو اگر وہ اس سے ہٹ کر مسجد کی شرعی حدود میں کسی اور جگہ آرام کرنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، فتاویٰ محمودیہ)

سنت اعتکاف کے لیے روزے کی شرط
سنت اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، روزے کے بغیر اعتکاف درست نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اگر اعتکاف کے دوران معتکف نے کسی بھی وجہ سے روزہ نہیں رکھا یا اس کا روزہ کسی بھی وجہ سے ٹوٹ گیا تو اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔ (سنن ابی داؤد رقم: ۲۴۷۵، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدر المختار، آپ کے مسائل اور ان کا حل، فتاویٰ عثمانی)

کن چیزوں سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا؟
۱: معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے ایام میں مسجد کی شرعی حدود ہی میں رہے، کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے نکلے، معتکف اگر کسی عذر کے بغیر مسجد سے نکل جائے چاہے بھول کر ہو یا جان بوجھ کر تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ اگر اعتکاف بھول کر یا غلطی سے ٹوٹ جائے تو اس کا گناہ نہیں ہوتا۔ (سنن ابی داؤدرقم: ۲۴۷۵، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۲: مسجد سے نکلنا اس وقت کہلائے گا جب دونوں پاؤں مسجد سے اس طرح باہر نکل جائیں کہ اسے عرف میں مسجد سے نکلنا کہا جاسکے۔ اس لیے معتکف مسجد میں رہتے ہوئے صرف سر، یا ہاتھ، یا ایک پاؤں، یا بیٹھ کر یا لیٹ کر صرف دونوں پاؤں باہر نکال دے تو اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (صحیح البخاری رقم: ۲۰۲۸، اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۳: معتکف قضائے حاجت اور پیشاب، کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے، لیکن اگر فراغت کے بعد تھوڑی دیر بھی وہاں ٹھہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ اگر وضو کرنا چاہے تو وضو کے لیے ٹھہر سکتا ہے، لیکن فراغت کے بعد فوراً مسجد لوٹ آنا ضروری ہے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدرالمختار، مراقی الفلاح، مسائل اعتکاف)
۴: معتکف اگر قضائے حاجت کے لیے نکلے اور وہاں جا کر معلوم ہو کہ بیت الخلا مصروف ہے تو وہ وہاں انتظار بھی کرسکتا ہے۔ (احسن الفتاویٰ، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف)
۵: معتکف کے لیے اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے مسجد کے بیت الخلا کا استعمال سخت دشوار ہو تو وہ قضائے حاجت کے لیے گھر بھی جاسکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدرالمختار، فتاویٰ محمودیہ)
۶: معتکف کو وضو کی ضرورت ہو اور مسجد کی شرعی حدود میں وضو کرنے کا انتظام بھی ہو تو ایسی صورت میں وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، البتہ اگر وضو کا انتظام نہ ہو تو وضو کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے، اسی طرح اگر وضو خانے میں رش ہو تو وہاں انتظار بھی کرسکتا ہے، البتہ وضو سے فارغ ہوتے ہی فوراً مسجد لوٹ آنا ضروری ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ، احسن الفتاویٰ)
۷: معتکف کو ہر نماز کے لیے خواہ وہ فرض ہو، واجب ہو، سنت ہو، نفل ہو، قضا نماز ادا کرنی ہو، تلاوت کرنی ہو، یا سجدہ تلاوت ادا کرنا ہو؛ ان سب کے لیے جس وقت بھی چاہے وضو کرنے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز ہے اگر مسجد میں وضو کا انتظام نہ ہو۔ البتہ اگر معتکف پہلے سے باوضو ہو تو اسے دوبارہ وضو کرنے کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں، لیکن اگر عین مسجد ہی میں وضو کا انتظام ہو تو باوضو ہوتے ہوئے بھی دوبارہ وضو کرسکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، مسائل اعتکاف، احسن الفتاویٰ)
