- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

دعائے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

حفاظت کی دعاؤں میں ایک بہت ہی اہم دعا وہ ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو سکھائی تھی، اس کی برکت سے وہ ہر قسم کے مظالم اور فتنوں سے محفوظ رہے، اس دعا کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے جمع الجوامع میں نقل فرمایا ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کی شرح فارسی زبان میں تحریر فرمائی ہے،اور اس کا نام ”استیناس انوار القبس فی شرح دعا انس“ تجویز فرمایا ہے، ذیل میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دعا پیش خدمت ہے، حضرات علماء و طلباء و مبلغین اسلام اور تمام اہلِ اسلام صبح و شام اس دعا کو پڑھا کریں، ان شاء اللہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، وہ دعا یہ ہے:
«بسم الله علی نفسی و دینی، بسم الله علی اهلی و مالی و ولدی، بسم الله علی ما اعطانی الله، الله ربی لا اشرک به شیئاً، الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر و اعزُّ و اجلّ و اعظمُ مما اخاف و احذر عزّ جارُک و جَلّ ثناؤک و لا اله غیرک، اللهم انی اعوذبک من شر نفسی و من شر کل شیطان مرید، و من شر کل جبارٍ عنید، فان تولوا فقل حسبی الله لا اله الا هو علیه توکلت و هو رب العرش العظیم، ان ولی الله الذی نزل الکتب و هو یتولی الصلحین.»
فائدہ: شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ جلیل القدر حافظ حدیث ہیں، انہوں نے ”جمع الجوامع“ میں نقل کیا ہے کہ ابوالشیخ نے ”کتاب الثواب“ میں اور ابنِ عساکر نے اپنی تاریخ میں یہ واقعہ روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے، حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چارسو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے، حکم کی تعمیل کی گئی، حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: فرمائیے! اپنے آقا یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ فرمایا: بخدا! یقینا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدر جہا بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے: جن گھوڑوں کی لوگ پرورش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں:
ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالی کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا، اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔
دُوسرا شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)۔
تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی پرورش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تا کہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں، حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا، نیز امیرالمومنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے بابت لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظر بد سے دیکھ سکے، میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات سن رکھے ہیں، میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے، حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہوگیا، تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: اے ابوحمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھا دیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاؤں گا، بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔
پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ سے چاہے تھے مگر آپ نے اس کو سکھائے نہیں، فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی تھے، اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں، صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ و تعالی تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے۔