- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

قضا، کفارہ اور فدیہ کے احکام

۱: رمضان المبارک کا کوئی بھی روزہ بغیر عذر کے نہ رکھنا گناہ کبیرہ ہے، اس روزے کی قضا لازم ہے البتہ کفارہ واجب نہیں۔ (امداد الفتاویٰ، ردالمحتار)
۲: رمضان المبارک کا روزہ بلاعذر توڑنا گناہ کبیرہ ہے، اس روزے کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی۔ البتہ رمضان کے علاوہ دیگر ایام کے روزے توڑ دینے سے صرف قضا لازم ہوتی ہے، کفارہ نہیں۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار، مراقی الفلاح مع نور الایضاح، بہشتی زیور)

وضاحت:
روزے کی حالت میں کھانے پینے سے کفارہ اس وقت لازم ہوتا ہے جب ایسی چیز کھائے پیے جو غذا، دوا، لذت لذت یا طبعی رغبت کے طور پر استعمال کی جاتی ہو، لیکن اگر وہ ایسی چیز ہے جو مذکورہ مقاصد کے لیے استعمال نہیں کی جاتی جیسے کسی نے جان بوجھ کر کوئی تنکا، کاغذ یا اس جیسی کوئی اور چیز نگل لی تو اس سے صرف قضا لازم ہوتی ہے، کفارہ نہیں۔ (ماہ رمضان کے فضائل و احکام از مفتی محمد رضوان صاحب)
۳: ایک ہی رمضان میں کئی روزے بلاعذر توڑ دیے تو سب کی جانب سے ایک کفارہ بھی کافی ہے، البتہ قضا رکھنا تو ہر ایک روزے کا ضروری ہے۔ (امدادالفتاوی، ردالمحتار علی الدرالمختار، بہشتی زیور)
۴: رمضان کا کوئی روزہ قضا ہوجائے تو رمضان المبارک کے بعد جتنی جلدی ہوسکے اس روزے کی قضا رکھنا بہتر ہے، بلاعذر تاخیر کرنا اچھا نہیں، اگر کسی وجہ سے اگلے رمضان تک بھی یہ روزہ نہ رکھ سکے تو اس سے اگلے سال رکھ لے۔ (ماہ رمضان کے فضائل و احکام، مراقی الفلاح، بہشتی زیور)
۵: رمضان کے کئی روزے قضا ہوجائیں تو بعد میں ان کی قضا رکھتے وقت سب کو ایک ساتھ رکھنا بھی درست ہے اور وقفے وقفے سے رکھنا بھی درست ہے۔ (ماہ رمضان کے فضائل و احکام، مراقی الفلاح مع نور الایضاح)

روزے کا کفارہ
۱: روزے کا کفارہ یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے، اگر درمیان میں کسی دن کسی بھی وجہ سے روزہ نہ رکھا تو دوبارہ شروع سے روزے رکھنے ہوں گے، اسی طرح اگر کسی عورت کو بچے کی ولادت کے بعد نفاس آجائے تو وہ بھی پاک ہوجانے کے بعد دوبارہ شروع سے روزے رکھے گی، البتہ اگر ان ایام میں کسی خاتون کو ماہواری (یعنی حیض) آجائے تو اس سے کفارے پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ ماہواری کے دنوں کو شمار کیے بغیر دو ماہ کے روزے پورے کرے۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار، مراقی الفلاح مع نور الایضاح، بہشتی زیور)
۲: کفارے کے یہ دو مہینے کے روزے اگر اسلامی مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کرنے ہوں تو اس صورت میں مہینوں کا اعتبار ہوگا کہ دو اسلامی مہینے ہی روزے رکھنے ہوں گے، بھلے وہ ساٹھ دن سے کم ہوں، اور اگر یکم کے علاوہ دیگر تاریخوں سے شروع کرنے ہوں تو پھر پورے ساٹھ روزے ہی رکھنے ہوں گے۔ (ماہ رمضان کے فضائل و احکام)
۳: اگر کوئی شخص ایسا شدید مریض ہے یا اس کو کوئی ایسا سنگین عذر لاحق ہے کہ وہ کفارے کے دو ماہ کے روزے نہیں رکھ سکتا ت وایسا شخص 60 زکوۃ کے مستحق افراد میں سے ہر ایک کو ایک ایک صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے۔ ایک مستحق زکوۃ کو 60 دن دے دے یا 60 مستحقین زکوۃ کو ایک ہی دن دے دے دونوں درست ہیں۔ (ماہ رمضان کے فضائل و احکام، فتاویٰ عثمانی، مراقی الفلاح مع نور الایضاح، بہشتی زیور)