۸: ضرورت ہو تو معتکف مسجد میں ریح یعنی ہوا بھی خارج کرسکتا ہے۔ (احکام اعتکاف، احسن الفتاویٰ)
۹: معتکف کو اگر احتلام ہوجائے تو مناسب یہ ہے کہ فوراً مسجد سے نکل جائے اور غسل کرکے فوراً مسجد لوٹ آئے۔ مسجد سے نکلنے کے لیے کوئی خاص طریقہ نہیں بلکہ جیسے بھی ہو مسجد سے نکلنا درست ہے، لیکن فوراً مسجد سے نکلنے کا یا غسل کرنے کا موقع نہ ہو تو تیمم کرکے مسجد ہی میں رہے، پھر جب موقع ملے تو جا کر غسل کرکے مسجد لوٹ آئے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، ردالمحتار علی الدر المختار، مسائل اعتکاف)
۰۱: اعتکاف کی حالت میں کلی کرنے، مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنے اور سر دھونے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر چلا جائے چاہے بھول کر ہو، غلطی سے ہو یا جان بوجھ کر ہو تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے ان کاموں کی اگر ضرورت پڑ رہی ہو تو مسجد ہی میں ان کے لیے ایسا مناسب انتظام کرلیا جائے کہ ان کے لیے مسجد سے باہر جانا بھی نہ پڑے اور پانی بھی مسجد میں نہ گرے۔ اسی طرح ہاتھ دھونے اور برتن دھونے کے لیے مسجد ہی میں مناسب انتظام کرلینا چاہیے۔ (مسائل اعتکاف، اعتکاف کے فضائل و احکام)
۱۱: معتکف جب وضو کے لیے جائے تو وضو کے دوران، مسواک اور ٹوتھ پیسٹ بھی کرسکتا ہے، صابن بھی استعمال کرسکتا ہے، بس کوشش کرے کہ ان اضافی کاموں میں وقت زیادہ خرچ نہ ہو۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، احسن الفتاویٰ)
۱۲: اعتکاف کی حالت میں کنگھی کرنا، ناخن اور بال کاٹنا بھی جائز ہے البتہ اس بات کا خیال رکھے کے ناخن اور بال مسجد میں نہ گرنے پائیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف)
۱۳: معتکف جب وضو یا قضائے حاجت کی ضرورت کے لیے مسجد سے نکلے تو آتے جاتے چلتے چلتے تو کسی کے ساتھ بات چیت، دعا سلام کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ ان کاموں کے لیے تھوڑی دیر بھی ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (سنن ابی داؤد رقم: ۲۴۷۴، اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ محمودیہ)
۱۴: معتکف کے بدن یا جسم پر اگر کوئی نجاست لگ جائے اور مسجد میں اس کو دھونے کا کوئی انتظام نہ ہو یا مسجد میں اس کو دھونا مشکل ہو تو اس ناپاکی کو دور کرنے کے لیے مسجد سے نکل سکتا ہے۔ (مسائل اعتکاف)
۱۵: معتکف کو پیشاب کے بعد قطرے نکلنے کا مرض ہو جس کی وجہ سے اس کو استنجا کی ضرورت پیش آرہی ہو تو وہ استنجا کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ (مسائل اعتکاف، اعتکاف کے فضائل و احکام)
۱۶: اگر کوئی اس قدر بیمار ہوا کہ اس کو روزہ توڑنے کی نوبت پیش آئی تو روزہ توڑنے سے اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدرالمختار)
۱۷: اعتکاف کی حالت میں مسجد میں کھانا پینا جائز ہے، البتہ اس کے لیے مناسب انتظام ہونا چاہیے تا کہ مسجد کی صفائی بھی متاثر نہ ہو اور دوسروں کو تکلیف بھی نہ ہو۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۱۸: معتکف کو کھانے پینے کی حاجت ہو اور کوئی لانے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ خود جاکر بھی لاسکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، ردالمحتار، فتاویٰ محمودیہ)
۱۹: اعتکاف کی حالت میں صرف غسل جنابت کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے، اس کے علاوہ جو غسل صفائی یا ٹھنڈک کے لیے ہو یا جمعہ کا مسنون غسل ہو تو اس کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ عثمانی)
۲۰: اگر کوئی شخص صفائی یا ٹھنڈک کے لیے غسل کرنا چاہے تو اس کے لیے مسجد ہی میں ایسا انتظام کرلے کہ پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے، جیسے کسی ایسے ٹب یا بڑے برتن کا انتظام کرلیا جائے جس میں مناسب پردے کے ساتھ غسل کیا جاسکتا ہو۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ محمودیہ)
دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں کسی مناسب جگہ عارضی غسل خانہ بنایا جائے، جو صرف غسل کے لیے ہو اور اس کا پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے۔ عارضی غسل خانہ بنانے کے لیے مستند اہل علم کی زیر نگرانی مناسب کوشش کرنی چاہیے۔
اگر مسجد میں ایسا کوئی انتظام نہ ہوسکتا ہو اور معتکف کو گرمی یا کسی اور وجہ سے نہانے کی شدید حاجت ہو رہی ہو تو ایسی شدید مجبوری میں بعض اہل علم نے اتنی اجازت دی ہے کہ جب قضائے حاجت کے لیے جائے تو ساتھ میں جلدی سے غسل بھی کرتا آئے، اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا، البتہ کوشش یہ ہو کہ اس اجازت پر شدید مجبوری ہی میں عمل کیا جائے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، آپ کے مسائل اور ان کا حل، فتاویٰ محمودیہ، فتاویٰ دارالعلوم زکریا)
۲۱: بہتر یہ ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں کرے جہاں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہو، لیکن اگر کوئی شخص ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھے جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لیے دوسری مسجد جاسکتا ہے۔ جمعہ کے لیے جاتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں مسجد سے نکلے جب اس کو اندازہ ہو کہ جامع مسجد پہنچ کر چار رکعات سنت ادا کرکے اس کے بعد خطبہ شروع ہوسکے۔ جمعہ کی فرض نماز ادا کرنے کے بعد چاہے تو سنتیں بھی وہاں ادا کرسکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتارعلی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۲۲:کوئی شخص جمعہ کے لیے کسی جامع مسجد گیا اور پھر واپس نہ آیا بلکہ وہیں اعتکاف کے لیے ٹھہر گیا تو اعتکاف تو صحیح ہوجائے گا لیکن ایسا کرنا مناسب نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتارعلی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۲۳: اگر کوئی مؤذن اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو اور اذان کی جگہ مسجد کی شرعی حدود سے باہر ہو تو اذان دینے کے لیے مسجد کی شرعی حدود سے باہر نکلنا جائز ہے، مگر اذان کے بعد فوراً مسجد لوٹ آئے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص باقاعدہ مؤذن تو نہیں لیکن کسی وقت اذان دینے کے لیے اسے مسجد کی شرعی حدود سے باہر نکلنا پڑے تو اذان کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہے۔ (اعتکاف کے فضائل واحکام، احکام اعتکاف، ردالمحتارعلی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)

اعتکاف سے متعلق چند اہم باتیں
۱: معتکف مسجد میں دنیوی باتیں کرسکتا ہے البتہ مسجد کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے فضول گپ شپ سے اجتناب کرے۔ اسی طرح گپ شپ کی محفلیں لگانا بھی اعتکاف کی روح اور مسجد کے تقدس کے خلاف ہے۔
۲: معتکف مناسب طریقے سے موبائل فون استعمال کرسکتا ہے البتہ یہ چیزیں ضرورت کی حد تک رکھے، موبائل کا بے جا استعمال مسجد کے احترام اور اعتکاف کی روح کے خلاف ہے۔