فدیہ کے احکام
۱: اگر کسی شخص سے رمضان کا ایک یا ایک سے زائد روزے قضا ہوجائیں تو ان کی قضا رکھنا ضروری ہے۔ فدیہ تو اس وقت دیا جاتا ہے جب کوئی ایسا مرض یا عذر لاحق ہو کہ روزہ رکھنے کی امید ہی نہ رہے، جب تک صحت یابی کی امید ہو تو فدیہ دینے کا حکم لاگو نہیں ہوتا۔ جب صحت یابی کی امید نہ رہے تو اس صورت میں فدیہ دے دے، پھر اگر بعد میں اللہ تعالی نے صحت دے دی تو ان روزوں کی قضا رکھنا ضروری ہوگا اور فدیہ میں جو رقم دی تھی اس کا ثواب ملے گا، اور اگر فدیہ دینے کا موقع نہ ملے تو وصیت کر جائے کہ میرے ذمے اتنے روزے باقی ہیں، ان کا فدیہ دے دیا جائے۔ (ردالمحتار، ماہ رمضان کے فضائل و احکام، فتاوی عثمانی)
۲: ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، جس دن فدیہ دنیا ہو تو اس دن صدقہ فطر کی قمیت معلوم کر کے اسی حساب سے فدیہ ادا کیا جائے۔ (ردالمحتار، فتاوی عثمانی، فتاویٰ رحیمیہ)
۳: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ میرے روزوں کا فدیہ ادا کیا جائے اور اس نے مال بھی چھوڑا ہو تو اس وصیت کو پورا کرنا ضروری ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ اگر میت پر کوئی قرضہ ہو تو سب سے پہلے میت کے مال میں سے قرضہ ادا کیا جائے، پھر اس کے بعد کل مال کے ایک تہائی حصے میں سے فدیہ کی یہ وصیت پوری کی جائے۔ اگر وہ ایک تہائی مال کم پڑ رہا ہو اور وہ وصیت اس میں پوری نہیں ہو پارہی ہو تو اس وصیت کو پورا کرنے کے لیے ایک تہائی سے زیادہ رقم خرچ کرنا ورثا کے ذمے لازم نہیں، البتہ اگر وہ خوشی سے دے دیں تو میت پر احسان ہوگا۔ اسی طرح اگر میت نے مال نہیں چھوڑا ہو یا اس نے وصیت ہی نہیں کی ہو تو اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنا واجب تو نہیں لیکن میت پر احسان کرتے ہوئے ادا کردینا ایک بہترین عمل ہے۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار، ماہ رمضان کے فضائل و احکام)
۴: فدیہ صرف انہی لوگوں کو دینا جائز ہے جن کو زکوۃ دینا جائز ہے۔ (ردالمحتار، ماہ رمضان کے فضائل و احکام، فتاویٰ عثمانی)

افطاری کے احکام
۱: جب سورج ڈوب جائے اور مغرب کا وقت داخل ہوجائے تو روزہ افطار کرنے کا اصل وقت یہی ہے، مغرب کا وقت داخل ہونے سے پہلے افطار کرنا ہرگز جائز نہیں۔ (اعلاء السنن، ردالمحتار، ماہ رمضان کے فضائل و احکام)
۲: روزہ افطار کرنے میں اصل اعتبار مغرب کا وقت داخل ہونے کا ہے، مغرب کا وقت داخل ہوجائے تو افطار کرنا جائز ہے اگر چہ اذان نہیں ہوئی ہو۔ (اعلاء السنن، ردالمحتار، ماہ رمضان کے فضائل واحکام)
۳: اگر کسی نے غلطی سے مغرب کا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی افطار کرلیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اس کے ذمے اس روزے کی صرف قضا لازم ہے، البتہ اگر یہ معلوم تھا کہ ابھی افطار کا وقت نہیں ہوا اور پھر بھی اس نے جان بوجھ کر افطار کرلیا تو اس کے ذمے اس روزے کی قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔
۴: اگر مسجد میں مغرب کا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی اذان دے دی گئی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ افطار کے لیے مغرب کے وقت کے داخل ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے۔
۵: افطاری کی دعا: اللھم لک صمت و علی رزقک افطرت۔ (سنن ابی داود رقم: 2358، پُر نور دعائیں از شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، ماہ رمضان کے فضائل و احکام)