۳: معتکف کو چاہیے کہ اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ قیمتی بناتے ہوئے تلاوت، ذکر، نفلی عبادات اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرے، مستند دینی کتب کا مطالعہ کرے، دین کی ضروری باتیں سیکھنے کی بھرپور کوشش کرے، اگر کسی کے ذمے قضا نمازیں یا سجدہ تلاوت ہوں تو ان کی ادائیگی کی فکر کرے؛ غرض اعتکاف کے ایام میں اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے اعمال خوب سے خوب سرانجام دے تا کہ اعتکاف کا مقصد پورا ہوسکے۔

خواتین کے اعتکاف کے احکام
۱: اعتکاف جس طرح مردوں کے لیے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت ہے۔ اس لیے عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اعتکاف کی فضیلت سے اپنے آپ کو محروم نہ رکھیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۲: حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے لیے اعتکاف کرنا جائز نہیں، اس لیے اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے خواتین اس بات کا اطمینان کرلیں کہ کہیں ان کی ماہواری کی تاریخیں اعتکاف کے دوران تو آنے والی نہیں۔ اگر ماہواری کی تاریخیں اعتکاف کے دوران ہی آرہی ہیں تو ایسی صورت میں اعتکاف کے لیے نہ بیٹھیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۳: اعتکاف کے دوران کسی خاتون کو حیض یا نفاس آجائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اس کو چاہیے کہ اعتکاف ختم کرلے، اور بعد میں اس اعتکاف کی قضا کرلے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مسائل اعتکاف)
۴: شادی شدہ خواتین اعتکاف میں بیٹھنا چاہیں تو اپنے شوہروں کی اجازت کے بعد ہی اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتی ہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۵: نابالغ لڑکی اگر سمجھ دار ہو تو وہ بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۶: جس طرح مردوں کا اعتکاف مسجد ہی میں جائز ہے اسی طرح عورت کا اعتکاف گھر کی مسجد ہی میں درست ہے۔ گھر کی مسجد سے مراد وہ جگہ ہے جس کو نماز کے لیے مخصوص کیا گیا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا اعتکاف گھر کے صرف اسی حصے میں جائز ہے جو اس کی نماز کے لیے مخصوص ہو۔ اگر عورت نے اپنی نماز کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں کی ہو کہ جہاں وہ عموماً نماز ادا کرتی ہو بلکہ کبھی کہاں پڑھ لی تو کبھی کہاں، تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی جگہ اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے تو اس کا اعتکاف درست نہیں، بلکہ ایسی صورت میں وہ پہلے اپنی نماز کے لیے جگہ خاص کرے کہ نماز اسی جگہ ادا کرے گی تو پھر وہ اس جگہ اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتی ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ گھر میں کوئی ایسی جگہ مقرر کرلینا مستحب ہے جہاں خواتین اور گھر کے دیگر افراد نماز اور دیگر عبادات ادا کرلیا کریں۔ جو خواتین اعتکاف میں بیٹھنے کی خواہش مند ہوں تو پہلے اپنی نماز کے لیے ایسی جگہ مقرر کرلے جہاں وہ بسہولت اعتکاف کرسکے، پھر اس کے بعد وہ اسی جگہ اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے۔ اگر عورت نے اپنی نماز کے لیے کوئی جگہ تو مخصوص کر رکھی ہے لیکن اس جگہ اعتکاف کرنا مشکل ہو تو ایسی صورت میں پہلے وہ اپنی نماز کے لیے کوئی ایسی جگہ منتخب کرلے جہاں وہ سہولت کے ساتھ اعتکاف کرسکے، پھر اس کے بعد وہ اسی جگہ اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے، بھلے وہ اعتکاف کے بعد کسی وجہ سے اس جگہ پابندی کے ساتھ نماز ادا نہ کرسکے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۷: گھر میں جس جگہ کو نماز کے لیے مخصوص کیا گیا ہو تو وہ پوری اعتکاف کی جگہ کہلائے گی، البتہ عورت اپنے اعتکاف کے لیے اتنی جگہ گھیر سکتی ہے جہاں وہ سہولت کے ساتھ نماز بھی ادا کرسکے اور آرام بھی کرسکے۔
۸: عورت اپنے اعتکاف کی جگہ کے ارد گرد پردے لگا سکتی ہے، لیکن اگر بغیر پردوں کے اعتکاف میں بیٹھنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ اس بات کا خصوصی دھیان رہے کہ جتنی جگہ اعتکاف کے لیے گھیری ہو وہاں کوئی نشانی لگادے تا کہ غلطی سے کہیں اس سے باہر نہ چلی جائے، ورنہ تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف)
۹: ۲۰ رمضان کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے عورت اعتکاف کی نیت سے اپنے اعتکاف کی جگہ آجائے تا کہ جب سورج غروب ہونے لگے تو یہ اعتکاف کی حالت میں ہو، اور جب عید کا چاند نظر آجائے تو یہ سنت اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
۱۰: عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے عشرے میں اپنے اعتکاف کی جگہ ہی میں رہے، اگر اس جگہ سے کسی شرعی عذر کے بغیر نکل گئی چاہے بھول کر ہو یا جان بوجھ کر تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۱۱: عورت اپنے اعتکاف کی جگہ سے صرف انہی ضروریات کے لیے نکل سکتی ہے جن کے لیے نکلنا مردوں کے لیے جائز ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، حاشیۃ الطحاوی علی المراقی، ردالمحتار علی الدرالمختار، مسائل اعتکاف)
۱۲: مرد چونکہ مسجد میں اعتکاف کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے کئی چیزیں اس لیے ممنوع ہوتی ہیں کہ وہ مسجد کے احترام کے خلاف ہوتی ہیں، لیکن عورت جہاں اعتکاف کرتی ہے وہ گھر کی مسجد تو کہلاتی ہے لیکن اس پر حقیقی مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ عورت اعتکاف کی جگہ دنیوی بات چیت بھی کرسکتی ہے، گھر کے کام کاج بھی کرسکتی ہے، سینے پرونے کے کام بھی کرسکتی ہے، گھر کے افراد کو مشورہ بھی دے سکتی ہے؛ غرض اعتکاف کی جگہ بیٹھے بیٹھے ایسے دنیوی کام کرسکتی ہے اور ان کی وجہ سے اعتکاف پر کوئی اثر بھی نہیں پڑتا، لیکن کوشش کرے کے اعتکاف کے دوران اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ عبادات میں خرچ کرے، اور کوئی ضرورت نہ ہو تو ان دنیوی کاموں سے جتنا ہوسکے دور رہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکام اعتکاف، مسائل اعتکاف)
۱۳: جو خواتین سنت اعتکاف کے لیے نہیں بیٹھ سکتیں تو انہیں چاہیے کہ وہ گھر کی مسجد میں نفل اعتکاف کے لیے بیٹھ جایا کریں، اس کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ خواتین کے لیے نفل اعتکاف کے احکام وہی ہے جو کتاب کے شروع میں نفلی اعتکاف کی بحث میں بیان ہوچکے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، فتاویٰ محمودیہ)

کن صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے؟
جن صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے ان میں سے چند یہ ہیں:
۱: کوئی آدمی ایسا بیمار ہوجائے کہ اس کے لیے اعتکاف برقرار رکھنا مشکل ہوجائے یا اس کو علاج کے لیے مسجد سے نکلنا پڑجائے۔
۲: کسی شخص کے والدین یا بیوی بچے اس قدر بیمار پڑجائیں کہ ان کے لیے مسجد سے نکلنے کی ضرورت پیش آجائے۔
۳: جنازہ تیار ہو اور کوئی دوسرا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ہو۔
ان جیسی صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے، البتہ اس کی قضا لازم ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ (احکام اعتکاف)

اعتکاف کی قضا کا طریقہ
۱: سنت اعتکاف جب ٹوٹ جائے تو اس کی قضا لازم ہوتی ہے۔ (احکام اعتکاف، فتاویٰ عثمانی)
۲: قضا اعتکاف کے لیے روزہ بھی ضروری ہے، اس لیے اگر رمضان ہی میں قضا کرنا ہے تو اس صورت میں تو روزہ ہوتا ہی ہے، اور اگر رمضان کے علاوہ دیگر دنوں میں اعتکاف کی قضا کرنی ہے تو اس کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ (احکام اعتکاف، فتاویٰ عثمانی، فتاویٰ محمودیہ)
۳: رمضان کا سنت اعتکاف جب بھی ٹوٹ جائے تو صرف ایک دن کی قضا لازم ہوتی ہے۔ (احکام اعتکاف، فتاویٰ عثمانی، فتاویٰ محمودیہ)
۴: اگر اعتکاف صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے کے درمیان کسی وقت ٹوٹا ہو تو اس صورت میں صرف دن کی قضا لازم ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ صبح صادق کا وقت داخل ہونے سے پہلے قضا اعتکاف کی نیت سے مسجد آجائے، پھر جب سورج غروب ہوجائے تو یہ قضا اعتکاف پورا ہوجاتا ہے۔ اور اگر سورج غروب ہونے سے لے کر صبح صادق تک کسی وقت ٹوٹا ہے تو اس کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلء قضا اعتکاف کی نیت سے مسجد آجائے، اور اگلے دن جب سورج غروب ہوجائے تو اس کا اعتکاف کا وقت ختم ہوجائے گا۔ (احکام اعتکاف)
۵: وہ حضرات جن کا اعتکاف ٹوٹ جائے اور رمضان کے ایام ابھی باقی ہوں تو وہ گھر جاسکتے ہیں، لیکن اگر وہ گھر نہ جانا چاہیں بلکہ اعتکاف کی نیت سے مسجد ہی میں رہنا چاہیں تو ان کا یہ اعتکاف نفلی کہلائے گا، ان کے ذمے سنت اعتکاف کی پابندیاں لاگو نہیں ہوں گی، البتہ انہیں چاہیے کہ وہ اسی رمضان میں اس اعتکاف کی قضا کرلیں، لیکن اگر وہ فی الحال قضا نہ کرنا چاہے تو بعد میں قضا کرلے، جس کا طریقہ اوپر بیان ہوچکا۔

ضروری ہدایات اور مفید تجاویز
۱: معتکف کو اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے کہ جس کے بارے میں اس کو علم نہ ہو کہ اس سے اعتکاف ٹوٹتا ہے یا نہیں، تو ایسی صورت میں پہلے کسی مستند عالم سے پوچھ لے، پھر اس کے بعد عمل کرے، کیوں کہ معتکف کا اعتکاف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ پوچھ پوچھ کر عمل کرتا رہے، ورنہ تو بہت سے لوگ پہلے کوئی کام کرڈالتے ہیں اور پھر اس کے بعد پوچھتے ہیں کہ اس سے اعتکاف ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ذرا سی غفلت کی وجہ سے اپنا اعتکاف فاسد کرلیتے ہیں، یہ انتہائی نقصان کی بات ہے۔
۲: معتکفین حضرات اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ ان کی ذات اور سامان کی وجہ سے کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ معتکفین کو اور نہ دیگر نمازیوں کو۔
۳: معتکفین حضرات باہمی محبت، ہمدردی، تعاون، خدمت اور خوش اخلاقی کے ساتھ رہیں تا کہ اعتکاف میں کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے اور اعتکاف چین و سکون کے ساتھ گزرے۔ اور اگر ایسا کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آبھی جائے تو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کریں۔
۴: بہتر یہ ہے کہ مسجد میں سنت اعتکاف کرنے والے حضرات کے ساتھ ساتھ کوئی شخص نفلی اعتکاف میں بھی بیٹھ جائے تا کہ ضرورت کے موقع پر معتکفین کے ساتھ تعاون کرسکے، اس سے معتکفین کے لیے بڑی آسانی رہتی ہے۔

اشاعت: تحفہ ماہ رمضان المبارک از مبین الرحمن
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی- متخصص جامعہ اسلامیہ طیبہ کراچی